لندن،دبئی،کرک اگین رپورٹ
ایک جانب انگلینڈ میں نسل پرستی کے حوالہ سے کرکٹ موضوع بحث بلکہ اس کے اختتامی نتائج کی جانب گامزن ہے۔18 ماہ قبل شروع ہونے والی نسل پرستانہ کرکٹ جنگ کے نتائج آنا شروع ہوگئے ہیں۔ایک پاکستانی نژاد کرکٹر سے یہ سلسلہ شروع ہواتھا،اچھے اچھے اس کی لپیٹ میں آئے ہیں لیکن اسے ڈیڑھ سال لگ گیا۔قابل اطمینان بات یہ ہے کہ اس پر ایکشن شروع ہے۔اس کا تمام تر سہرا انگلش میڈیا کو بھی جاتا ہے،اس نے بلا امتیار کارروائی کی ہے اور اسے ہائی لائٹ کیا ہے۔
عظیم رفیق جو کہ یارک شائر کائونٹی سے کھیلا کرتے تھے،وہ برطانوی پارلینٹ تک پہنچ گئے،وزیر اعظم بورس جانسن کو ایکشن لینا پڑا ہے۔موجودہ کپتان جوئے روٹ اگلے ماہ سے شیڈول ایشز سیریز سے قبل اپنی ٹیم سے اس حوالہ سے بات بھی کریں گے۔یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔
ہوم آف کرکٹ انگلینڈ میں عشروں سے جاری اس مکروہ کھیل کے اختتام کا وقت قریب ہے۔ای سی بی شدید دبائو میں ہے،بہت بڑے ایکشن مزید لئے جاسکتے ہیں۔برطانیہ کو کرکٹ کی جنم بھومی کہا جاتا ہے،وہاں یہ سب ہورہا تھا۔سب خاموش تھے۔میڈیا کے مسلسل شور کے بعد ای سی بی کو ایکشن لینا پڑ رہا ہے،ایسے میں کرکٹ کی گلوبل باڈی آئی سی سی میں کیا چل رہا ہے،یہاں بھی بہت سی باتیں قابل توجہ ہیں۔ان کے بھی اٹھائے جانے،ایکشن لئے جانے کی ضرورت ہے۔
عمران خان کے دوست نوجوت سنگھ سدھو آج پھر پاکستان کے دورے پر
دوعشرے ہونے کو ہیں۔بگ تھری کا ہر معاملہ میں ہولڈ ہے۔آئی سی سی رکن ممالک سمیت ایسوسی ایٹ ممبرز بھی متاثرین کی فہرست میں شامل ہیں۔فنڈز کی تقسیم میں طاقت ور اور کمزور کا پہلو سامنے رکھاجاتا ہے۔باہمی سیریز کے حوالہ سے بھی یہی تاثر ہے۔مشکوک بائولنگ ایکشن سمیت اینٹی ڈوپنگ اور میچ فکسنگ الزامات پر ہونے والی کارروائی بھی دہرا معیار رکھتی ہے۔یہی نہیں گلوبل ایونٹس کی میزبانی پر بھی یہی رنگ چڑھے ہیں،کسی کو اپنے کرکٹ سسٹم،کسی کو اپنی کرکٹ کمائی اور کسی کو اپنے ٹی وی رائٹس پر ناز ہے۔
آئی سی سی کی کلیدی سیٹس پر بر اجمان ہونے والا بھی مخصوص طبقہ ہے۔سوال اب بھی ہوا ہے کہ ورلڈ کرکٹ کمیٹی کا ہیڈ ایک ہی ملک کا کیوں بنایا جارہا ہے۔انیل کامبلے کے بعد کوئی سیاہ فام یا کمزور ممالک کا سفیف فام کیوں نہیں،ایک اور بھارتی سارو گنگولی ہی کیوں۔اسی طرح اور بھی بہت سے معاملات ہیں۔آسٹریلیا،بھارت اور نیوزی لینڈ جب چاہیں کسی بھی ملک میں کھیلنے سے انکار کردیتے ہیں۔کوئی پوچھنے یا سوال کرنے والا کوئی نہیں ہے۔
دوسرے ممالک منہ دیکھتے رہ جاتےہیں۔یہ تاثر بھی عام ہے کہ طاقتور ممالک یا اس کے کھلاڑیوں کے خلاف تادیبی کارروائی میں بھی دہرا معیار رکھا جاتا ہے۔کرکٹ قوانین بناتے وقت بھی پسند،ناپسند سامنے ہوتی ہے۔نتیجہ میں فرق کی لکیر اور واضح ہوتی ہے۔
یہ نسل پرستی ہے۔جس کی لاٹھی اس کی بھینس کی مثال ہے۔پیسے کی اہمیت کو ماننا ہے اور یا پھر بقول رمیز راجہ کے ایک ویسٹرن گروپ کی طاقت ہے۔یہی وجہ ہے کہ رمیز راجہ سے جب یہ پوچھاجاتا ہے کہ بھارت پاکستان میں آکر آئی سی سی یا ایشیائی کرکٹ کا ایونٹ نہ کھیلے تو کیا ہوگا،وہ کہتے ہیں کہ مثبت رہو۔اچھا سوچو،اب یہ آسان نہیں ہوگا۔کیسے آسان نہیں ہوگا۔انگلینڈ بورڈ کی طرح آئی سی سی میں تو تاحال ایسی کوئی مہم چلی ہے اور نہ کوئی ایکشن لیا گیا ہے تو سب کیسے ٹھیک ہوگیا۔
ای سی بی کی طرح آئی سی سی سطح پر بھی بہتری کی ضرورت ہے،آپریشن کلین اپ کرکے سب کے خدشات دور کئے جانے کا وقت اان پہنچا ہے،اب بھی ایسا نہ ہوا تو آئی سی سی میں بھی انگلینڈ کرکٹ کی طرح اچانک دھماکا ہوگا۔