کرک اگین رپورٹ
جب ہم اپنی کرکٹ تاریخ سے اپنے ہی کامیاب ترین کپتان کو باہر نکال دیں تو دنیا ہمیں اس کھیل میں ٓآسانی سے داخل ہونے دے گی؟اس سے ذرا آگے،ہم اسے بھارتی ہٹ دھرمی کہہ کر شور مچائیں لیکن ایونٹ آئی سی سی کا ہو،وہ اس ذلالت پر خاموش رہے۔رکن کرکٹ ممالک منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکالیں تو پھر کیا پوری دنیا ہٹ دھرم کہلائے گی؟
بھکاریوں کی طرح ویزے۔لاٹری کی طرح سسپنس،ماحول ایسا کہ جیسے کسی ترقی یافتہ ملک کی نیشلنٹی ملنے لگی ہو۔بریکنگ نیوز ایسی کہ جیسے انہونی ہوگئی ہو۔امید وبیم کی کیفیت میں ڈوبے وہ کرکٹ فینز،وہ میڈیا نمائندگان جیسے ہفت اقلیم کی دولت آنی ہو،ہر پل ای میل چیک ہورہا ہے۔ہرلمحہ انتظار ہے کہ آئی سی سی ایکریڈیشن کی خوشخبری مل جائے۔مل بھی جائے تو ادھوری خوشی کہ ویزے کا علم نہیں ہے۔
کیا ہورہا ہے یہ سب۔یہ حنیف محمد جیسے قد آور کرکٹر کا ملک ہے۔یہ اس ٹیسٹ سٹیٹس رکھنے والا ملک ہے جس نے اپنی اولین ٹیسٹ سیریز میں ہی ہر ملک کو ہرایا تھا۔یہ فضل محمود کا ملک ہے۔محمد برادران کا ملک ہے۔یہ ایسا کرکٹ ملک ہے جہاں نصف صدی کے قریب کئی بڑے ممالک ٹیسٹ سیریز تک نہ جیت سکے تھے۔یہ سرفراز نوازکا ملک ہے۔یہ صدی کے عظیم کپتان اورآل رائونڈر عمران خان کا ملک ہے۔یہاں سے جاوید میاں داد،عبدالقادر،توصیف احمد،اقبال قاسم،ظہیر عباس،سعید انور،عامر سہیل،وسیم اکرم،وقار یونس،شعیب اختر،ثقلین مشتاق،مشتاق احمد،انضمام الحق،یونس خان، جیسے قد آور کرکٹرز نے کرکٹ ،ملک اور کھیل کی عزت بڑھائی ہے۔100 نام اور ہیں ۔آئی سی سی کی گلوبل باڈی ان ناموں کو نکال کر اپنی کرکٹ ہسٹری مرتب نہیں کرسکتی۔میگا ایونٹ ان کے بغیر نامکمل ہیں اور ٹیسٹ یا محدود اوورز کی کرکٹ نہیں ہوسکتی۔صف اول کے بیٹر بابر اعظم سامنے ہیں لیکن ہمارے حالات کیا ہیں ۔ہم آئی سی سی کا میگا ایونٹ کرکٹ ورلڈکپ کھیلنے جارہے ہیں اور ہماری حالت یہ ہے کہ روانگی کا پہلا شیڈول منسوخ ہوگیا۔دوسرا شیڈول سر پر ہے۔افراتفری ہے۔
ہم اسے بھارت کی روایتی ہٹ دھرمی کہہ رہے ہیں۔بھائی وہ ہے۔ہمیشہ سے ہے لیکن کیا کبھی ایسا سلوک پہلے کبھی ہوا کہ 36 گھنٹے سے کم کا وقت باقی ہو،ویزوں کا علم نہ ہو۔پاکستان کرکٹ بورڈ آئی سی سی سے خط وکتابت کررہا ہو۔احتجاج کررہا ہو۔اور تو اور ایک شیڈول منسوخ ہوچکا ہو۔آئی سی سی گلوبل ایونٹ میں اس سے پہلے کبھی ایسی تذلیل ہوئی ہے؟کسی کو یاد پڑتا ہے۔
ڈرامائی موڑ ،پاکستانی خط،بھارتی ویزے آگئے،حقائق ساتھ
کرک اگین نے انہی صفحات پر پہلے بھی لکھا تھا،اب پھر اعادہ ہے کہ ہمارے یہی حالات رہے ،ہماری یہی روش رہی تو اس سے بھی بد تر سلوک ہوگا۔ایسا سلوک کہ جیسے بھکاریوں سے کیا جاتا ہے۔غلاموں سے ہوتا ہے۔عام پڑھنے،دیکھنے اور سننے والوں کے جذبات بری طرح مجروح ہوئے ہیں تو قومی کھلاڑیوں کے احساسات کیا ہونگے لیکن ہم بڑی خوش فہمی میں یہ نعرے لگاتے ہیں کہ کوئی بات نہیں۔ہم وہاں سے ورلڈکپ جیت کر بھرپور جواب دیں گے۔ایسے مجروح احساسات کا شکار کھلاڑی چیمپئن بن سکتے ہیں۔جو ملک ویزے کے ایسے حالات پیدا کررہا ہو،وہ آپ کو مرضی کی پچز دے کر یہ کہے گا کہ جائو بیٹا ورلڈکپ لے جائو۔پاکستان کرکٹ ٹیم سنجیدہ تجزیہ نگاروں کی لسٹ میں فائنل 4 میں بھی نہیں شامل۔اوپر سے ٹیم سلیکشن اس معیار کی نہیں ہے کہ بھارتی پچز پر ہمیں دوسرا یا تیسرا جیسا اسپیشلسٹ میسر ہو۔اس لئے یہ بڑی مشکل بات ہوگی۔خدا کرے کہ پاکستان جیتے۔ورلڈچیمپئن بنے۔ملک کی عزت بڑھے لیکن ٹیم کی کنڈیشن،سامنے کے حالات ایسے ہرگز نہیں ہیں۔
کرکٹ ورلڈکپ آئی سی سی کا ایونٹ ہے لیکن اسی گلوبل باڈی نے پاکستان کے معاملہ میں میڈیا ایکریڈشن کا معاملہ بھی بھارتی ویزے جیسا کررکھا ہے۔اس کا کیا مطلب ہے؟گلوبل باڈی ایک رکن ملک کے سفری انتظامات کی مانیٹرنگ میں ناکام ہو،اس کا تدارک بھی نہ کرپائے۔اوپرسے میڈیا نمائدگان،کرکٹ فینز،احسن رضا جیسے اپنے امپائر،رمیز راجہ جیسے کمنٹیٹر کا تحفظ نہ کرے تو اس کا مطلب واضح ہے۔
سوال پھر وہی ہے کہ ہم نے ایسے ہی رہنا ہے۔کیا کرکٹ کا بھی کوئی آئی ایم ایف آگیا ہے یا پھر ہم نے کہیں غیر مشروط دستخط کردیئے ہیں۔کرکٹ میں بھی ایک کال آتی ہے اور ہم ایسے ہوجاتے ہیں یا کچھ اور معاملہ ہے۔کرکٹ کا بھی کوئی قانون ہے یا نہیں۔کیا پی سی بی سے اٹھ کر اب کوئی کہے گا کہ کرکٹ قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیں گے۔بھلے ہر لمحہ خود قانون سے بالاتر ہوں۔
مذاق گلی ،محلے میں بھی نہیں چلتے،6 گھر کی گلی میں بھی رہنے،گزرنے،کھانے،پینے اور رہن سہن کے اصول ہوا کرتے ہیں۔اس کے بغیر وہ گلی محلہ نہیں بلکہ جنگل کا کنارہ بن جاتا ہے اور جہاں پورے سسٹم میں جنگل جیسا ماحول ہو،وہاں یہی سب کچھ ہوتا ہے اور انتہائی نکتہ کی بات یہ ہے کہ ایسے جنگل کی مدح سرائی والے بھی آخرکار محروم ہوجاتےہیں اور ہوبھی گئے ہیں۔