عمران عثمانی
یہ ایک سچ ہے،بلیک کیپس کے لئے نیندیں اڑانے اور پاکستانیوں کے لئے تسلی والا۔نیوزی لینڈ پاکستان کے خلاف آئی سی سی میگا ایونٹس کے سیمی فائنل میں ہمیشہ ہی ناکام ہوا ہے۔کہانی 1992 سے شروع ہوتی ہے اور کچھ حتمی نہیں کہ 3 دہائیوں بعدآج 2022 میں ختم ہوجائے گی،اس لئے کہ یہ ماضی کی طرح جاری رہ سکتی ہے،اگر بدھ کو سڈنی میں نیوزی لینڈ پاکستان کے خلاف ایک اور سیمی فائنل ہارجائے۔
کیوی ٹیم کے لئے تلخ یادیں ہیں،آج اس میں کھیلنے والے مارٹن گپٹل عمر رسیدہ ہیں لیکن 1992 میں وہ بھی صرف 5 برس کے تھے،اس سے زائد اس ٹیم میں کچھ نہیں لیکن پیچھے پورا ملک ہے اور دامن میں تلخ یادیں ہیں۔
بدھ 9 نومبر کو پاکستان اور نیوزی لینڈ جب آئی سی سی ٹی 20 ورلڈکپ سیمی فائنل میں ٹکرائیں گے تو 30 سالوں میں یہ ان کا مجموعی طور پر چوتھا سیمی فائنل ہوگا۔مقابلہ 0-3 سے یکطرفہ رہا۔بلیک کیپس سربگوں رہے۔گرین کیپس ہمیشہ ٹاپ پر تھے۔1992 ورلڈکپ سیمی فائنل میں جب یہ پہلی بار ملے تو نیوزی لینڈ فیورٹ تھا۔ناقابل شکست تھا۔پاکستان آج کے حالات کی طرح گرتا پڑتا اور کرکٹ امداد لیتا سیمی فائنل میں اترا تھا ۔عمران خان کی قیادت میں پاکستان نے جاوید میاں داد اور انضمام الحق کی یادگار اننگز کی بدولت کیویز کو 4 وکٹوں سے شکست دی۔
ٹی 20 ورلڈکپ،پاکستان کاسیمی فائنل کس سے پڑگیا،1992 ورلڈکپ کا سکرپٹ حاوی
دونوں ٹیمیں ٹھیک اس کے سات سال بعد ورلڈکپ 1999 کےسیمی فائنل میں اولڈ ٹریفرڈ میں مدمقابل ہوئیں۔پاکستان نے242 رنزکا ہدف صرف ایک وکٹ پر پورا کیا۔سعید انور کی سنچری قابل ذکر تھی۔
اس فارمیٹ یعنی ٹی 20 ورلڈکپ 2007 کا سیمی فائنل بھی دونوں نے کھیلا۔کیپ ٹائون میں کیویز کے بنائے گئے143 اسکور ناکافی تھے۔پاکستان 6 وکٹ سے جیت کرفائنل میں گیا۔یوں یہ بات بھی اہم ہےکہ قومی ٹیم ان ایونٹس میں ایک ہی بار چیمپئن بن سکی اور وہ 1992 کی بات ہے۔
اس خلاصہ سے یہ واضح ہوا کہ نیوزی لینڈ پاکستان کے خلاف کسی بھی ناک آئوٹ مقام پر سامنے آکر کھڑا نہیں ہوسکا۔تین عشروں میں یہی کچھ ہوا ہے۔اب 15 برس کے طویل وقفہ کے بعد دونوں ٹی 20 فارمیٹ کے سیمی فائنل میں ہی مدمقابل ہیں۔
نیوزی لینڈ کی پرفارمنس دیکھیں کہ گزشتہ 7 سال میں وہ 5 ویں بار کسی بھی آئی سی سی ایونٹ کے فائنل 4 میں 5 ویں بار داخل ہوا۔اس کی کوششیں کہاں دم توڑتی نظر آئی ہیں۔2015 اور 2019 ورلڈکپ فائنل میں شکست۔2016 کے ٹی 20 ورلڈکپ سیمی فائنل اور 2021 کے ٹی 20 ورلڈکپ فائنل میں ناکامی۔یہ ایک ایسی ہسٹری ہےجو تکلیف دہ ہے کہ کیویز آئی سی سی کا یہ ٹائٹل اٹھانے میں کیوں ناکام ہوجاتے ہیں۔گزشتہ برس اگر چہ انہوں نے ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ فائنل جیتا ہے لیکن یہ سب کسی سیمی فائنل کے بغیر ہے اور اس لئے بھی کہ اسے شروع ہوئے 2 سال بھی نہ ہوئے تھے۔
پاکستان کو ایسے میچز میں ماسٹر کلاس مہارت ہے۔پھر ایک ریکارڈ ہے۔کیویز پر ایک خوف صرف پاکستان کا ہی نہیں بلکہ یہ بھی ہے کہ وہ منزل کے قریب آکر شکار ہوجاتے ہیں۔اس ٹیم میں تمام پلیئرز وہ ہیں جو ورلڈ ٹی 20 کپ 2021 کے فائنل میں آسٹریلیا سے ہارے،کئی وہ پلیئرز ہیں جو 2019 ورلڈکپ فائنل انگلینڈ سے ہارگئے۔6 سے زائد پلیئرز وہ ہیں جو 2016 ٹی 20 ورلڈکپ سیمی فائنل نہ جیت سکے۔