آئی سی سی نے تو ابھی ٹیسٹ کرکٹ میں دو درجاتی سسٹم کا ڈنڈا نہیں چلایا،جب چلائیں گے تو بھی اس کے کچھ اصول رکھیں گے۔ممکن ہے کہ اس ماہ وہ فیصلہ کردیں اور 2027 سے نافذ کریں گویا وقت دیں گے کہ جس نے اول درجے میں آنا ہے۔اس سائیکل می زور لگالے۔کسی ظابطہ اور تیاری کے تحت رہنما اصول مرتب کریں گے، لیکن ایک پاکستان کرکٹ بورڈ ہے۔اس کے پاس دماغ ہیں، نہ ہی شاید آئی اے لیول کی کوئی سائنس۔انہوں نے اچانک سے ملک میں ٹیسٹ کرکٹ کی بنیاد فرسٹ کلاس کرکٹ میں دودرجاتی سسٹم لاگو کردیا ہے۔اعلان کئے بغیر۔ٹیموں کو تیاری کا موقع دیئے بغیر۔کیا کوئی ذہن ہے۔کیا ہی کمال اینٹیلجنٹ ہے۔ویسے آرٹیفیشل ایٹیلی جنس بھی اس سے بہتر ہوتی۔کیا عجب بریکنگ نیوز ہے کہ قائد اعظم ٹرافی 26-2025 میں کراچی،راولپنڈی،فیصل آباد اور ملتان نہیں ہونگے۔آپ کو لگے کہ ٹھیک نہیں پڑھا تو پھر دیکھیں کہ 21 بار کی چیمپئن کراچی قائد اعظم ٹرافی نہیں کھیلے گی،دودرجاتی سسٹم یا نظام شاید پی سی بی کو بھاگیا،نام پسند آگیا ہے۔مطلب نہیں سمجھا،ڈنڈا چلادیا ہے۔وزیر اعلیٰ سندھ اور وزیر اعلیٰ بلوچستان نے نوٹس لے لیا ہے اور پی سی بی حکام سے رابطے میں ہیں۔
ماجرا کیا ہے اور پی سی بی نے آج کیا کیا ہے
کراچی کرکٹ کی نرسری کو ویران کرنے کی تیاری کرلی گئی۔۔تفصیلات کے مطابق پی سی بی نے ڈومیسٹک کرکٹ نظام میں ایک بار پھر تبدیلی کا فیصلہ کر لیا، آئندہ برس قائد اعظم ٹرافی میں 18 کے بجائے 8 ٹیمیں شامل کی جائیں گی، گذشتہ برس کے پوائنٹس ٹیبل کی ابتدائی 6 ٹیمیں براہ راست کوالیفائی کر لیں گی، 15 اگست سے شروع ہونے والے گریڈ 2 حنیف محمد کپ سے دیگردو جگہ بنائیں گی۔
یوں ابتدائی طور پر کراچی کی کوئی ٹیم فرسٹ کلاس ایونٹ میں شریک نہیں ہے، کوالیفائی نہ کرنے کی صورت میں پہلی بار ایسا ہوگا کہ 21 بار کی فاتح سائیڈ قائد اعظم ٹرافی میں حصہ نہیں لے گی، ماضی میں شہرقائد کی 2 ٹیمیں ایونٹ کے دوران ایکشن میں نظر آتی رہی ہیں۔
سیاق و سباق کے لحاظ سے، کراچی کی ٹیمیں ؤ 21 بار قائد اعظم ٹرافی کے فاتح بنیں۔ پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ میں بھارت کے ممبئی کے مقابلے میں ایک قد کاٹھ رکھتے ہیں، جنہوں نے 42 بار رنجی ٹرافی جیتنے کا دعویٰ کیا ہے۔
گزشتہ روز لاہور میں ڈومیسٹک کرکٹ کے حوالے سے اہم اجلاس ہوا جس کی صدارت سی او او سمیر احمد سید نے کی، بورڈ کی جانب سے ڈائریکٹر ڈومیسٹک عبداللہ خرم نیازی، ڈائریکٹر ہائی پرفارمنس عاقب جاوید، جی ایم ڈومیسٹک کرکٹ جنید ضیا اورچیئرمین کے مشیر بلال افضل بھی شریک ہوئے۔طارق سرور ( بہاولپور ریجن) سجاد کھوکر (اے جے کے) ظفر اللہ (ڈی ایم جے) اور خواجہ ندیم (لاہور) میٹنگ میں موجود رہے، ندیم عمر ( کراچی ) گل زادہ (پشاور) اور تنویر احمد (لاڑکانہ ) نے ویڈیو کال پر جوائن کیا۔
ملتان کرکٹ کی نرسری ہے۔یہاں اکیڈمیز ہیں،یہاں سے بے شمار کرکٹرز پاکستان کی شناخت بنے۔انضمام اکیڈمی ہے۔ملتان انٹر نیشنل کرکٹ سٹیڈیم نے گزشتہ سال پی سی بی کے مشکل وقت میں انٹرنشنل میچزکی میزبانی کی اور تمام غیر ملکی ٹیمیں مطمئن رہیں۔اسے بھی فرسٹ کلاس سٹیٹس سے باہر نکال پھینکا ہے۔
پی سی بی آفیشلز نے شرکا کو بتایا کہ تعداد کے بجائے کوالٹی کو ترجیح دیتے ہوئے قائد اعظم ٹرافی میں ٹیموں کی تعداد 18 سے کم کر کے 8 کی جا رہی ہے، گریڈ ٹو حنیف محمد ٹرافی کا انعقاد ہوگا، اس کی دونوں فائنلسٹ ٹیمیں بھی فرسٹ کلاس ایونٹ میں جگہ بنا لیں گی، گریڈ ٹو سے باہر سائیڈز کے غیرمعمولی پرفارم کرنے والے کھلاڑیوں کو قائد اعظم ٹرافی میں بطور مہمان پلیئر حصہ لینے کا موقع دیا جائے گا۔
راشد لطیف جو کہ سابق کیپر بلے باز اور پاکستانی ٹیم کے کپتان بھی ہیں، کو پی سی بی کے اس اقدام میں کچھ غلط نظر نہیں آیا۔ گذشتہ چھ سات سالوں میں ڈومیسٹک ڈھانچہ بدل رہا ہے اور ٹیموں کی تعداد بھی بدل رہی ہے۔ کراچی کی ٹیموں کے پاس قائد اعظم ٹرافی کے لیے کوالیفائی کرنے کا موقع ہے۔ میں خود بھی کراچی کا ہوں اور میں کہہ سکتا ہوں کہ میں اس فیصلے سے مطمئن ہوں۔
واضح رہے کہ 2023-24 کے سیزن میں لاہور بلوز 99، سیالکوٹ 90، پشاور 89، اسلام آباد 87، ایبٹ آباد 84 اور بہاولپورکی ٹیم 82 پوائنٹس حاصل کرنے میں کامیاب رہی تھی، یہ 6 ٹیمیں قائد اعظم ٹرافی میں براہ راست حصہ لینے کی اہل ہوں گی، یوں گریڈ ٹو کا فائنل نہ کھیلنے پر 21 ٹائٹلز جیتنے والی کراچی کی ٹیم تاریخ میں پہلی بار قائد اعظم ٹرافی سے باہر ہونے کے قریب پہنچ گئی۔
حنیف محمد ٹرافی کا انعقاد 15 اگست سے ہوگا جس میں سرفہرست دو ٹیمیں قائداعظم ٹرافی کے لیے کوالیفائی کریں گی۔ فیصل آباد، راولپنڈی، فاٹا، لاہور ریجن بلیوز، حیدرآباد، ملتان، کوئٹہ، ڈی ایم۔ جمالی، اے جے کے، اور لاڑکانہ دیگر 10 ٹیمیں ہیں جو حنیف محمد ٹرافی میں کراچی کی ٹیموں کے ساتھ حصہ لیں گی۔
گزشتہ سیزن میں کراچی اور لاہور کی 2،2 سائیڈز شریک ہوئی تھیں، لاہور کی ایک ٹیم باہر ہوگئی، راولپنڈی کو بھی براہ راست جگہ نہ مل سکی، میٹنگ کے دوران گرماگرمی بھی ہوئی، کراچی ریجن نے صدر ندیم عمر نے اپنا اختلافی نوٹ درج کرایا، طارق سرور کی ایک اعلیٰ آفیشل سے تکرار ہوئی تاہم بعد میں معاملہ حل کر لیا گیا۔حالیہ فیصلوں کے حوالے سے کراچی کرکٹ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ 2023-24 سیزن میں کراچی کی ٹیموں نے ڈومیسٹک کرکٹ میں شاندار کھیل پیش کیا تھا، قائد اعظم ٹرافی، قومی ٹی ٹوئنٹی کپ کے ٹائٹلز جیتے، قومی ون ڈے کپ کا فائنل کھیلا، انڈر 19 ون ڈے کپ میں فتح حاصل کی جبکہ سہ روزہ اور انڈر 17 کے فائنل میں حصہ لیا۔
پاکستان کے سابق کپتان عمران خان نے وزیر اعظم پاکستان بنتے ہی ٹیموں کی تعداد کم کی تھی تو بڑی تنقید ہوئی تھی،ان کا ماننا بھی یہی تھا کہ کوالٹی کرکٹ ہو۔پی سی بی نے اب ان کی سوچ کا ہی نعرہ لگایا ہے تو کیا یہ اعتراف جرم ہے کہ ہاں ہم نے 2022 سے تبدیلی کرکے غلط کیا تھا
گزشتہ برس قائد اعظم ٹرافی میں ناقص کارکردگی کی وجہ سلیکشن معاملات میں بورڈ کی مبینہ مداخلت بنی، بعض کرکٹرز کو بطور گیسٹ دیگر ٹیموں میں شامل کرا دیا گیا جبکہ سعود شکیل اور شان مسعود کو ابتدائی میچز کھیلنے کی اجازت نہ ملی، ملک کے سب سے بڑے شہر کی ڈومیسٹک ایونٹ میں نمائندگی نہ ہونا ظلم ہوگا۔
پی سی بی چیئرمین محسن نقوی کو معاملہ کی نزاکت کا احساس ہوا ہے۔تازہ ترین بیان میں انہوں نے ریویو کا وعدہ کرکے کراچی کی حد تک معاملہ سیٹ کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے لیکن سوال پھر وہی ہے کہ یہ سب اگلے سال سے کریں،تاکہ اس سال ٹیموں کو بھرپور موقع مل سکے۔