کرک اگین خصوصی تجزیہ نگار
رمیز راجہ کی آڈیو لیک،ماسٹر پلان واضح،انجام یاد رکھیں۔پی سی بی چیئرمین رمیز راجہ کی آڈیو وائرل ہورہی ہے۔یہ سب اس وقت ہوا جب وہ کراچی میں ہیں۔انہوں نے بدھ کا مصروف ترین دن گزارا۔پہلے پریس کانفرنس کی۔ایک تقریب اٹینڈ کی۔بعد میں کراچی سے تعلق رکھنے والے سابق ٹیسٹ کرکٹرز سے ملاقات کی۔ان کے اعزاز میں بڑی شاندار تقریب تھی۔جاوید میانداد سمیت کراچی کے سابق کرکٹرز کی بڑی تعداد ان سے ملی۔یہ پی سی بی چیئرمین شپ کی سطح پر ایک منفرد کوشش تھی،اسے سراہا جانا چاہئے ۔
اسی دوران ایک آڈیو وائرل ہونے لگی،جس میں رمیز راجہ جواب دیتے کہہ رہے ہیں کہ میرا دل کرتا ہے کہ جب میں آپ کا شو دیکھتا ہوں تو ٹی وی کی سکرین توڑدوں۔
رمیز راجہ میڈیا پرپھر برہم،سخت انداز میں سنادیں،اہم انکشافات
یہ ریکارڈڈ گفتگو تازہ ہے یا پرانی،اس سے قطع نظر موجودہ حالات میں نہایت اہم ہے۔اس لئے کہ آج صبح ہی رمیز راجہ نے میڈیا کے طرز عمل پر شدید تنقید کی تھی۔یہ سلسلہ جاری ہے جو مسلسل چل رہا ہے۔
یہاں سمجھنے کی ایک بینادی بات ہے۔اسے ذہن میں رکھیں اور ساری صورتحال کا نچوڑ نکال لیں۔
کہانی شروع کیسے ہوئی
پہلی بات یہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی حکومت تبدیل ہوئی۔ایک روایت ہے کہ اس کے ساتھ پی سی بی چیئرمین بھی بدلتے ہیں۔اس بار ایسا نہیں ہوا۔
دوسری بات یہ ہے کہ جب تک عمران خان کی حکومت تھی،حالات بہت بہتر تھے،اڑھائی ماہ کے بدلتے حالات میں مہنگائی آسمان پر پہنچ چکی ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ اس میں میڈیا کا کردار اہم رہا ہے۔چونکہ رمیز راجہ کو بھی میڈیا سے مسئلہ ہے۔اس لئے یہی اہم نکتہ ہے۔
منافقانہ روش
یہ بات 100 فیصد درست ہے کہ عمران خان کی حکومت کی تبدیلی کے لئے 90 فیصد میڈیا نے بھی خوب زورلگایا،اہم کردار ادا کیا ہے۔اس بات سے کسی کو اختلاف ہوسکتا ہے لیکن سچ یہی ہے اور دوسرا کڑوا سچ یہ ہے کہ ملکی معاشی،سیاسی حالات اس وقت تباہی کے دھانے پر ہیں لیکن اسی 90 فیصد میڈیا پر سب ٹھیک ہے کی بین بج رہی ہے۔بجلی کا شور ہے نا پٹرول کا ،ڈیزل کی دہائی ہے اور نہ ہی مہنگائی مہنگائی ہے۔صحافت کے بنیادی اصول کے خلاف یہ جرنلزم چل رہی ہے۔یہ 90 فیصد میڈیا سابقہ حکومت میں ہائے مہنگائی ،ہائے دہائی کا جہاد کیا کرتا تھا۔اس 90 فیصد میڈیا کو ہر حال میں حکومتی تبدیلی سے غرض تھی۔عوام کے مسائل یا ملکی تباہی کی کوئی پروا شاہد نہیں ہوتی۔اگر ہوتی تو آج اس خوفناک مہنگائی اور بدترین لوڈ شیڈنگ میں یہ طرز عمل نہ ہوتا۔یہ بات یہاں تک سمجھ لی ہے تو پھر یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ اس 90 فیصد میڈیا میں سے اکثریتی حصہ کو پی سی بی چیئرمین کی تبدیلی بھی درکار تھی۔یہ مہم تب بھی چلی جب نئی نئی حکومت برطرف ہوئی۔
پی سی بی چیئرمین رمیز راجہ کا مستقبل کیا،ایک فیصلہ سب واضح کردے گا
کرک اگین کو اعزاز حاصل ہے کہ اسنے حکومت کی تبدیلی کے ایک ہفتہ کے اندر رمیز راجہ کے قیام کا دعویٰ کیا تھا،جب یہ میڈیا ذکا اشرف اور نجم سیٹھی کے نام چلارہا تھا۔
رمیزراجہ کا گلہ جائز
اب ایسے ماحول میں کہ جب میڈیا نے رمیز راجہ کے معاملہ میں فریق کا کردار ادا کیا ہو تو انکا گلہ بھی جائز ہے اور شکوہ ھی ۔پھر معاملہ جب کرکٹ رائٹس کی منسوخی کی کوشش اور اسے کسی بھی طرح حاصل کرنے کی مہم چلانے کا ہو تو رمیز کی موجودگی پھر پرابلم دیتی ہے۔ایسے میں کسی وزیر کی پریس کانفرنس اور رمیز کی پریس کانفرنس کو ملانا انصاف نہیں ہے اور کسی آڈیو کا نکالنا بھی مناسب عمل نہیں ہے۔
عزت دائو پر لگ گئی
رمیز راجہ بطور پی سی بی چیئرمین درست جارہے یا نہیں؟ان کے دور میں کرکٹ بہتری کے انقلابی اقدامات ہورہے یا نہیں؟وہ بطورِ کرکٹر اس سیٹ کے لئے موزوں ہیں یا نہیں؟
اس پر بحث کریں،حکومت بدلنے کے فارمولہ کو پی سی بی چیئرمین کی تبدیلی کے ساتھ لازم و ملزوم مت بنائیں۔
میڈیا خود دیکھے کہ وہ انصاف کررہا ہے یا نہیں ،اس کے بعد کسی مطالباتی یا خواہشاتی مہم کا حصہ بننے سے گریز کرے۔اچھوں اچھوں کی عزت دائو پر لگی ہے۔
ماسٹر پلان کا انجام
چلتی روایت پرانی ہے،خواہشات کی تکمیل کا انداز بھی عشروں پرانا ہے۔جان لیں کہ ملکی سطح پر ماسٹر پلان بنانے والے سراپا پچھتاوا بنے ہیں۔ایک دنیا ان کی رسوائی دیکھ رہی ہے۔پاکستان کرکٹ کےموجودہ حالات میں اہم ترین پوسٹ پر موجود رمیز راجہ کے حوالہ سے ذاتی بنیادپر ترتیب دیا جانے والےماسٹر پلان کا انجام بھی وہی ہوگا جو اڑھائی ماہ قبل ہوا تھا۔پرانےانداز میں نئی مہم چلنے والی نہیں،کامیاب ہوبھی گئی تو اسے دوام نہیں ہوگا۔اس کا حصہ بننے والوں کا انجام بھی وہی ہوگا جو حال کے کریکٹرز کا ہورہا ہے۔