ملتان سے اظہار عباسی کی خصوصی تحریر
وسیم حسن راجہ ،پاکستان کرکٹ کے پہلے راجہ کا جنم دن،اہم معلومات
کرکٹ کے راجہ وسیم حسن راجہ مرحوم تین جولائی 1957 کو ملتان میں پیدا ہوئے جنم دن پر اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا کرتے ہیں
(وسیم حسن راجہ کی پروفائل)
وسیم حسن راجہ انگریزی: Wasim Hasan Raja (پیدائش: 3 جولائی 1952ء ملتان) | (وفات: 23 اگست 2006ء مارلو، بکنگھم شائر) پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی ہیں [2] انہوں نے 57 ٹیسٹ میچ میں پاکستان کی نمائندگی کی جبکہ 54 ایک روزہ بین الاقوامی میچز بھی کھیل چکے ہیں وہ قومی کرکٹ کے ایک مشہور کھلاڑی اور پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے سابق چیئرمین رمیز راجہ کے بھائی تھے اور دائیں ہاتھ سے گیند کرنے والے لیگ سپن بالر تھے جنہوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں 51 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ وہ گگلی بھی پھینکتے تھے اور بائیں ہاتھ سے جارحانہ بیٹنگ کرنے والے مڈل آڈر بلے باز تھے۔ انہوں نے کئی موقعوں پر پاکستان کی طرف سے اننگز کا آغاز یا اوپننگ بھی کی وسیم راجہ نے پاکستان کے ساتھ ساتھ کمبائن یونیورسٹیز، درہم کائونٹی، لاہور، نیشنل بینک آف پاکستان، پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز، پنجاب، پنجاب یونیورسٹی اور سرگودھا کی طرف سے بھی کرکٹ کھیلی[3] ان کے والد راجہ سلیم۔اختر ایک اعلیٰ سرکاری افسر تھے جو کمشنر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے دلچسپ۔امر یہ ہے کہ انہوں نے بھی فرسٹ کلاس کرکٹ میں حصہ لیا تھا۔
ذاتی معلومات
مکمل نام
وسیم حسن راجہ
پیدائش
3 جولائی 1952
ملتان, مغربی پنجاب, ڈومنین پاکستان
وفات
23 اگست 2006 (عمر 54 سال)
مارلو، بکنگھمشائر, انگلستان
بلے بازی
بائیں ہاتھ کا بلے باز
گیند بازی
لیگ سپن گیند باز
تعلقات
رمیز راجہ (بھائی)
زعیم راجہ (بھائی)
راجہ سلیم اختر (والد)
عاطف رؤف (کزن)[1]
بین الاقوامی کرکٹ
قومی ٹیم
پاکستان (1973–1985)
پہلا ٹیسٹ (کیپ 67)
2 فروری 1973 بمقابلہ انگلینڈ
آخری ٹیسٹ
25 جنوری 1985 بمقابلہ نیوزی لینڈ
پہلا ایک روزہ (کیپ 11)
11 فروری 1973 بمقابلہ نیوزی لینڈ
آخری ایک روزہ
10 مارچ 1985 بمقابلہ بھارت
کیریئر اعداد و شمار
مقابلہ ٹیسٹ ایک روزہ
میچ 57 54
رنز بنائے 2821 782
بیٹنگ اوسط 36.16 22.34
100s/50s 4/18 -/2
ٹاپ سکور 125 60
گیندیں کرائیں 4082 1036
وکٹ 51 21
بولنگ اوسط 35.80 32.71
اننگز میں 5 وکٹ – –
میچ میں 10 وکٹ – n/a
بہترین بولنگ 4/50 4/25
کیچ/سٹمپ 20/- 24/-
ابتدائی دور
وسیم راجہ بائیں ہاتھ کے شاندار اسٹروک میکر تھے، جنہوں نے مشکلات میں بھی بہترین کام کیا وہ ایک کارآمد لیگ اسپنر، جس نے بہت اہم مواقع پر پاکستان کے لیے بالنگ کا آغاز بھی کیا، اور انہوں نے 100 سے زائد بین الاقوامی میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کی، تھوڑی عرصے کے لیے قومی ٹیم کی کوچنگ کی اور آسٹریلیا میں آخری ایشز سیریز کے انچارج ہونے کے ساتھ ساتھ آئی سی سی میچ ریفری کے طور پر بھی کام کیا۔ جس انداز اور جذبے کے ساتھ انہوں نے کھیل کھیلا اسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، پھر بھی اتنے نرم مزاج اور دلکش آدمی کی وجہ سے پاکستان کرکٹ بورڈ کے ساتھ جھڑپوں میں ان کا کافی وقت ضائع ہوا۔ ایک مراعات یافتہ پس منظر سے تعلق رکھنے پر وہ ایک سینئر کھلاڑی کی جرابوں کو خشک کرنے کے لیے باہر لٹکانے سے انکار کرتے ہوئے سب کی نظروں میں آ گئے اسی طرح اپنی روایتی مصلحت پسندی سے انہوں نے ٹیم کے اندر درجہ بندی کا حصہ بننے سے انکار کیا لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ وہ ہمیشہ مایوسی کا شکار رہتے تھے کہ جیسے اسے یہ یقین نہیں ہوتا تھا کہ اسے کھلایا جائے گا یا نہیں کیونکہ سینئر کھلاڑیوں کا گروپ ٹیم میں موجود تھا جو اپنی مرضی منواتے تھے لیکن اسے ہمیشہ یہ قلق رہا کہ وہ جاوید میانداد یا ظہیر عباس سے پہلے پاکستان کی کپتانی کر سکتے تھے۔ بہر حال، ایک بلے باز کے طور پر وہ 18 سال کی عمر میں شاندار تھے اور انڈر 19 ٹیم کی قیادت کی۔ اس کے بعد اکثر اس نے اپنے ہمعصر عمران خان کے ساتھ پریکٹس کرتے وقت پیڈ پہننے کی زحمت نہیں کی، جس نے اعتراف کیا کہ وسیم “مکمل طور پر ایک مختلف کلاس میں تھا اور پہلے سے ہی اپنے سالوں سے زیادہ میچورٹی کے ساتھ بیٹنگ کر رہا تھا”۔ وہ تین لڑکوں میں سب سے بڑا تھا، سبھی فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلتے تھے۔ اس کے بھائی رمیز راجہ نے ٹیسٹ ٹیم میں ان کی پیروی کی اور بعد میں پاکستان کی کپتانی کی، جبکہ ان کے ایک اور بھائی زعیم حسن راجہ نیشنل بینک کے لیے کھیلے۔ ان کے والد راجہ سلیم اختر بھی سرگودھا کی کپتانی کرتے ہوئے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلتے تھے۔
فرسٹ کلاس کرکٹ میں آمد
وسیم نے صرف 15 سال کی عمر میں لاہور کے لیے فرسٹ کلاس ڈیبیو کیا، جب وہ گورنمنٹ کالج میں تھے اس کے بعد وہ پنجاب یونیورسٹی گئے، جہاں انہوں نے کرکٹ اور تعلیمی لحاظ سے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاست میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔
ٹیسٹ کرکٹ کا آغاز
1972-73ء میں جب نیوزی لینڈ کے دورے میں انہیں متبادل کے طور پر بلایا گیا۔ اس نے 1974ء میں انگلینڈ میں خود کو قائم کرنا شروع کیا، جہاں وہ ٹور ایوریج میں سرفہرست رہے۔ “پرجوش” وسیم نے لارڈز میں دو اننگز کھیلی جنہیں وزڈن نے “ماسٹرلی” قرار دیا، اس نے ڈیرک انڈر ووڈ کو ڈرائینگ وکٹ پر سلیکٹیو حملے کے ساتھ جواب دیا۔ اس موسم سرما میں مقامی سیزن میں اس نے کراچی میں ویسٹ انڈیز کے خلاف اپنی پہلی ٹیسٹ سنچری بنائی۔ ان کی اننگز اتنی عمدہ تھی کہ ان کہر کسی نے تعریف کی مجموعی طور پر اس نے ویسٹ انڈیز کے خلاف 11 ٹیسٹ کھیلے، جن میں اینڈی رابرٹس، میلکم مارشل، جوئل گارنر اور کولن کرافٹ جیسے باولرز کے خلاف، 57.43 کی اوسط سے 919 رنز بنائے جو اس دور میں صرف گریگ چیپل کی اوسط سے زیادہ تھے اس کی صلاحتیں اس سے بھی زیادہ تھیں اس کا بھارت کے خلاف بھی ایک بہترین ریکارڈ رہا، جب اس نے 1978-79ء کے دورے پر دو دفعہ 90 رنز بنائے جب بہت سے دوسرے فرنٹ لائن بلے باز دباو میں تھے مگر وسیم راجہ نے 56.25 کی اوسط سے 450 رنز کے ساتھ سیریز کا خاتمہ کیا۔ بھارت کی خلاف اس نے اپنا سب سے زیادہ ٹیسٹ اسکور 125 ناٹ آوٹ جالندھر میں بناہا اور اسی میچ میں انہوں نے مختصر لیگ اسپن کے ساتھ، 50 رنز کے عوض 4 کھلاڑیوں کی باریاں خم کرکے اپنی بہترین گیند بازی کی۔ کئی سالوں تک اس نے درہم کے لیے مائنر کانٹی کرکٹ کھیلی، جہاں اس کی ملاقات اپنی ہونے والی بیوی، این سے ہوئی، جو ایک کارآمد کرکٹر بھی تھی۔ اس نے یونیورسٹی میں اپنی تدریسی ڈگری کے لیے تعلیم حاصل کی۔ وہاں ایک سنگین کار حادثے نے اس کی زندگی تقریبا ختم کر دی تھی مگر اپنے پاوں پر کھڑا ہونے کے نعد وہ کھیل میں واپس آ گیا اور اس نے ڈرہم کو 1990ء میں UAU چیمپئن شپ جیتنے میں مدد کی اور فائنل میں 50 رنز سے میچ جیتنے کا سبب ٹھہرا وہ 15 سال تک کیٹرہم اسکول میں جغرافیہ اور پی ای پڑھاتے رہے۔
ون ڈے کرئیر
انہوں نے 54 ایک روزہ میچ بھی کھیلے۔ ان کا آخری ٹیسٹ بھی نیوزی لینڈ کے خلاف انیس سو پچاسی میں آکلینڈ میں ہوا۔ وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے کوچ بھی رہے اور انہوں نے آئی سی سی کے ریفری کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔
عمدہ پرفارمنس کا تذکرہ
انہوں نے کرکٹ کی دنیا میں سب سے بڑا کارنامہ 1976-77ء میں ویسٹ انڈیز کے دورے پر انجام دیا۔ انہوں نے اس سیریز میں کرکٹ کی تاریخ کے تباہ کن فاسٹ بالنگ اٹیک کے خلاف پانچ سو سترہ رن ستاون عشاریہ چار کی اوسط سے بنائے۔ اس سیریز میں پاکستان کی ٹیم کو ویسٹ انڈیز کے بہترین تیز رفتار بالر گارنر، رابرٹس اور کرافٹ کا سامنا کرنا پڑا۔سنیل گواسکر کے علاوہ ویسٹ انڈیز کے دورے پر کسی بھی بلے باز نے ویسٹ انڈیز کے بالروں کے اتنی پٹائی نہیں کی تھی جتنی اس دورے پر وسیم حسن راجہ نے کی۔ انیس سو تراسی چوراسی آسٹریلیا کے دورے پر جب عمران خان پاکستان ٹیم کی کپتانی کر رہے تھے تو وسیم راجا بھی اس ٹیم میں شامل تھے۔
اعداد و شمار
وسیم حسن راجہ نے 57 ٹیسٹ میچوں کی 92 اننگز میں 14 مرتبہ نائٹ آئوٹ رہو کر 2821 رنز سکور کئے۔ 36.16 کی اوسط سے بننے والے اس مجموعہ میں 4 سنچریاں اور 18 نصف سنچریاں نمایاں تھیں جبکہ 125 رنز اس کی کسی ایک اننگ کا سب سے بڑا انفرادی سکور تھا۔ 20 کیچز بھی ان کے مضبوط ہاتھوں میں سما گئے تھے۔ وسیم حسن راجہ نے 54 ایک روزہ بین الاقوامی میچز کی 45 اننگز میں 10 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر 60 کے بہترین انفرادی سکور کے ساتھ 782 رنز بنائے تھے جس کی اوسط 22.34 حاصل ہوئی تھی۔ 2 نصف سنچریاں اور 24 کیچز بھی ان کے ریکارڈ میں شامل ہیں۔ وسیم راجہ نے 250 فرسٹ کلاس میچز کی 379 اننگز میں 54 مرتبہ آئوٹ ہوئے بغیر 11434 رنز سکور بورڈ پر سجائے تھے۔ 17 سنچریوں کی مدد سے 35.18 کی اوسط کے ساتھ ان کا سب سے زیادہ سکور 165 تھا۔ 156 کیچز بھی ہمیں بتاتے ہیں کہ وہ فیلڈنگ کے دوران کتنے متحرک کرکٹر تھے۔ وسیم حسن راجہ نے بولنگ میں 57 ٹیسٹ میچوں کی 69 اننگز کھیل کر 1826 رنز دیئے اور 51 کھلاڑیوں کی اننگز کا خاتمہ کیا۔ 50/4 کسی ایک اننگ کی بہترین کارکردگی اور 86/6 کسی ایک میچ میں بہترین بولنگ پرفارمنس تھی۔ 35.80 کی اوسط سے وکٹیں لینے والے وسیم حسن راجہ نے 686 رنز دے کر ایک روزہ مقابلوں میں 21 کھلاڑیوں کو اپنا نشانہ بنایا تھا۔ 25/4 ان کی کسی ایک میچ میں بہترین کارکردگی تھی اور انہیں 32.71 کی اوسط سے 7 وکٹ ملے۔ اس طرح انہوں نے 16211 رنز دے کر 558 فرسٹ کلاس میچوں میں کھلاڑیوں کی اننگز کا خاتمہ کیا۔ 65/8 کی بہترین کارکردگی کے ساتھ انہیں 29.05 کی اوسط حاصل ہوئی۔ 31 مرتبہ انہوں نے 5 یا اس سے زائد وکٹ اور 7 مرتبہ 10 یا اس سے زائد وکٹ کا حصول ممکن بنایا۔ وسیم راجہ نے 1981ء میں آسٹریلیا کے خلاف پرتھ میں بہترین بولنگ کے اعداد و شمار حاصل کئے۔ انہوں نے ایک اوور پھینکا جس کے میڈن ہونے پر بھی انہوں نے ایک کھلاڑی کو اپنا نشانہ بنا لیا۔ اسی طرح انہوں نے 1982ء میں انگلستان کے خلاف 2.3 اوورز میں 2 میڈن اوورز کے دوران ایک کھلاڑی کی وکٹ حاصل کی۔ اسی طرح وسیم راجہ نے 1982ء میں سری لنکا کے خلاف کراچی ٹیسٹ میں 3 اوورز میں 2 میڈن کے ساتھ ایک رن دے کر 2 وکٹیں حاصل کیں۔ وسیم راجہ نے 1984ء میں انگلستان کے خلاف کراچی ٹیسٹ میں 3.3 اوورز کے سپیل میں ایک میڈن کے ساتھ 2 رنز دے کر 2 وکٹیں حاصل کیں۔ وسیم راجہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے 1977ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف برج ٹائون کے مقام پر دسویں وکٹ کیلئے وسیم باری کے ساتھ مل کر 133 رنز کی عمدہ شراکت فراہم تھی۔ اس طرح انہوں نے اس ریکارڈ کو بہتر بنایا جو 1952ء میں پاکستان کی طرف سے ذوالفقار احمد اور امیر الٰہی نے چنائی کے مقام پر بھارت کے خلاف 104 رنز بنا کر قائم کیا تھا۔ پاکستان کی طرف سے 2014ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف سرفراز احمد اور راحت علی بھی دسویں وکٹ کیلئے 81 رنز کا ایک ریکارڈ رکھتے ہیں۔ وسیم راجہ ایک یہ منفرد اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے 1985ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف ہملٹن کے مقام پر منعقد ہونے والے ایک روزہ بین الاقوامی میچ میں اننگ کا آغاز کیا اور بعد ازاں انہوں نے بولنگ میں بھی پہلی گیند پھینکی
کرکٹ پر کتاب
ایڈم لیکوڈی کے ساتھ، مل کر اس نے 1997ء میں ایک کتاب تحریر کی جس کا نام کارنرڈ ٹائیگرز: ہسٹری آف پاکستانز ٹیسٹ کرکٹ عبدالحفیظ کاردار سے وسیم اکرم تک حس کے 300 صفحات تھے۔
وفات
23 اگست 2006ء میں ایک کاونٹی میچ کے دوران میں سلپ میں کھڑے ساتھی فیلڈروں کو بتایا کہ ان کو چکر آ رہے ہیں اور میدان سے باہر جانا چاہتے ہیں۔ انہیں جب میدان سے باہر لے جایا جا رہا تھا تو وہ باونڈری لائن پر انتقال کر گئے ان کی عمر اس وقت 54 سال 51 دن تھی ان کے پسماندگان میں ان کی اہلیہ اینی اور ان کے دو بیٹے علی اور احمد ہیں۔