گال،کرک اگین رپورٹ
گزشتہ سال بھی16 جولائی کو پاکستان اور سری لنکا گال میں مدمقابل تھے۔اس سال بھی۔یہی تاریخ۔پاکستان اور سری لنکا آئی سی سی ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ 3 کی اپنی پہلی اور رواں سرکل چیمپئن شپ کی تیسری سیریز کھیلنے والے ہیں۔
پاکستان اور سری لنکا کے درمیان پہلا ٹیسٹ اتوار سے گال میں شروع ہوگا اس کے ساتھ ہی پاکستانی ٹیم کا 24- 2023انٹرنیشنل سیزن بھی شروع ہوجائے گا جو خاصا مصروف اور چیلنجنگ ہے۔
گال میں کھیلا جانے والا یہ ٹیسٹ ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ25 ۔2023 میں پاکستانی ٹیم کا پہلا ٹیسٹ بھی ہے۔ اس سیریز کا دوسرا اور آخری ٹیسٹ چوبیس جولائی سے کولمبو میں کھیلا جائے گا۔
گال نتیجے کے اعتبار سے پاکستان اور سری لنکا کے لیے ملا جلا رہا ہے۔یہاں کھیلے گئے سات ٹیسٹ میچوں میں سری لنکا نے چار ٹیسٹ جیتے ہیں جبکہ پاکستان نے تین کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اس نے 2000میں اننگز اور 163رنز سے ۔2015 میں دس وکٹوں سے اور گزشتہ سال چار وکٹوں سے ٹیسٹ جیتا تھا۔
گزشتہ سال پاکستانی ٹیم نے گال میں342 رنز کا ہدف عبور کرکے کامیابی حاصل کی تھی جس میں عبداللہ شفیق کے ناقابل شکست 160رنز کے علاوہ بابراعظم کے پہلی اننگز میں119 رنز اور دوسری اننگز میں55 رنز نمایاں رہے تھے جبکہ بولنگ میں شاہین شاہ آفریدی نے پہلی اننگز میں چار وکٹیں حاصل کی تھیں بدقسمتی سے وہ دوسری اننگز میں انجرڈ ہوگئے تھے البتہ محمد نواز نے88 رنز کے عوض پانچ وکٹوں کی کریئر بیسٹ بولنگ کی تھی ان کے علاوہ یاسر شاہ نے بھی دوسری اننگز میں 122رنز دے کر تین وکٹیں حاصل کی تھیں۔
پاکستانی ٹیم کے موجودہ اسکواڈ میں تیرہ کھلاڑی وہ ہیں جنہوں نے گزشتہ سال سری لنکا کا دورہ کیا تھا۔ تین نئے کھلاڑی آل راؤنڈر عامرجمال۔ اسپنرابرار احمد اور بیٹسمین محمد حریرہ ہیں۔
پاکستانی ٹیم کے کپتان بابراعظم کا کہنا ہے کہ ٹیم کی ریڈ بال فارمیٹ میں واپسی پر وہ بہت پرجوش ہیں ۔تمام نظریں گال ٹیسٹ پر ہیں اوروہ اس چیلنج کے لیے تیار ہیں۔ فی الحال وہ ایک وقت میں ایک چیز کے بارے میں سوچ رہے ہیں لیکن ہمیں تمام فارمیٹس میں مستقل مزاجی دکھانی ہوگی۔
بابراعظم کا کہنا ہے کہ گال ٹیسٹ کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ ہمارے تیرہ کھلاڑی گزشتہ سال یہاں آچکے ہیں ۔اسپنر ابرار احمد ہمارے کامبی نیشن میں ایک اچھے آپشن کے طور پر سامنے آئے ہیں اور یہ دورہ ان کے لیے سیکھنے کا بہترین موقع ہوگا۔ہمیں ان سے اس سیریز اور مستقبل میں بہت زیادہ امیدیں وابستہ ہیں۔
بابراعظم کا کہنا ہے کہ انہیں سب سے زیادہ خوشی شاہین شاہ آفریدی کی واپسی کی ہے۔ان کی وکٹ لینے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ ان کی موجودگی ہی ٹیم کے حوصلے بلند کرتی ہے۔ مجھے بخوبی اندازہ ہے کہ خود شاہین آفریدی ٹیسٹ کرکٹ کو کتنا یاد کررہے تھے اور اب وہ اس کے لیے تیار ہیں۔
یاد رہے کہ شاہین شاہ آفریدی کو ٹیسٹ میچوں میں وکٹوں کی سنچری مکمل کرنے کے لیے صرف ایک وکٹ درکار ہے ۔اگر وہ گھٹنے کی انجری کا شکار نہ ہوتے تو وہ یہ سنگ میل گزشتہ سال ہی عبور کرلیتے۔
پاکستانی ٹیم نے گال ٹیسٹ سے قبل ہمبنٹوٹا میں جو پریکٹس میچ کھیلا اس میں شان مسعود ۔ بابراعظم اور سعود شکیل نے نصف سنچریاں اسکور کیں جبکہ بولنگ میں شاہین شاہ آفریدی۔ حسن علی۔ ابرار احمد اور عامرجمال وکٹیں لینے والے بولر تھے۔
بابراعظم کا کہنا ہے کہ سری لنکا کسی بھی میزبان ملک کی طرح اپنی اسٹرینتھ کے ساتھ کھیلے گا جو اس کی اسپن بولنگ ہے۔ ہمیں سری لنکن ٹیم کے بارے میں اچھی معلومات اس کے سابق کوچ مکی آرتھر سے مل چکی ہیں اور پاکستانی ٹیم سری لنکا کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ٹیم بنیادی نکات پر قائم رہے گی کیونکہ ٹیسٹ کرکٹ میں آپ کو صبر دکھانا ہوتا ہے جو آپ کی مہارت ۔ ٹمپرامنٹ اور اسٹیمنا کا امتحان ہوتا ہے۔
بابراعظم کا کہنا ہے کہ پچھلے بارہ ماہ کے دوران ٹیسٹ میچوں کے نتائج ہمارے حق میں نہیں رہے لیکن ہم نے یقینی طور پر ٹیم کے لحاظ سے ترقی کی ہے اور آگے بڑھے ہیں۔
بابراعظم نے گزشتہ سال آئی سی سی کے بہترین کرکٹر کی سرگارفیلڈ سوبرز ٹرافی حاصل کی تھی وہ 47 ٹیسٹ میچوں میں3696 رنز بناچکے ہیں جن میں 9 سنچریاں اور 26 نصف سنچریاں شامل ہیں۔وہ اس وقت واحد کرکٹر ہیں جو تینوں فارمیٹس میں ٹاپ تھری پوزیشن میں موجود ہیں۔ وہ ٹیسٹ میں تیسرے ۔ ون ڈے میں پہلے اور ٹی ٹوئنٹی میں دوسرے نمبر پر ہیں۔
میچ آفیشلز۔ راڈ ٹکر اور الیکس واف ( فیلڈ امپائرز) کرس گیفینی ( تھرڈ امپائر) ڈیوڈ بون ( میچ ریفری)
پاکستان کیلئے اس بار کیا خطرہ ہے۔گال میں پانچ ٹیسٹ میچوں میں پربت جے سوریا نے 46 وکٹیں حاصل کیں، چھ بار پانچ وکٹیں اور دو میچوں میں دس وکٹیں پاکستانیوں کیلئے سائرن ہوگا۔ اس میں گزشتہ سال پاکستان کے خلاف دو ٹیسٹ میچوں میں 17 وکٹیں بھی شامل ہیں، اسی گیندباز نے سیریز کے آخری دن پاکستان کو لنچ کے بعد آؤٹ کر کےمقابلہ 1-1 سے برابر کر دیاتھا۔ وہ شکست تھی۔آج ایک سال مکمل ہوگیا۔پاکستان ایک بھی ٹیسٹ 12 ماہ میں نہ جیت سکا۔وہ اس بار بھی مہمانوں کے لیے کلیدی مخالفوں میں سے ایک ہوں گے۔ چاہے انہوں نے اس کے ساتھ مقابلہ کرنا سیکھ لیا ہو، اس سے سیریز کی ٹرافی کی منزل کا تعین کرنے میں آسانی ہوگی۔
شاہین آفریدی پچھلے سال اسی ٹیسٹ میں چوٹ کے بعد اپنا پہلا ٹیسٹ 12 ماہ بعدکھیل رہے ہیں، سب کی نظریں اس کی رفتار، تال اور اس فارمیٹ کے پانچ دن برداشت کرنے کی صلاحیت پر ہوں گی جس سے اسے طویل وقفہ ملا ہے۔انہیں 100 ٹیسٹ وکٹ کی تکمیل کیلئے 1 وکٹ درکارہے۔
سری لنکا اپنے اسکواڈ کیلئے دیکھے گا کہ اگر کرونارتنے دستیاب ہوتے ہیں، تو وہ کپتان اور اوپنر کے طور پر ٹیم کی قیادت کریں گے، نشان مدوشکا کے ساتھ پتھم نسانکا کو ان کے اوپننگ پارٹنر بنانے کا امکان ہے۔ بائیں ہاتھ کے تیز گیند باز دلشان مدوشنکا ٹیسٹ ڈیبیو کے لیے قطار میں ہیں۔
سری لنکا کی ممکنہ الیون دیموتھ کرونارتنے (کپتان)، نشان مدھوشکا، کوسل مینڈس، اینجلو میتھیوز، دنیش چندیمل، دھننجایا ڈی سلوا، سدیرا سماراویکرما (وکٹ)، رمیش مینڈس، پرابتھ جایا، ۔ دلشان مدوشنکا، وشوا فرنینڈو/پروین جے وکرما۔
امکان ہے کہ پاکستان اضافی اسپن آل راؤنڈر کے ساتھ جائے گا اور اس عمل میں ایک سیمر کی قربانی دے گا، جو نواز کو موقع فراہم کرے گا۔
پاکستان کی ٹیم میں عبداللہ شفیق، امام الحق، شان مسعود، بابر اعظم (کپتان)، سرفراز احمد، سعود شکیل، آغا سلمان، محمد نواز، نسیم شاہ، ابرار احمد، شاہین شاہ آفریدی ہوسکتے ہیں۔
ٹیسٹ کے ہر دن بارش کی پیشین گوئی ہے، اگرچہ مسلسل گیلے موسم کا امکان نہیں ہے۔ وکٹ سست اور اسپن کے لیے سازگار ہونے کا امکان ہے۔
شاہین آفریدی 100 ٹیسٹ وکٹیں لینے والے 19ویں پاکستانی باؤلر بننے سے ایک وکٹ دور ہیں۔
یہ واضح نہیں ہے کہ یہ سیریز پاکستان کے گزشتہ سال سری لنکا کے دورے کی مکمل عکاسی کرنے کے لیے کیوں ترتیب دی گئی ہے، لیکن یہ 12 مہینوں میں ہر فریق کی پیشرفت کا جائزہ لینے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ سری لنکا پچھلے 12 مہینوں میں ملے جلے نتائج کے باوجود واضح طور پر فیورٹ ہے ۔بنیادی طور پر حالات سے واقفیت کی وجہ سے؛ میزبانوں کے آخری آٹھ ٹیسٹ میچوں میں سے چھ اس مقام پر ہو چکے ہیں، اور ان میں سے چار میچوں میں ان کی جیت ہوئی ہے۔
رمیز راجہ کی بطور کمنٹیٹر واپسی ہوگئی ہے۔عامر سہیل کے ساتھ دیگر کمنٹیٹرز بھی ہونگے۔