عمران عثمانی
ایشیا کپ،پاکستان بھارت کو ہراکربھی چیمپئن نہ بن سکا،جیسا کہ گزشتہ رپورٹ میں ذکر کیا جاچکا ہے کہ 1993 میں پاکستان میں ہونے والا ایشیا کپ کرکٹ ٹورنامنٹ منسوخ کردیا گیا تھا،اس کے بعد تاریخ کا 5 واں ایشیا کپ اس کے 2 سال بعد 1995 میں شارجہ میں ہوا۔یہاں کسی کو کوئی مسئلہ تھا،نہ جھگڑا۔چنانچہ چاروں ممالک پاکستان،بھارت،سری لنکا اور بنگلہ دیش یکجا ہوئے۔پاکستانی ٹیم کی قیادت وکٹ کیپر بیٹر معین خان کررہے تھے۔بھارتی کپتان محمد اظہر الدین تھے۔ارجنا رانا ٹنگا سری لنکا اور اکرم خان بنگلہ دیش کے سپہ سالار تھے۔5واں ایشیا کپ 5 سے 14ا پریل کے درمیان شارجہ میں کھیلا گیا۔سابقہ فارمیٹ تھا،ہر ٹیم نے دوسری کے خلاف ایک ایک میچ کھیلنا تھا۔ٹاپ 2 ٹیموں کا فائنل ہونا تھا۔
ایشیا کپ تاریخ،پاکستان نے 1990 میں چوتھا ایشیا کپ کھیلنے سے انکارکردیا
اس وقت تک بھارت 3 بار اور سری لنکا ایک بار ایشیا کپ جیت چکے تھے۔پاکستان تاحال ایشین کیپ کا منتظر تھا۔شارجہ کی سرزمین قریب ایک عشرے سے پاکستان پر مہربان ثابت ہورہی تھی۔پھر اس بار اس لئے بھی امیدیں زیادہ تھیں کہ اس کے پاس 1992 ورلڈکپ جیتنے کےباعث ورلڈچیمپئن کا ٹائٹل بھی تھا۔پھر سونے پہ سہاگا یہ تھا کہ پاکستان نے اپنے اولین میچ میں بھارت کو 97 رنز سے ہراکراپنے فیورٹ ہونے کا یقین دلادیا تھا۔پھر ہوا کیا؟اس کے لئے پہلا میچ دیکھتے ہیں۔5 اپریل کو پہلے میچ میں بھارت نے بنگلہ دیش کو9 وکٹ کی بڑی شکست دی۔اگلے روز 6 اپریل کو سری لنکا نے بھی بنگلہ دیش کو107 رنز سے ہراکر اس کا ٹورنامنٹ تو تمام کردیا۔7 اپریل کو پاکستان روایتی حریف بھارت کے سامنے آیا۔پہلے کھیل کر 9 وکٹ پر 266 اسکور بنائے۔اس میں عامر سہیل کے 40،سعید انور کے 25،انضمام الحق کے 88 اور وسیم اکرم کے قیمتی 50 رنز شامل تھے۔133 پر 5 وکٹ گنوانے کے بعد انضمام اور وسیم نے ہی چھٹی وکٹ پر81 قیمتی رنزکا اضافہ کرکے بڑے ٹوٹل کی بنیاد رکھی تھی۔
ایشیا کپ ہسٹری،پاکستان اپنی میزبانی میں ایشیا کپ نہ کرواسکا،منسوخ
جواب میں بھارتی ٹیم کو عاقب جاوید لڑگئے،انہوں نے 237 کے مجموعہ پر 4 وکٹیں اڑاکر بھارت کی کمر توڑ دی۔نتیجہ میں بھارتی اننگ 43 ویں اوور میں 169 اسکور پر تمام ہوئی۔رائٹ ہینڈ پیسر عاقب جاوید نے9 اوورز میں صرف 19 رنز دے کر 5 وکٹیں لیں۔اگلے روز 8 اپریل کو پاکستان نے بنگلہ دیش کو6 وکٹ سے ہراکر مسلسل دوسری جیت اپنے نام کی۔بنگلہ دیشی ٹیم 3 ناکامیوں کے ساتھ فارغ ہوچکی تھی۔اب سری لنکا اور بھارت 9 اپریل کو مقابل ہوئے۔بھارت کے لئے جیت لازمی تھی،اس نے سری لنکا کو 202 رنز تک محدود کرکے 8 وکٹ کی جیت کو گلے لگایا۔پاکستان اور رائونڈ گروپ کا آخری میچ 11 اپریل کو سری لنکا سے تھا،سادہ جیت سے فائنل کنفرم تھا۔ہارنے کا مطلب یہ ہوتا کہ ٹیم وقار سے ہارجاتی،اس صورت میں پاکستان،بھارت اور سری لنکا کے یکساں پوائنٹس ہوتے تو فیصلہ نیٹ رن ریٹ پر ہونا تھا،چنانچہ ناکامی کے اعدادوشمار کا بھی علم تھا لیکن کیا ہوا؟
پاکستانی ٹیم پہلے کھیل کر 9 وکٹ پر صرف 178 رنزبناسکی۔انضمام الحق 73 رنزکے ساتھ آگے تھے۔سری لنکا نے رن ریٹ بہتر کرنے کے لئے ہدف صرف 31 ویں اوور میں پورا کرکے میچ جیت لیا۔اب ٹیبل پر بھارت،سری لنکا ور پاکستان کے 4،4 پوائنٹس تھے،پاکستان کا رن ریٹ دونوں سے نیچے تھا،فائنل سے باہر ہوگیا۔یہ ایک ناقابل یقین سا حساب کتاب تھا۔فائنل 14 اپریل کو ہوا۔سری لنکا نے 7 وکٹ پر 230 رنزبنائے،بھارت 2 وکٹ پر پورا کرکے جیت گیا،اس طرح ایک بار پھر سری لنکا فائنل میں بھارت کے آگے بے بس ہوا۔مسلسل تیسری بار ایونٹ جیت کر ایشیشن چیمپئن کی ہیٹ ٹرک کی۔