لاہور،کرک اگین رپورٹ
ایک کرکٹر جب پی سی بی لیول کی ٹاپ سیٹ پر آتا ہے تو اس کا فائدہ ہوتا ہے۔پرابلم یہ ہے کہ جب ادارے کو آپ ایک ٹولہ کی خاطر تباہ کرتے ہیں تو مجھے اس سے تکلیف ہوتی ہے۔میرے خیال میں کرکٹ کا ادارہ بھی میڈیا کی طرح طاقتور ہے،یہ پوری قوم کو جوڑتاہے۔شب خون مارنا نامناسب ہے،رات کے 2 بجے چھاپا مارنا غلط ہے۔میرا سامان تک نہیں لینے دیا گیا۔مڈوے سیزن میں اس واردات پر مجھے رنجش ہے۔میں اس پر بولتا رہوں گا۔یہ باتیں ایک بار پھر رمیز راجہ نے پیر کی شب ایک نجی ٹی وی انٹرویو میں کی ہیں۔
نجم سیٹھی کو گھاس تک نہیں ڈالتا،رمیزراجہ
پاکستان کرکٹ کا نظام پھر تبدیل کردیا گیا،سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کرکٹرز اس نئے سیٹ اپ میں زیادہ بہتر ہیں۔اب کے کرکٹرز زیادہ کماتے ہیں۔شہروں کی بنیاد پر کرکٹ ہوتی ہے۔یہ وارہ کھاتی ہے۔بنک بمقابلہ بنک نہیں ہے۔یہ کہنا کہ پہلے فائدہ تھا۔اب نقصان ہے۔پروپیگنڈا ہے۔یہ اگر ڈیپارٹمنٹل کرکٹ بحال کرتے ہیں تو ان کو آسکر ملنا چاہئے کیونکہ یہ اب ہونے نہیں لگا۔اب معاشی طور پر سکت نہیں ہے کہ ڈیپارٹمنٹ کرکٹ چلاسکیں۔ہم 200 پلیئرز کو کنٹریکٹ پر لائے۔سیکنڈ الیون میں بھی اتنے ہیں۔انڈر 19 کھلاڑیوں کی لمبی لسٹ ہے۔اس وقت پاکستانی ٹیم کے ساتھ پی جے ایل کے پلیئرز لگائے گئے ہیں۔وہ پی ایس ایل میں بھی ہیں۔ہم کوالٹی کرکٹ لارہے ہیں۔
رمیز راجہ نے کہا ہے کہ میں نجم سیٹھی کو جانتا ہوں کہ رائٹ دکھاکر لیفٹ مارنا،یہ فیصلہ کریں گے کہ مجھے کمنٹری کی نوکری دینی ہے یا نہیں۔میرا ایک انٹرنیشنل سٹینڈرڈ ہے۔نجم سیٹھی نے کہا ہے کہ اگر رمیز کمنٹری کرنا چاہیں گے تو ہم دیکھیں گے کہ وہ اس ] پر پورا اترتے ہیں یانہیں اترتے ہیں۔یہ میرا سٹینڈرڈ سیٹ کریں گے،یہ ہیں کون۔پی ایس ایل کے بارے میں یہ اپنے آپ کو اس کا موجد کہتے ہیں۔لیگ کے فضول ترین کنٹریکٹ ان لوگوں نے کئے۔
عمران خان کا کرکٹ نظام دفن،سابقہ بحال،نجم سیٹھی کی تیزی،منظوری
نجم سیٹھی کا پلان یہ ہے کہ سیٹ چیزوں کو تباہ کریں اور پھر اپنے ڈرامے کرتے چلیں۔سیاست کرنی ہے،کام نہیں کرنا۔عاقب جاوید کے بارے میں رمیز راجہ نے کہا ہے کہ ان کی اتنی اوقات تھی تو ان کی لاہور قلندرز ہر سال پی ایس ایل میں آخر میں رہتی تھی،جب وہ گزشتہ سال جیتی تو عاقب اس وقت کووڈ قید میں تھے،یہ ہے اس کی حقیقت۔ویسے بھی جتنی عقل ان میں ہے،تو اب تک جہاں ہیں،وہیں ہیں نا۔سوچ منفی ہے۔عاقب کو تو بابر اعظم نے درست جواب دے دیا،پاکستان کرکٹ ایسے لوگوں کے ہاتھ مین کیا ہم دے دیں کہ جو بدتمیزی سکھائیں گے۔
سابق کرکٹرز کا آپس میں اتفاق نہیں ہے،جو سابق کرکٹر اوپر آتا ہے،اس سے حسد کیا جاتا ہے،پھر اس کی وجہ سے کرکٹرز پی سی بی کے اوپر نہیں آسکتے۔پھر نجم سیٹھی جیسے لوگ آجاتے ہیں۔گزرے سال میں وائٹ بال پرفارمنس بہت اچھی رہی۔ریڈ بال کرکٹ میں بہتری کی ضرورت ہے۔اگر مجھے عمران خان لے کر آئے ہیں تو میں کرکٹر ہوں،یہ بھی کرکٹر لے آئیں،مجھے ایک نان کرکٹر کے لانے اور اوور نائٹ شب خون مارنے پر پرابلم ہے۔پی سی بی چیئرمین کی تنخواہ نہیں ہوتی،میں نے بھی نہیں لی۔میں دعوے سے کہتا ہوں کہ جونیئر لیول ،اسکول لیول پر پورے 75 سال اتنی کرکٹ نہیں ہوئی ہے،جتنی میں نے کی کروائی ہے۔رمیز راجہ نے کہا ہے کہ شاہد آفریدی کو اس ماحول میں کام نہیں کرنا چاہئے،اس لئے کہ بندے کو دیکھنا چاہئے کہ وہ کس باس کے نیچے کام کررہے ہیں۔ان کو ویسے بھی کسی سیاسی چھتری کی ضرورت نہیں ہے۔وہ سابق کرکٹر رہے ہیں۔
رمیز راجہ نے کہا ہے کہ میں ایک کرکٹر ہوں،میرا ایک دور ہے،میرا 3 سالہ وقت تھا،اسے پوراہونا چاہئے۔عمران خان کے دور میں کرکٹ میں کوئی مداخلت نہیں ہوئی۔جنرل باجوہ سے کرکٹ یا پی سی بی کے حوالہ سے کبھی کوئی رابطہ یا بات نہیں ہوئی ہوئی۔عمران خان سے میری کوئی لڑائی نہیں ہوئی۔وہ ہمارے لیڈر ہیں،ان سے کیسے لڑائی ہوسکتی ہے۔