عمران عثمانی
پاکستان پھر ایشیا کپ چیمپئن،وہی مقام،وہی میدان۔ایشیا کپ تاریخ،پاکستان 12 برس بعد ڈرامائی ایشین چیمپئن بنا ۔ایشیا کپ کرکٹ ٹورنامنٹ کا 11 واں ایڈیشن 2012 میں بنگلہ دیش میں ہوا۔1988 اور 2000 کے بعد بنگلہ دیش ٹیم تیسری بار ایونٹ کی میزبانی کررہی تھی۔پاکستان کو ایونٹ جیتے 12 سال ہوگئے تھے،پہلی وآخری بار اس نے 2000 میں بنگلہ دیش میں جیت حاصل کی تھی۔اس بار بھی 2010 کہہ لیں یا ابتدائی فارمیٹ کے مطابق 4 ٹیموں نے شرکت کی۔مشفیق الرحیم،مہیلا جے وردھنے،ایم ایس دھونی اور مصباح الحق کپتان تھے،ایونٹ کا آغاز11 مارچ کو ہوا۔فائنل 22 مارچ کو کھیلا گیا۔پاکستان نے 3 میچزمیں 2 فتوحات اور ایک بونس پوائنٹ لے کر 9 پوائنٹس کے ساتھ ٹاپ کیا۔حیران کن طور پر بنگلہ دیش اتنی ہی فتوحات وشکست کے ساتھ بنا بونس پوائنٹس لئے 8 پوائنٹس کے ساتھ دوسری پوزیشن حاصل کی۔بھارت بھی اسی نمبرزکے ساتھ 8 پوائنٹس لے چکا تھا لیکن نیٹ رن ریٹ کم ہونے پر فائنل سے باہر ہوا۔سری لنکا کے لئے اتنا بد ترین ایشیا کپ پہلے کبھی نہ تھا،4 بار کا چیمپئن سنگل میچ بھی نہ جیت سکا۔
مارچ کی 11 تاریخ کو پاکستان نے بنگلہ دیش کو 21 رنز سے ہرادیا۔محمد حفیظ 89 رنزبناکر سردار بنے۔بنگلہ دیشی ٹیم 241 اسکور پر ڈھیر ہوگئی۔عمر گل نے 58 رنز دے کر 3 وکٹیں لیں۔13 مارچ کو بھارت نے سری لنکا کو 50 رنز سے ہرادیا۔15 مارچ کو پاکستان نے سری لنکا کو 188 تک محدود کیا۔اعزاز چیمہ نے43 رنز دے کر 4 وکٹ لیں۔پاکستان نے ہدف 4 وکٹ پر پورا کیا۔عمر اکمل 77 رنزکے ساتھ نمایاں رہے۔ایشیا کپ کے 16 مارچ کے میچ میں بڑا اپ سیٹ ہوا۔بنگلہ دیش نے پہلی بار اس ایونٹ میں بھارت کو سنسنی خیز مقابلہ میں 5 وکٹ سے ہرادیا،بھارتی ٹیم نے5 وکٹ پر 289 اسکور بنائے۔سچن ٹنڈولکر نے 114 کی اننگ کھیلی۔جواب میں بنگلہ دیش نے 4 بالز قبل 5 وکٹ پر 293 اسکور بناکر تاریخی جیت رقم کی۔تمیم اقبال نے 70 رنزکئے۔
مینکڈ رن آئوٹ کے باوجودافغانستان کی تمام کوششیں ناکام،نسیم شاہ نے پھر فتح چھین لی
پاکستان اور بھارت کا روایتی مقابلہ 18 مارچ کو ہوا۔پاکستان نے 6 وکٹ پر 329 اسکور کرکے اپنی جانب سے سب کچھ فتح کیا۔ناصر جمشید نے112 کی اننگ کھیلی۔بھارت نے کمال کردیا،ہدف 4 وکٹ پر 13 بالز قبل پورا کیا۔ویرات کوہلی نے ایونٹ کی تاریخ کی سب سے بڑی 183 رنزکی فتح گر اننگ کھیلی۔اب ایک ایسا میچ تھا جو 20 مارچ کو تھا،سری لنکا دونوں میچز ہارکر باہر ہوچکا تھا،بنگلہ دیش سے جیت جاتا تو پاکستان ااور بھارت فائنل کھیل جاتے،بنگلہ دیش اگر ہارتا بھی تو نیٹ رن ریٹ کم ہوتا تو بھی پاکستان اور بھارت کھیل جاتے لیکن میزبان ٹیم کے ستارے چمک رہے تھے۔اس نے پہلے سری لنکا کو 232 رنز تک محدود کیا،پھر ہدف 38 ویں اوور میں ہدف 5 وکٹ پر پورا کرکے نہ صرف جیت اپنے نام کی،ساتھ میں فائنل کا ٹکٹ بھی کٹوالیا۔تمیم اقبال نے فتح گر59 رنزبنائے۔فائنل پاکستان اور بنگلہ دیش کا 22 مارچ کو ہوا۔شیر بنگلہ میر پور کرکٹ اسٹیڈیم میں بنگلہ دیشی ٹیم ایشیا کپ کی تاریخ کا پہلا فائنل کھیل رہی تھی۔5 مرتنہ کی دفاعی چیمپئن بھارتی ٹیم باہر تھی۔4 بار کی ایشین چیمپئن سری لنکا کی لنکا پہلے ہی ڈھے گئی تھی،ایک بار کا چیمپئن پاکستان سامنے تھا۔
ایشیا کپ 2010،بھارت چیمپئن،آفریدی ہیرو،پاک،بھارت کھلاڑیوں کی نوک جھونک سے ماحول گرم
پھر پاکستان ٹیم 9 وکٹ پر جب صرف 236 اسکور تک محدود ہوئی تو جیت کے امکانات کم ہوگئے ۔سرفراز احمد کے ناقابل شکست 46 رنز نمایاں تھے۔جواب میں بنگلہ دیشی ٹیم ہر موقع پر جیت کے قریب تھی،آخر میں نبض کھوبیٹھی۔8 وکٹ پر 234 اسکور تک محدود ہوئی۔شکیب الحسن کے 68 رنز رائیگاں گئے۔اعزاز چیمہ کی 3 وکٹٰن کارگربنیں،ساتھ میں ڈیٹھ اوورز میں تمام گیند بازوں نے کمال کیا۔پاکستان سنسنی خیز مقابلہ کے بعد 2 رنز سے ایشیشن چیمپئن بن گیا۔پاکستانی سڑکوں پر جشن کا سماں تھا،بنگلہ دیش جہاں یہ فائنل کھیلا گیا تھا،وہاں غم کا گہرا سکوت تھا۔
ایشیا کپ،8 ویں ایڈیشن میں بھارت پاکستان سے ہارگیا لیکن فائنل میں سپر ڈرامہ
ویرات کوہلی 357 رنز اور عمر گل 9 وکٹ کے ساتھ اپنے شعبوں کے ٹاپ پرفارمرز تھے لیکن شکیب الحسن کو ایونٹ کا بہترین پلیئر منتخب کیا گیا۔پاکستان تاریخ میں دوسری بار ایشین چیمپئن بن گیا تھا۔