کرک اگین رپورٹ
کیا آپ جانتے ہیں کہ ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کا منصوبہ یا خیال کب پیش کیا گیا تھا اگرچہ یہ تو آپ کو اب علم ہوگا کہ یہ تیسری آئی سی سی ٹیسٹ چیمپین شپ ہے جس کا فائنل اس وقت لارڈز میں جاری ہے۔ اسے ہم 2023 سے 2025 کا سائیکل کہتے ہیں اور اس کا آغاز 2019 کے پہلے سائیکل سے ہوا تھا، جس کا فائنل 2021 میں ہوا تھا اور 2021 سے 2023 کا دوسرا سائیکل بھی ہو چکا ہے تو یہ جب فائنل مکمل ہوگا تو ورلڈ ٹیسٹ چیمپین شپ کے تین سائیکل یعنی چھ سال مکمل ہو جائیں گے ،لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ اس کا منصوبہ کب پیش کیا گیا تھا۔ ہم یہاں ذکر کرتے چلیں کہ اس کا ویژن اور منصوبہ 2008 میں آئی سی سی کو پیش کیا گیا جسے مسترد کر دیا گیا. پھر بھی کوئی نہیں تھکا اور چار سال بعد 2013 میں اسے سامنے رکھا گیا تو اسے التوا میں ڈالا گیا .2017 میں اسے شروع کرنے کا خیال تھا لیکن پھر منسوخ کر دیا گیا اور 2019 میں ٹرین سیٹ کر دی گئی, حالانکہ سمجھوتوں سے گھرے ہوئے اور پیچیدہ نقطہ نظر کے ساتھ اس کا آغاز ہوا تھا .
اج یہ بات کیوں یاد آرہی ہے ۔یہ بات کیوں کہنی پڑ رہی ہے، اس لیے کہ اس وقت لارڈز میں آئی سی سی ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ سائیکل تین کا فائنل جاری ہے ۔یہ کیسا فائنل ہے ۔دو دن میں کیا کچھ ہوا ہے اور کون سی ٹیمیں کھیل رہی ہیں۔ کیا یہ ٹیسٹ کرکٹ کا حسن ہے ۔کیا یہی پانچ روزہ کرکٹ کی پہچان ہے ۔کیا یہ ٹیسٹ کرکٹ کی معراج ہے اور کیا یہ فائنل اس کرکٹ کی، اس کھیل کے بقا کی ضامن ہے جس کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔
ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ سے طویل فارمیٹ کو بچایا جاتا ہے ۔ہو سکتا ہے کہنے والے کہیں کہ پچ کا قصور ہے۔ ہو سکتا ہے پچ کے اندر غلطیاں نکالی جائیں ،لیکن اگر آپ باریکی سے دیکھیں ۔لارڈز کی پچ اور لندن کا موسم سب ٹیموں کے لیے ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے تو پچ کا قصور کم ہے۔
طویل فارمیٹ کا یہ پانچ روزہ ٹیسٹ میچ ہے ۔کیا جنوبی افریقہ اس کا اہل تھا کہ وہ یہ فائنل کھیلتا۔ اعداد و شمار اور نمبرز کو دیکھیں تو ٹھیک ہے، لیکن کھیل اور اس کی معراج کو سمجھیں اور فائنل کی ریس کو دیکھیں تو کیا یہ ٹھیک ہے۔ سوال تو بنتا ہے۔ یہ سوال بھی بنتا ہے یہی جنوبی افریقہ کی ٹیم کے کھلاڑی چھ ماہ سے ریڈ بال کرکٹ نہیں کھیلے ۔180 دن سے کوئی ٹیسٹ میچ نہیں کھیلے۔ ایسی کوئی پریکٹس نہیں کی ۔آسٹریلیا کا بھی یہی حال ہے کہ اس کا چار ماہ سے کوئی ٹیسٹ میچ نہیں تھا ۔ آئی سی سی کا میگا ایونٹ فائنل ہے اس سے قبل کم سے کم ایک پریکٹس میچ شیڈول ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ایک فارمیٹ کے حساب سے ایک حساب سیٹ کیا جاتا جس سے بیٹرز اور بائولرز کے لیے یکساں مواقع ہوتے ہیں ۔ابھی بیٹرز کی پریکٹس کم نظر آرہی ہے اور بولرز بلکہ اگر کہا جائے پیسرز کا راج رہا ہے تو غلط نہیں ہوگا تو اس حساب سے ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کم اور ویسٹ آف ٹائم چیمپئن شپ زیادہ ہے، یہ کیسی چیمپئن شپ ہے تو مخصوص ممالک خاص ممالک کے خلاف من چاہی سریز کھیلتے ہیں اور من چاہے میچز رکھتے ہیں اور اہم ممالک اہم سیریز نہیں کھیلتے ۔ایک فارمولا ہے کہ دو سال میں اپنے ملک میں 3 اور ملک سے باہر 3 سیریز کھیلنی ہیں۔ چھ سیریز ۔ اب کوئی 12 ٹیسٹ کھیل رہے ہیں تو یہ اوسط میں سال کے چھ ٹیسٹ میچز بنتے ہیں تو یہ ٹیسٹ کرکٹ کی بقا کی ضمانت نہیں ہے۔ یہ ٹیسٹ کرکٹ چیمپین شپ نہیں ہے بلکہ یہ ویسٹ آف ٹائم چیمپین شپ ہے۔