دبئی،کرک اگین اسپیشل ڈیسک رپورٹ
پاکستان ہارگیا۔آسٹریلیا جیت گیا۔آئی سی سی ٹی 20 ورلڈ کپ کے ایک اور ایڈیشن کے سیمی فائنل میں سفر تمام ہوا۔پاکستان جس نے ایونٹ کے گروپ 2 کے تمام 5 میچزجیتے تھے،وہ 2010 کی طرح سیمی فائنل میں آسٹریلیا سے ہارگیا۔ہار جیت کھیل کا حصہ ہے لیکن جب کچھ چیزیں سائیڈ لائن پر الٹی چل رہی ہوں تو ذہن میں سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔
سب سے پہلے تو میچ کو ذہن میں لائیں کہ پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے کس انداز میں سلو بلے بازی ہوئی۔19 ویں اوور تک کو 3 رنز تک رکھا گیا،ایسا کیوں ہوا۔پوری بیٹنگ لائن باقی تھی،کس چیز کا ڈر تھا۔غلطیاں نہیں،غلطیوں کی لائن تھی۔20 سے 25 اسکور کم کئے گئے۔
پھر آسٹریلیا کی آدھی ٹیم 96 پر پویلین لوٹ گئی،سٹیون سمتھ تھے،نہ ڈیوڈ وارنر۔ایرون فنچ بچے تھے اور نہ گلین میکسویل۔اب ایونٹ کے ناکام ترین بیٹرز میتھیو ویڈ اور مارکس سٹوئنز کھڑے تھے۔کیا یہاں ٹیم کی ہار بنتی تھی۔
دوسرا سیمی فائنل آج،پاکستان اور آسٹریلیا میں جنگ،ٹاس،میچ کی پیش گوئی،مزید اہم نکات
حسن علی کی تمام6 میچز میں سلیکشن کس بنیاد پر تھی۔کیا ہیں وہ ؟ بیک اپ پلان میں شاہ نواز دھانی موجود تھے،انہیں کیوں نہیں لایا گیا۔جب ایسی حرکتیں ہوبگی تو پھر فخر زمان 20 بالز ضائع کرکے اگلی 12 بالز پر 30 سے 35 کریں گے تو کیا سمجھیں۔اسی طرح بائولنگ میں انہیں مر پڑے جارہی ہے لیکن اس نے ہی 4 اوورز مکمل کرنے تھے،سوال ہوتا ہے کہ کیوں؟ایک جانب حسن علی 4 آئوٹ کر رہے ہیں تو دوسری جانب حفیظ،شعیب اور عماد کے ہوتے ہوئے انہیں درست استعمال کیوں نہیں کیا گیا۔
اس سےبھی آگے چلیں ،فیلڈ میں 3 سے 4 رن آئوٹ،2 کیچز ڈراپ،اس میں اسے ایک نازک ترین موقع پر کیچ ڈراپ ہوا،ڈراپ کرنے والے بھی حسن علی ہوں تویہ کیا سب اتفاقات ہوتے ہیں۔عشرےگزر گئے ہیں کہ پاکستان میگا ایونٹ کے اہم ناک آئوٹ میچز اس طرح کیوں ہارجاتا ہے۔کیا یہ کمپیوٹر ڈسک ہے؟ جس میں سب کچھ فیڈ ہےکہ ایسا ہی چلنا ہے۔
سوال یہ بھی ہوگا کہ ایساکیوں نہیں ہوجاتا کہ 96 پر 5 وکٹ لینے کے بعد اگلی5 وکٹیں 30 رنزکے اندر اڑادی جاتیں،ایسا کیا تھا کہ ہر بار یہی کچھ ہوتا ہے،جہاں اسپنرز کو لانا ہوتا ہے،وہاں حسن علیجیسے پیسرز آجاتے ہیں۔کریکٹر ایک یا 2 ہی ہوتے ہیں،باقی کام ڈائریکٹرز کا ہوتا ہے۔
پاکستان پھر آسٹریلیا سے ہار گیا،ٹی 20 ورلڈ کپ سے بوریا بستر گول،دوسری پیش گوئی سچ
دن میں آپ خبریں چلائیں کہ پاکستان فائنل میں پہنچا تو وزیر اعظم عمران خان فائنل دیکھنے دبئی جائیں گے،یہ خبر یا یہ ہدایت کس نے جاری کروائی ،اس کا مقصد یا ضرورت کیا تھی،آپ نے جانا ہے تو عین وقت پر یا فائنل کے فائنل ہونے تک کے چند گھنٹوں کا انتظار کرلیں۔
یہ ایسے ہی ہے کہ کیسے 2011 ورلڈ کپ کے موقع پر اس وقت کے وزیر داخلہ رحمان ملک نے کہا تھا کہ کھلاڑی جوا کھیلنے کی کوشش مت کریں،ان کی خفیہ نگرانی کیا جارہی ہے ،جیلیں بھردیں گے،وغیرہ وغیرہ۔پھر سب نے دیکھا تھا کہ اسی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں کیا ہوا تھا اور کیسا ہوا تھا،اس کا سکرپٹ کیسا تھا۔کپتان بےخبر تھا،کچھ نام نہاد کھلاڑی بطور کریکٹر اپنا کام کر گئے تھے،بعد میں کیا نوازے گئے تھے،یہ کہانی نہیں حقیقت ہے۔ورلڈ کپ 1999 فائنل بھی ایک حقیقت ہے۔
ایک اورعجب کہانی ہوئی ہے۔ 2011 ورلڈ کپ سیمی فائنل بھارت سے ہارنے پر یہاں میڈیا میں چلایا گیا کہ ہمیں تم سے پیار ہے،وزیر اعظم آفس میں بلا کر بڑی داد دی گئی کہ واقعی جیسے کارنامہ سر انجام دیا گیا،یوں کہہ لیں کہ جیسے بہت بڑا کام توقع سے بڑھ کر ہوا ہو۔
یاد ہوگا کہ 1987 شارجہ کپ میں جاوید میاں داد نے چیتن شرما کو چھکا مارا تھا۔نتیجہ میں ان کا کیریئر تمام ہوگیا،وہاں تو کوئی تمغہ نہیں ملا کہ کوئی بات نہیں پاکستان سے فائنل کھیل رہے تھے ،یہی بڑی بات تھی۔،یہ صرف پاکستان میں ہوتا ہے۔
اب ورلڈ ٹی 20 کپ سیمی فائنل ہارے ہیں،یہاں پھر وہی راگالاپا جارہا ہے کہ تم جیتو یا ہارو،ہمیں تم سے پیار ہے۔تم نے 5 میچز جیتے ہیں۔سابق کرکٹرز ٹی وی پر بیٹھے یہی بات کر رہے ہیں۔پی سی بی چیئرمین رمیز راجہ کو بھی اس ٹیم پر فخر ہوگیا ہے،تازہ ارشاد یہی ہوا ہے۔وزیراعظم عمران خان نے ٹوئٹ کیا ہے کہ مجھے پتہ ہے کہ اس وقت آپ کیکیا فیلنگ ہیں،میں بھی ایسی حالت سے گزرا ہوں۔قوم کو تماری ایسی کرکٹ اور ایسے شاندار رویہ پر فخر ہے۔
پہلے تو یہ یاد کرلیں کہ پاکستانی ٹیم نے اس ایونٹ میں کیا کیا ہے؟بھارتسے میچ جیتا،یہ بڑی ،اکلوتی اور واضح فتح تھی۔اس کے بعد نیوزی لینڈ اورافغانستان سے میچز قریب ہارچکے تھے۔آصف علی چھکے نہ جڑتے تو پاکستان وہ میچز ہارگیا تھا،یہ فتح اتفاق بلکہ یہ فتوحات اتفاق تھیں۔اس کے بعد سکاٹ لینڈ اور نمیبیا سے میچز معمولی سائیڈز والے تھے۔چنانچہ بھارت کو چھوڑ کر باقی ٹیموں کے میچز کی فتح کیا تھی؟2کمزور ٹیموں سے جیت بڑی بات تھی؟افغانستان سے ایسی جیت بنتی تھی؟نیوزی لینڈ کے خلاف 134 رنزکا ہدف عذاب نہیں بن گیا تھا؟لے دے کے اب آسٹریلیا سامنے تھا،سیمی فائنل جیسا بڑا میچ تھا۔غلطیوں کی بھر مار تھی۔حسن علی جیسے ناکام بائولر کا بوجھ تھا،کیچز ڈتراپ تھے تو پھر کس ٹیم کی کس کارکردگی پر فخر کیا جارہا ہے۔کیسی مٹی پائو پروگرام چل رہا ہے۔جو ٹیم عرب امارات کی پسندیدہ وکٹ پر فائنل میں نہ جاسکے ،وہ اگلے سال آسٹریلیا میں فائنل کھیل جائے گی؟
فخر زمان کے اچهے چهکے،پاکستان 176 کے باوجود چیلنج میں
یہاں سب الٹی باتیں چل رہی ہیں۔بھارت سے اچھاکھیلے۔بھارت کو ہرادیا۔وغیری وغیرہ۔یہی کرکٹ ہے؟اسی پر فخر کرتے رہنا ہے؟
کبھی کبھار ایسا لگتا ہے کہ ایک ڈائریکٹر ہے۔آسٹریلیا نےاتفاق سے ہی اس میگا شو سے قبل پاکستان میں سیریز کھیلنے کا حتمی اعلان کیا۔انگلینڈ بورڈ کے سربراہ بھی اتفاق سے ہی قذافی اسٹیڈیم لاہور اس میچ سے پہلے آئے،اب 4 دن بعد نیوزی لینڈ بورڈ بھی اتفاق سے پاکستان میں اپنی سیریز کا اعلان کرے گا۔
یہسارے اتفاقات ہیں جوہمیشہ ہوتے ہیں۔جو اچانک ہوتے ہیں،ایک وقت تھا کہ بڑے سپر اسٹارز کی ٹیم میگا ایونٹ کا ناک آئوٹ میچ ہارکر ملک میں رات کے اندھیرے میں داخل نہیں ہوسکتی تھی،جوتیاں پڑتی تھیں،ایک یہ وقت ہے کہ ورلڈ کپ جیسے ایونٹ کے سیمی فائنلز میں بھارت اور آسٹریلیا سے ہارکر آنے والوں کو ہار پہنائے جاتے ہیں۔باقی ممالک کی سیریز کے اعلانات بھی اتفاقی ہوتے ہیں۔
بس ایک اتفاق نہیں ہوتا۔بس ایک واقعہ ہی نہیں ہوتا۔وہ یہ کہ پاکستان میگا ایونٹ کے سیمی فائنل یا ناک آئوٹ میچ میں کبھی نہیں جیتتا،بس یہ اتفاق نہیں ہوتا کہ 5ویں بار سامنے آسٹریلیا آیا ہے اور پاکستان پھر ہارگیا ہے۔جیتنے کا اتفاق نہیں ہوتا۔یہ کیوں نہیں ہوتا؟