اسلام آباد،13 اگست2024 :ءپی سی بی
جیسن گلیسپی اور شان مسعود کی ندیم ارشد کو پاکستان ٹیم کے ڈریسنگ روم کے دورے کی دعوت
پاکستان ٹیسٹ کرکٹ ٹیم کے کپتان شان مسعود اور ریڈ بال ہیڈ کوچ جیسن گلیسپی کا کہنا ہے کہ ہم سب کا مقصد ایک ہی ہے کہ پاکستان ٹیم کو ایک ایسی مضبوط ٹیم بنایا جائے جو بڑی ٹیموں کا مقابلہ کرسکے۔
شان مسعود اور جیسن گلیسپی نے ان خیالات کا اظہار پی سی بی کی 54 ویں پوڈکاسٹ میں کیا۔ اس دلچسپ گفتگو میں انہوں نے آنے والے سیزن میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی فلاسفی اور حکمت عملی کے بارے میں تفصیل سے بات کی۔
جیسن گلیسپی کا کہنا ہے کہ ان کا کپتان شان مسعود سے مستقل رابطہ رہا ہے اور ہم دونوں پاکستان ٹیم کی حکمت عملی اور فلاسفی پر تفصیل سے بات کرتے آرہے ہیں کہ پاکستان ٹیم کو کس طرح لے کر چلنا ہے کس طرح کا کرکٹ اسٹائل ہونا ہے۔ شان نے بھی لڑکوں سے بات کی ہے کہ ہمیں کن کن شعبوں پر توجہ دینی ہے اور ان میں بہتری لانی ہے۔
شان مسعود کا کہنا ہے کہ ہم دونوں ایک پیج پر ہیں اور یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ پاکستان کے پاس دو بہت ورلڈ کلاس کوچز ریڈ بال اور وائٹ بال میں موجود ہیں اور ہم بہت ُپر جوش ہیں کہ یہ دونوں اپنے وسیع تجربے سے ہمیں آگے لے جاسکتے ہیں ۔
شان مسعود کا کہنا ہے کہ ہمارے لیے یہ بات خوشی کی ہے کہ ہم اس سیزن کے چار پانچ ماہ میں نو ٹیسٹ میچز کھیلیں گے۔اس سے قبل ایسا نہیں ہوا ۔ ہم نے ایک سال میں زیادہ سے زیادہ پانچ سے چھ ٹیسٹ میچز ہی کھیلے ہیں ۔ سات ٹیسٹ میچز ہوم گراؤنڈز میں ہیں یقیناً ہمارے کچھ کھلاڑی جن میں فاسٹ بولرز بھی شامل ہیں وہ تینوں فارمیٹس کے کھلاڑی ہیں جن کا ورک لوڈ ہمیں سنبھالنا ہوگا جیسا کہ ہم نے آسٹریلیا میں کیا جہاں شاہین آفریدی دو ٹیسٹ میچز کھیلے تھے اور تیسرے میں انہیں آرام دیا گیا تھا ۔
شان مسعود نے کہا کہ خوشی کی بات یہ ہے کہ ہمارے موجودہ اسکواڈ میں چھ فاسٹ بولرز موجود ہیں اور یہ چھ کے چھ پلیئنگ الیون میں شامل ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہمیں یہ موقع ملے گا کہ ہم کسی بھی بولر کو آرام دے سکتے ہیں۔
جیسن گلیسپی نے کہا کہ بہت زیادہ کرکٹ ہونے کے چیلنجز بھی ہیں ۔ہمیں پاکستان کی نمائندگی اور دیگر مقابلوں کے درمیان توازن قائم کرنا ہے۔ کھلاڑی باہر جاکر کھیل کر تجربہ بھی حاصل کرتے ہیں اور یہ ان کی آمدنی کا ذریعہ بھی ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے کھلاڑیوں کی دستیابی کے بارے میں فیصلے بھی کیے ہیں۔صرف پاکستان میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں مصروف کرکٹ ہے۔ ہم جتنا بھی ممکن ہوا تینوں فارمیٹس کے کھلاڑیوں کا خیال رکھ سکتے ہیں لیکن ہماری ترجیح پاکستان کی نمائندگی کرنا ہے اور ہم اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔ ہر کھلاڑی کا معاملہ انفرادی حیثیت میں دیکھا جائے گا ۔ ممکن ہے کہ کسی وقت ایسے فیصلے بھی ہوں جو مقبول نہ ہوں لیکن یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ایسے فیصلے پاکستان کرکٹ اور انفرادی طور پر کھلاڑی کے بھی بہترین مفاد میں ہونگے۔
شان مسعود کا کہنا ہے کہ مصباح الحق اور یونس خان کی موجودگی میں ہم ٹیسٹ کرکٹ میں عالمی نمبر ایک بھی رہے۔اس دوران پاکستان ٹیم نے یواے ای کے علاوہ بیرون ملک بھی اچھی کارکردگی دکھائی ان دونوں کھلاڑیوں کے جانے سے بہت بڑا خلا پیدا ہوا ۔
بڑی ٹیمیں دس سے پندرہ ٹیسٹ سال میں کھیلتی رہی ہیں۔ ہم 2019 سے دوبارہ ہوم سیریز کھیل رہے ہیں لیکن سال کے مختلف اوقات میں مختلف ٹیموں سے کھیلے ہیں ۔ٹیسٹ کرکٹ ایک چیلنجنگ فارمیٹ ہے جس کے لیے متعدد چیزوں سے خود کو ہم آہنگ کرنا پڑتا ہے۔
شان مسعود نے مزید کہا کہ ہم ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کرپائے کہ ہوم سیریز میں ہمارا اپنا کونسا کھیلنے کا اسٹائل ہوناچاہیےجو ہمارے لیے موزوں ہو۔ اس معاملے کو فوری طور پر دیکھنا ہوگا۔ٹیسٹ کرکٹ میں تسلسل اور مستقل مزاجی بہت اہمیت رکھتی ہے۔
شان مسعود نے کہا کہ ہم نو ٹیسٹ چار ماہ میں کھیل تو رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے آخری ٹیسٹ ہم نے آسٹریلیا میں کھیلا تھا اسطرح دیکھا جائے تو اب ہم اپنا پہلا ٹیسٹ دس ماہ بعد کھیلیں گے۔ ہمیں زیادہ ٹیسٹ کرکٹ چاہئے۔
جیسن گلیسپی نے پاکستان شاہینز کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے پاکستان شاہینز کے چار روزہ میچز سے ڈومیسٹک اور انٹرنیشنل کرکٹ کے درمیان فرق کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان شاہینز کا پاکستان کرکٹ میں ایک اہم رول ہے۔مختلف ٹیموں کے خلاف مختلف کنڈیشنز میں کھیل کر ان کھلاڑیوں کے لیے موقع ہے کہ وہ انٹرنیشنل کرکٹ میں آسکیں۔
شان مسعود نے سلیکشن پالیسی کے بارے میں کہا کہ کوئی بھی فیصلہ پرفیکٹ نہیں ہوسکتا لیکن ایک طریقہ کار اور مقصد ہونا چاہیے کہ پاکستان کو ایک ایسی ٹیسٹ ٹیم بنایا جائے جو آسٹریلیا انگلینڈ جیسی بڑی ٹیموں کا مقابلہ کرسکے اور ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کا فائنل کھیلے۔
شان مسعود نے انگلینڈ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ میں انگلینڈ کو صرف بیز بال کی وجہ سے پسند نہیں کرتا ہوں بلکہ ان کی وہ اپروچ جس میں کھیلنے کے انداز کی شناخت کرتے ہیں اور پھر ڈومیسٹک کرکٹ کے کھلاڑیوں کو تلاش کرکے اس اسٹائل کا حصہ بناتے ہیں ۔
میں پاکستان میں بھی یہی اپروچ چاہوں گا گے کہ ٹاپ لیول پر ہم ان کھلاڑیوں کی حمایت کرسکیں جو ٹیم کے تقاضوں سے مطابقت رکھتے ہوں اور پھر انہیں کھیلنے کے زیادہ سےزیادہ مواقع فراہم کیے جائیں۔
جیسن گلسپی کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں ہم نے کافی عدم استحکام اور آن اور آف دی فیلڈ تبدیلیاں دیکھی ہیں۔ میں اور سلیکٹرز چاہتے ہیں مستقل مزاجی اور تسلسل ہو اور۔جب ہم ایک ایسا ماحول پیدا کریں گے جس میں آف دی فیلڈ مستقل مزاجی ہوگی اور استحکام ہوگا تو کھلاڑیوں کو بھی بہترین موقع ملے گا کہ انہیں سپورٹ کیا جارہا ہے ان کا خیال رکھا جارہا ہہے تو وہ بھی اپنی بہترین کارکردگی دکھاسکیں گے۔
جیسن گلیسپی نے سوشل میڈیا کے بارے میں کہا کہ یہ ڈیجیٹل ورلڈ ہے جس میں ہم رہ رہے ہیں۔ کھلاڑی یقیناً بہت ساری چیزیں دیکھیں گے جو اپ سیٹ کرنے والی ہوتی ہیں۔ ہمیں میچیور شخص کی حیثیت سے ان کا مقابلہ کرنا ہوگا بہت سی چیزوں کو آپ کنٹرول نہیں کرسکتے۔ ہم صرف یہ کنٹرول کرسکتے ہیں کہ ڈریسنگ روم میں ایسا ماحول قائم کرسکیں کہ کھلاڑیوں کے لیے محفوظ جگہ ہو اور انہیں پتہ ہو کہ انہیں اس ماحول میں سپورٹ کیا جارہا ہے۔
شان مسعود کا کہنا ہے کہ ڈریسنگ روم کلچر بہت اہم ہے۔ وہیں سے ہر چیز شروع ہوتی ہے۔ کپتان کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ ڈریسنگ روم میں ایک مثبت اور خوشگوار ماحول برقرار رکھے۔بڑی اسپورٹنگ ٹیموں کا مضبوط ڈریسنگ روم کلچر ہوتا ہے۔ رازداری کو قائم رکھنا اور لیکس پر توجہ رکھنا بہت اہم ہوتے ہیں۔
شان مسعود اور جیسن گلیسپی نے پیرس اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتنے والے ایتھلیٹ ارشد ندیم کو پاکستان ٹیم کے ڈریسنگ روم کا دورہ کرنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ انہیں خوشی ہوگی کہ ارشد ندیم پاکستان ٹیم کے ڈریسنگ روم میں آئیں اور اپنی اس کامیابی کے بارے میں کھلاڑیوں سے شیئر کریں جس سے ہمارے کھلاڑیوں کو بھی حوصلہ ملے گا۔