تجزیہ،کرک اگین ایڈیٹر
اگر کسی نے یہ جاننا ہو کہ سیاست کیا ہوتی ہے۔منافقت کیسی ہوتی ہے تو نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کرکٹ کے حالیہ فیصلے دیکھ لے۔اس سے قبل کہ ہم اگلے پہاڑے کی جانب جائیں کہ آسٹریلیا،انگلینڈ اور نیوزی لینڈ اگلےسال شیڈول کے مطابق پاکستان کا دورہ کریں گے اور کرکٹ بحال ہوگی۔ممکن ہے کہ ایسا ہی ہو۔ممکن ہے کہ وہ بھی نہ ہو۔بات اگلے سال کے پہاڑے کی نہیں ہے۔بات یہ ہے کہ ابھی کیا ہوا۔کوئی گدھا ہی یہی پہاڑہ پڑھے گا کہ آسٹریلیا پاکستان کا دورہ کرے گا۔کیوں ؟ فائیو آئی میں آسٹریلیا بھی شامل ہے۔پہلے نیوزی لیند،پھر انگلینڈ نے ہاتھ دکھایا ہےتو آسٹریلیا کیوں ہاتھ نہیں دکھائے گا۔
یہ خبر تو ہم دے چکے ہیں کہ انگلینڈ نے دورہ پاکستان ختم کردیا ہے۔پی سی بی چیئرمین رمیز راجہ ک رد عمل بھی دیکھ لیا گیا کہ انہیں مایوسی ہوئی ہے اور سارا کام کرکٹرز کے سپرد کردیا یے کہ وہ اچھا کھیلیں۔نمبر ون بنیں۔پھر دنیا کی یہاں لائن لگ جائے گی۔گویا پی سی بی اور حکومت نے کچھ نہیں کرنا۔ٹیم نے نمبر ون نہیں بننا اور کوئی دوسرا کام نہیں ہوسکے گا۔
مغرب کو زیادہ جاننے والا کیا کرے گا
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان سابق کرکٹر رہے ہیں۔ہمیشہ انگلینڈ کو زیادہ جاننے کا دعویٰ کرتے ہیں۔مغرب کے بارے میں بھی بہت کچھ علم رکھنے کی بات کرتے ہیں۔اب دوسری ٹیم نے دورہ منسوخ کردیا ہے۔عمران خان کیا جانتے ہیں۔عوام کو بتانا پسند کریں گے؟اگر کوئی شرائط ہیں۔اگر کسی کو کوئی مسئلہ ہے اور پاکستان پورا نہیں کر پارہا ہے تو کیا عمران خان قوم کو بتائیں گے۔آخر ایسا کیا ہے کہ یکدم سب کچھ بدل گیا ہے۔عمران خان بہت دعوے کرتے آئے ہیں۔ان پر فرض ہے کہ ایسا موقف دیں یا کوئی فیصلہ جاری کریں جس سے پاکستانی قوم کے جذبات کی عکاسی ہو۔
وفاقی کا بینہ اجلاس میں مسئلہ شامل،ہوگا کیا
وفاقی حکومت کا اہم ترین اجلاس منگل 21 ستمبر کو ہورہا ہے۔اس کے ایجنڈے میں نیوزی لینڈ کے دورہ پاکستان کی منسوخی کا معاملہ شامل ہے،اب انگلینڈ کا معاملہ بھی شامل ہونا چاہئے۔اب یہی بات ہوگی کہ یہ دونوں ٹیمیں پاکستان کیوں نہیں آئیں۔اس کے حوالہ سے سخت فیصلے کی ضرورت ہے۔انگلینڈ نے پاکستان کے دورے کے التوا کا بہانہ سکیورٹی کا نہیں بنایا بلکہ کھلاڑیوں کی دماغی ،جسمانی حالت کو بنیاد بنایا۔سوال یہ ہے کہ دورےکو شیڈول کیوں کیا۔انٹر نیشنل کرکٹ اور ورلڈ ٹی 20 کے شیڈول کے دوران آئی پی ایل کے لئے اپنے پلیئرز کو کیوں فری کیا۔یہ سب بہانے ہیں۔اصل بات اور ہے۔کیویز نے جب سکیورٹی الرٹ کو بنیاد بنایا تو پاکستان سیدھا ہوگیا۔تفصیلات مانگ مانگ کر دنیا کے سامنے ننگا کردیا کہ یہ سکیورٹی الرٹ کی تفصیلات نہیں بتارہے ہیں۔انگلینڈ بھی اس 5 رکنی انٹیلی جنس اتحاد کا رکن تھا جس نے کیویز کا دورہ ختم کروایا تھا۔وہ اب یہ دورہ کیسے کرتا۔نتیجہ میں وہ پٹا ہوا بہانہ بنا نہیں سکتا تھا۔اس لئے اس نے دوسری بات کی۔
پاکستانی حکومت کا بہتر فیصلہ کیا ہوسکتا
سادہ سی بات ہے،باہمی کرکٹ سیریز کے حوالہ سے آئی سی سی کا ایک موقف رہا ہے کہ یہ 2 ممالک کی آپس کی سیریز ہوتی ہیںحکومت جب اجازت نہ دے تو آئی سی سی کیا کرسکتی۔وقت آگیا ہے کہ حکومت پاکستان بھی اب وہی کام کرے جو بھارت اب تک کرتا آیا ہے۔ہر اس ملک کے خلاف بیرونی دورے کیا جازت دینے سے انکار کردے جو پاکستان کے دورے سے منکر ہو۔پاکستان کی ہوم سیریز نہ کھیلنے والے ممالک میں پاکستان کو بھی جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہونی چاہئے۔عمران خان کی حکومت جب یہ فیصلہ جاری کردے گی تو قومی کرکٹ ٹیم بھی اس وقت تک نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کا دورہ نہیں کرے گی جب تک یہ ممالک اپنی نامکمل سیریز پاکستان آکر نہ کھیل لیں۔اس سے کیا ہوگا۔
اس سے یہی ہوگا نا کہ پاکستان بھی ان ممالک میں جا نہیں سکے گا تو کیا نقصان ہوگا۔پاکستان غیر ملکی سیریز جب بھی نہیں کھیلے گا تو اس سے پاکستان کا نہیں ،میزبان ملک کا نقصان ہوگا۔اب یہ تو نہیں ہوسکتا کہ دنیا ہمارا نقصان بھی کرے۔عزت بھی دائو پر لگادے۔گھر آکر جوتیاں بھی مارے اور ہم دوسروں کا نقصان پورا کرتے چلیں۔پاکستان کا 2020 کا دورہ انگلینڈ اسی سلسلہ کا ثبوت ہے کہ وہ انگلینڈ کے فائدے کے لئے تھا۔اسی طرح پھر نیوزی لینڈ کے دورے میں بھی یہی کچھ ہوا۔
کرکٹ ممالک کا نیا اتحاد
پاکستان اس کے ساتھ ساتھ اپنا ہم خیال گروپ بنائے۔اسے زمبابوے کی مدد حاصل ہوگی جو پہلے ہی آئی سی سی سمیت تمام کرکٹ ممالک سے شاکی ہے۔کرکٹ جنوبی افریقا کو ساتھ ملالے۔ویسٹ انڈیز کو دلائل سے واضح کرے۔سری لنکا پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوسکتا ہے۔اسی طرح بنگلہ دیش کی بھی مدد لی جاسکتی ہے۔افغانستان بھی کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ایسے میں یہ ٹیسٹ کھیلنے والے 12 ممالک ہیں۔پاکستان اپنے ساتھ آدھے ممالک کھڑے کرسکتا ہے اور اس کی مدد سے آئی سی سی سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات منواسکتا ہے