ورلڈکپ کہانی سلور جوبلی ایڈیشن 2023 سے یہ 23 ویں قسط پیش خدمت ہے۔سافٹ کاپی زیر طبع ہے۔یہ 7 واں ایڈیشن ہے۔عمران عثمانی کی یہ کتاب ہر 4 سال بعد شائع ہوتی ہے۔یہ سلسلہ 1998 کے آخر سے بلاتعطل جاری ہے۔
کرکٹ کا 13 واں عالمی کپ5 اکتوبر 2023 سے بھارت میں شروع ہو رہا ہے، جس میں 10 ٹیمیں میزبان بھارت، پاکستان، انگلینڈ، سری لنکا، بنگلہ دیش، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ ، جنوبی افریقا، نیدرلینڈز اور افغانستان کی ٹیمیں شرکت کر رہی ہیں۔ میگا ایونٹ کے ایک روزہ مقابلوں میں 48 میچ کھیلے جائیں گے۔ بھارت کے 10 شہروں کے 10 مقامات ان کی میزبانی کریں گے۔ کرکٹ کا یہ 13 واں عالمی کپ کون جیتے گا؟ ورلڈ کپ کی اس کہانی میں کس کی باری ہوگی۔ کھیلنے والی ہر ٹیم اسی یقین کے ساتھ میدان میں اترے گی کہ آ گئی اپنی باری۔ ملین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ واقعی آ گئی اپنی باری؟ اس سوال کے جواب کے لئے ہمیں جہاں 19 نومبر کاکا انتظار کرنا ہو گا، وہاں اس سے قبل ہم کوشش کر کے حتمی نہ سہی کسی قریب ترین نتیجہ تک پہنچ سکتے ہیں۔
ورلڈکپ2023،پھر 12 برس بعد بھارت،سیمی فائنل کنفرم مگر کیسے،دلچسپ کہانی.کرکٹ ورلڈکپ 2023 مضمون یہ ہے کہ کیا یاد ہے۔4 برس قبل جب پہلی بار کرکٹ ورلڈکپ 1992 والے فارمیٹ میں کھیلا گیا تو پہلے میچ کے پاکستانی مقابلے کے شیڈول کے ساتھ ہی مماثلت تلاش کی جاتی رہیں۔پھر جب ابتدائی 5 میچز کے نتائج بھی ویسے نکلے تو سب چونکے اور پھر پاکستان جب جیتنے لگا تو سب کو یقین ہوگیا کہ تاریخ پلٹنے والی ہے لیکن نہیں۔سب کچھ کرکے پاکستان نیوزی لینڈ کے ساتھ 11 پوائنٹس کے اشتراک کے باوجود نیٹ رن ریٹ سے ہارگیا،سیمی فائنل سے باہر ہوگیا۔کہانیاں جھوٹی ہوگئیں۔
ورلڈکپ کہانی،کیویز مقدر کے ستاروں کا گردش نامہ،مسلسل 2 فائلنز،نیوزی لینڈ اب کی بار باری لے جائے گا
تلاش کرنے پر آئیں تو بہت سی باتیں ہیں۔1992 ورلڈکپ سے قبل پاکستان وقار یونس جیسے بائولر سے محروم ہوا تو اس بار نسیم شاہ سے دوری ہوئی ہے۔آخری بار جب پاکستان 2011 وارلڈکپ کھیلنے بھارت گیا تھا تو اسے سیمی فائنل کھیلے 12 سال ہوگئے تھے،کیونکہ 1999 کے بعد پاکستان اگلے 2 ایونٹ کے سیمی فائنلز نہیں کھیل سکا تھا۔اس بار بھی یہی کہانی ہے۔2011 ورلڈکپ سیمی فائنل کے بعد کے 2 ایونٹس میں پاکستان سیمی فائنل تک نہیں جاسکا۔اس بات کو بھی 12 برس ہوئے اور مقام ایک بار پھر بھارت ہے۔کیا اس مماثلت سے کم سے کم سیمی فائنل ممکن ہوتا ہے۔کنفرم ہوتا ہے۔
کرکٹ ورلڈکپ کہانی،بھارت پھرمیزبان،ریورس گیئریا نئی باری،تفصیلی جائزہ
کرکٹ ورلڈکپ 1992کا عالمی چیمپئن پاکستان موجودہ ورلڈ کپ کے لئے کسی بھی ٹیم یا مبصر کے نزدیک کتنا بڑا خطرہ ہے؟ ماضی قریب میں 2017 کی چیمپئنز ٹرافی پاکستان نے نان فیورٹ ہوتے ہوئے جیتی تھی۔ عشروں سے لگے اس لیبل کہ یہ ٹیم کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتی ہے کا تکرار اس مرتبہ بھی ہو گا، بابر الیون بھی ان سات ممالک میں شامل ہے جسے تمام12 ورلڈ کپ کھیلنے کا اعزاز حاصل ہے۔ پھر پاکستان ان 6 ممالک میں سے ایک ہے جس نے ورلڈ چیمپئن کی جنگ جیت رکھی ہے۔ ورلڈ کپ تاریخ میں 2 مرتبہ کا فائنلسٹ ہے گویا فائنل کھیلنے والوں میں اس کا تعداد کے حساب سے چوتھا نمبر ہے۔ آسٹریلیا 7 کے ساتھ پہلے ، انگلینڈ 4 کے ساتھ دوسرے، بھارت، سری لنکا اور ویسٹ انڈیز 3,3 فائنل کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں۔ 6 سیمی فائنل کے ساتھ پاکستان بھارت کے ساتھ زیادہ سیمی فائنل کھیلنے والا مشترکہ طور پر دوسرا ملک تھا لیکن اب نہیں،کیونکہ بھارت کے 7 سیمی فائنل ہوچکے ہیں۔۔ پاکستان نے ورلڈ کپ تاریخ میں 79 میچ کھیل رکھے ہیں۔ یہ زیادہ میچز کھیلنے والوں میں چھٹا نمبر ہے۔ فتوحات میں 45 نمبرز کے ساتھ اس کا پانچواں نمبر ہے۔ ناکامیوں میں 32 کا ہندسہ اس کا انگلینڈ کے ساتھ یکساں ہے، گویا نیوزی لینڈ اور سری لنکا سے کم ناکامیاں ہیں مگر باقی ممالک جیسے آسٹریلیا، بھارت، جنوبی افریقا سے زیادہ ناکامیاں ہیں۔ پاکستان کی کامیابیوں کا تناسب تشویشناک حد تک آسٹریلیا، بھارت، ویسٹ انڈیز، انگلینڈ حتیٰ کہ نیوزی لینڈ سے بھی کم ہے۔ پاکستان کا 2019 ورلڈ کپ سفر سیمی فائنل سے قبل ختم ہوگیا۔2015 میں اس کا سفر کوارٹر فائنل میں تمام ہوا۔ 2011 میں سیمی فائنل تک رہا جبکہ 2003 اور 2007 کے ورلڈ کپ میں پہلے ہی مرحلے میں گھر واپس آنا پڑا۔
ورلڈکپ کہانی،اب کس کی باری،انگلینڈکیلئے دفاع کیسے ناممکن،کہاں کھڑا ہے،مفصل جائزہ
ورلڈ کپ تاریخ میں پاکستان کے سفر کا خلاصہ کچھ یوں ہے:میچوں کی تعداد، پوزیشن
میچز 79 ، چھٹا نمبر
45، پانچواں نمبر
32، چوتھا نمبر
سیمی فائنلز 6،ان میں سے 2 جیتے،فائنل،2،ان میں سے ایک جیتا۔
گرین کیپس نے گذرے چار سال کا زمانہ ملا جلا گذارا ہے۔ آخری عرصہ میں نمبر ون پوزیشن بن گئی،ایشیا کپ میں شکست سے نمبر 2 پر چلے گئے۔۔ قیادت سرفراز احمد کو ملی، ۔ورلڈ کپ 2023 میں قومی کرکٹ ٹیم کہاں کھڑی ہو گی؟کیا کرسکے گی؟ اسے سمجھنے کے لئے 2 جائزے ضروری ہیں۔
پہلا جائزہ یہ ہے کہ گذشتہ ورلڈ کپ سے اس ورلڈ کپ تک کیا کچھ ہوتا رہا۔ 2 ورلڈکپ کے دوران پاکستان نے گزشتہ 4 سالوں میں پاکستان نے 36 ون ڈے میچ کھیلے، 24 جیتے اور 10ہارے،۔ کمبی نیشن کا فقدان بھی بنیادی مسئلہ ہے. لیفٹ ہینڈ باؤلرز کی بھرمار ہوتی ہے یا پھر لیفٹ ہینڈڈ اوپنرز ہی ملتے ہیں، اچھے آل راؤنڈرز کی کمی محسوس ہوتی رہی۔ میچ ونر اور میچ فنشر ہر اہم مواقع پر دکھائی نہیں دیئے۔ کبھی باؤلنگ، کبھی بیٹنگ اور کبھی فیلڈنگ اور کبھی تو کمال ہی ہو گئی کہ تینوں شعبوں میں فلاپ کارکردگی نے پول کھول دئیے۔ چنانچہ گذشتہ 4 سالہ کارکردگی و کرداروں کو دیکھتے ہوئے بڑی آسانی سے کہا جا سکتا ہے کہ گرین شرٹس کے لئے فائنل فور میں انٹری آسان نہیں ہو گی بلکہ بہت مشکل ہو گی۔
دوسرے اعتبار سے دیکھا جائے تو سپن آپشنزن محدود ہیں، شاداب خان اور محمد نوازکے ساتھ اسامہ میر موجود ہیں۔بیٹنگ میں امام الحق،بابر اعظم اور محمد رضوان ہی بنیادی ستون ہونگے۔پیس اٹیک کمزور اور ناتجربہ کار ہے۔مماثلت سے ہٹ کر سادہ سی بات یہ ہے کہ پاکستان کیلئے سیمی فائنل کی منزل بہت مشکل ہے۔
ورلڈکپ 2023 تبدیل شدہ شیڈول جاری،9 میچز الٹ پلٹ،پاکستان،بنگلہ دیش،انگلینڈزیادہ متاثر
کرکٹ ورلڈکپ تاریخ میں پاکستان سری لنکا کے خلاف تمام 7 میچز سے ناقابل شکست ہے توبھارت سے تمام 7 میچز میں ناکام بھی ہے۔نیوزی لینڈ سے 9 میں سے 7 میچزجیتے،2 ہارے۔انگلینڈ سے دس میچز میں سے 5 جیتے،4ہارے،ایک بے نتیجہ رہا۔آسٹریلیا سے دس میں سے 6 جیتے تو 4 ہارے۔نیدرلینڈ سے تمام 2 اور افغانستان سے 1 ہی میچ ہوا۔دونوں ٹیموں سے جیتے ہیں۔بنگلہ دیش سے 2 میچزمیں مقابلہ 1-1 سے برابر ہے۔جنوبی افریقا سے 5 میں سے 2 جیتے اور 3 ہارے ہیں۔
اسکواڈ: بابر اعظم، شاداب خان، فخر زمان، امام الحق، عبداللہ شفیق، محمد رضوان، سعود شکیل، افتخار احمد، سلمان علی آغا، محمد نواز، اسامہ میر، حارث رؤف، حسن علی، شاہین آفریدی ،محمد وسیم۔
بمقابلہ نیدرلینڈز (6 اکتوبر)، حیدرآباد
بمقابلہ سری لنکا (10 اکتوبر)، حیدرآباد
بمقابلہ بھارت (14 اکتوبر)، احمد آباد
بمقابلہ آسٹریلیا (20 اکتوبر)، بنگلورو
بمقابلہ افغانستان (23 اکتوبر)، چنئی
بمقابلہ جنوبی افریقہ (27 اکتوبر)، چنئی
بمقابلہ بنگلہ دیش (31 اکتوبر)، کولکتہ
بمقابلہ نیوزی لینڈ (04 نومبر)، بنگلورو
بمقابلہ انگلینڈ (11 نومبر)، کولکتہ
آخری بار ٹیمیں بھارت میں کرکٹ ورلڈ کپ ایکشن میں مدمقابل 2011 کے سیمی فائنل کے دوران تھیں، جہاں پاکستان موہالی میں 29 رنز سے شکست کھا گیا۔