عمران عثمانی کی خصوصی تحریر۔میاں داد،وسیم،وقار،انضمام،رمیز،عامر اور شعیب اڈیالہ جیل پہنچ گئے،کیا واقعی ؟چشم کشا تحریز،،آپ کو برا لگے ،اچھا لگے۔ مجھے کوئی پرواہ نہیں۔میرا کیریئر اور میری زندگی کا گزرا ہر پل اس کا گواہ ہے۔مجھے ذاتی مفادات،تعلقات اور اپنے کل سے زیادہ اپنا آج عزیز ہے۔وہ جو مجھے اپنا دوست کہتے اور سمجھتے ہیں ،ان میں سے کوئی ایک بھی میری سوچ کے ساتھ نہیں،ممکن ہے کہ ہوں ،مگر وہ یہ واضح کرنے میں اب تک ناکام ہیں۔بے فکر رہیں ۔میں موت کی دستک تک ان کا انتظار کروں گا۔اگر دلائل ہوتے تو خود سمجھ جاتا،اگر مجھے ہی سمجھانا ہے تو دوست کیسا۔غیروں کو سمجھایا جاتا ہے۔اپنوں اور دوستوں کو نہیں۔جسے سمجھانا پڑے،وہ دوست نہیں اور جو سمجھ نہ پائے وہ بھی دوست نہیں۔زندگی گزر گئی ۔کبھی خیال نہیں آیا کہ میرا فائدہ کیا ۔
بہت سوچا کہ دوسرے ایسا کرتے۔مجھ سے کیوں نہیں ہوتا۔رمیزراجہ پی سی بی چیئرمین بنے۔عمران خان وزیر اعظم پاکستان بنے تو متعدد دوستوں نے کہا کہ
جائو مبارکباد دو۔
پھولوں کا گلدستہ دو ۔
نہیں ہوسکا ۔نہیں کرسکا۔
ایک دوست نے کہا کہ آپ کی اڈیالہ جیل میں ملاقات کروادوں؟
فوری کہا کہ جی
کروادو۔
مگر 7 ماہ گزر گئے۔ایک بار یاد کروایا ۔اسے خیال نہ آیا۔میں جو اپنے مفاد کیلئے کبھی ایک بار کسی سے کچھ نہ کہہ سکوں۔بنا کسی مفاد کے دوسری ،تیسری یا بار بار کہنے میں کیوں برا محسوس کروں۔مگر ناکامی۔۔
مجھے کچھ لکھنا ہے۔ یہ ملتان انٹرنیشنل کرکٹ سٹیڈیم ہے۔ یہاں پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین اور آج کے کمنٹیٹر اور کل کے بھی تھے۔رمیز راجہ موجود ہیں۔ انٹرنیشنل کرکٹ کیلئے بھی۔
میں نے انہیں دیکھا۔ بہت قریب سے دیکھا اور بہت دور سے بھی دیکھا۔ان سے پرانی یاد اللہ ہے۔
بطور پی سی بی چیف ایگزیکٹو انہوں نے جو مجھے عزت دی۔مشکور ہوں اور جو اس کے علاوہ ہے،اس پر کئی سالوں سے سرشار ہوں۔میں نے ان سے متعدد بار ملاقات بھی کی اور میں نے ان سے درخواست کی کہ مجھے ان سے کچھ کہنا ہے، ہر بار انہوں نے مجھے یہ کہا کہ اگلی بار بیٹھیں گے۔ تفصیل کے ساتھ بیٹھیں گے۔ ابھی تک تو یہ وقت نہیں آیا۔ آخری بار 5 مئی2025 کو انہوں نے کہا کہ 11 مئی کے میچ میں بیٹھیں گے مگر پی ایس ایل ملتوی ہوگیا اور کہانی ختم،کچھ وقت کیلئے۔وقت آئے گا ،لیکن جلد آجائے گا کیونکہ مجھے علم ہے کہ وہ جھوٹ نہیں بولتے کیونکہ میں انہیں 27 سال سے جانتا ہوں، جب میں نے ورلڈ کپ کہانی کا دوسرا ایڈیشن اور پھر پاکستان بھارت کرکٹ سیریز پر 2004 میں کرکٹ دوستی کے نام سے کتاب لکھی تو ان سے بہت قربت ملی ۔انگلینڈ میں بھی ،پاکستان میں بھی۔ انہوں نے ہمیشہ عزت کی اور انہوں نے ثابت کیا کہ وہ ایک نفیس انسان ہیں۔
میں ایک بار نہیں، 100 بار ان کی تعریف کروں گا ۔اسی طرح پاکستان کے سابق کرکٹرز وقار یونس، وسیم اکرم، انضمام الحق اور دیگر سبھی سے ملنے کا متعدد بار اتفاق ہوا۔ تفصیلی ملاقاتیں ہوئیں۔ کئی بار انٹرویوز ہوئے ۔کئی بار آن ریکارڈ ،آف دی ریکارڈ باتیں ہوئی، لیکن آج نیشنل میڈیا پر شعیب اختر وغیرہ اور یہ کھلاڑی بھی جن کا میں نے ذکر کیا ،موجود ہوتے ہیں ۔پاکستان کے سابق کپتان اور اپنے کپتان عمران خان کے بارے میں بہت سی باتیں کرتے ہیں اور اپنے ہیرو عمران خان کے بارے میں بھی ۔یہ شعیب اختر کے لیے ہے کہ وہ ان کے کپتانی میں نہیں کھیلے۔ میرا ان سے ایک سوال ہے، کیا عمران خان سے کبھی یہ ملنے کے لیے اڈیالہ جیل راولپنڈی گئے۔ میں نے بہت کوشش کی کہ پی سی بی کے سابق چیئرمین راجہ سے یہ پوچھنے کی کہ آپ گئے۔پوچھنے کیلئے ماحول اور سٹنگ ضروری۔میں نے بہت کوشش کی کہ میں کسی اور سے بھی پوچھوں لیکن یہ لوگ عجب ہیں۔ اپنے ہر ٹی وی انٹرویو، تبصرے، تجزیوں میں بطور مثالی عمران خان کا ذکر ایک ہیرو کی طرح کرتے ہیں اور اپنے اپ کو پجاری کہتے ہیں لیکن پاکستان کے سابق کپتان عمران خان دو سال سے کم کچھ عرصے سے جیل میں ہیں۔ کیا ان میں سے کسی نے ان سے ملنے کی کوشش کی ۔دیکھیں کوشش ایک الگ چیز۔ کوشش میں کامیابی ملنا ایک الگ چیز ۔عمران خان اپنی ہر تقریر میں کہا کرتے تھے کہ انسان کا فرض ہے کوشش کرنا۔ کامیابی اللہ دے گا ،یا نہ نہیں۔جو بھی ہوگا وہ اس کا فیصلہ ہوگا ۔ہم نے آج تک نہیں سنا کہ رمیز راجہ ،وسیم اکرم، وقار یونس، جاوید میانداد ،انضمام الحق، شعیب اختر، عاقب جاوید جیسے لوگوں نے یہ کوشش کی ہو کہ وہ عمران خان سے جا کے ملاقات کریں ۔
ان کو سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ کا ایک قانون اور انسان کی ایک سوچ ہے ۔رمیز راجہ کی حد تک میں واقف ہوں کہ وہ بہت بڑا سٹینڈ لیتے ہیں اور عمران خان کے معاملے میں بہت واضح موقف رکھتے ہیں ۔ان سے آف دی ریکارڈ گفتگو بھی ہوئی اور آن دی ریکارڈ بھی ،لیکن انضمام جیسوں سے میرا یہ سوال ہے کہ کیا انہوں نے کبھی اپنے سابق کپتان سے ملاقات کے لیے اڈیالہ جیل جانے کی کوشش کی، اگر کی تو ابھی بتا دیں ،کیونکہ یہ کوشش کی ہوتی تو نظر آتا ،جیسے علیمہ خانم، وزیراعلی کے پی کے اور دیگر لوگ نظر آتے ہیں۔
ناکامی کی تصویر بنے اور کبھی کامیاب ہوئے ،تو یہ بھی نظر آتے۔ اسی طرح پاکستان کے کپتان محمد رضوان اور ان سے پہلے بابر اعظم و دیگر اور اگے کے کپتان ۔کبھی اس کوشش میں نظر آئے ۔کبھی نہیں۔ کیونکہ ان کو خطرہ تھا ،جہاں وہ ہیں، وہاں نہیں رہیں گے۔ جہاں انہوں نے جانا ہے، وہاں پہنچ نہیں پائیں گے۔ رضوان، شاہین افریدی اور بابر اعظم اج زبوں حالی کا شکار ہیں۔ انہیں سوچنا چاہیے کیوں۔
پاکستان کرکٹ کےسابق ہیرو عاقب جاوید ،رمیض راجہ ،وسیم اکرم، مشتاق احمد ،معین خان ،عامر سہیل و دیگر کو سوچنا چاہیے کہ جتنا مرضی، جیسے مرضی بولیں، کوئی نہیں سننے والا ۔
انہیں کوشش کرنی چاہیے آج نہیں تو کل لیکن عمران خان سےملاقات کریں جیل جاکر۔کرکٹر کے طور پر ساتھی کے طور پر،نہ کہ کسی سیاسی مقصد کیلئے اور نہ ہی کسی کو نیچا دکھانے کیلئے ۔کوشش تو کریں۔زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا۔
جیل سے آنے سے پہلے پہلے۔ دیر ہو جائے گی تو تاریخ معاف نہیں کرے گی ۔عمران خان شاید معاف کر دیں۔
وسیم اکرم کیلئے خصوصی نوٹ۔۔۔۔۔آپ نے کبھی سینیئرز کی عزت نہیں کی۔میں چشم دید گواہ ہوں،مجھے چیلنج کریں ،پھر ثبوت کے ساتھ سامنے آئوں گا۔یہ قوم آپ کی پوری عزت کبھی نہیں کرےگی۔سوشل میڈیا کو گالیاں دینے سے پہلے جان لیں کہ آپ کا کپتان سوشل میڈیا کو اپنی پاور کہتا ہے،آپ اپنے کپتان کو برا تو نہیں کہہ رہے؟۔جان کر جیئں۔دیکھ کر نہیں۔