لاہور،کرک اگین رپورٹ
پی سی بی کے نئے تماشے،عوامی بہائو کے سامنے کون آئےگا،مصباح الحق کیا کرنے پر لگے۔پاکستان کرکٹ کے تماشے کون سا نئے ہیں،جس پر جلا جائے،کڑھاجائے۔یہاں ہر محمکہ اور ہر فیلڈ میں یہی کچھ ہوتا ہے۔المیہ صرف یکطرفہ نہیں،بلکہ 2 طرفہ ہے۔ناکارہ،ناکام قرار دیئے ہوئے کارتوس بڑی شان سے لائے جاتے ہیں۔کارتوس کاکام چونکہ چلنا ہوتا ہے،گویا وہ بھی تیار ہوتا ہے۔ایک شخص کو کتنی بار آزمایا جاسکتا ہے اور کتنی بار لات مار کر باہر نکالا جاسکتا ہے۔مہذب ممالک میں تو شاید ایک بار بھی نہیں۔اخراج کا راستہ بھی باعزت دیا جاتاہے۔واپسی کا توسوال ہی نہیں ہوتا۔ہمارے ملک میں طاقتور سیٹ سے لے کرگالیاں کھانے والی سیٹ تک،ایسا ہی ہوتا ہے۔باربار ہوتا ہے،سبق سیکھا جاتا نہیں ہے۔الٹا نئے رٹے رٹائے سبق کے ساتھ واپس آیا جاتا ہے۔
تمہید لمبی ہوگئی ہے۔اصل بات کی جانب آتے ہیں۔2019 سے 2021 تک پاکستان کرکٹ کے ساتھ سفر کرنے والے مصباح الحق چیف سلیکٹر جمع ہیڈکوچ کا وقت گزارچکے۔یہ ان کی خوش قسمتی تھی کہ کیریئر کے خاتمہ کےفوری بعد انہیں یہ ذمہ داری مل گئی۔وقار یونس کے ساتھ وقت کاٹنے والے مصباح کااختتام اچھا نہیں تھا۔رمیز راجہ کے چیئرمین پی سی بی بننے کے فوری بعد انہیں گھرجانا پڑا تھا۔ان سے قبل مکی آرتھر ہیڈ کوچ تھے۔انہیں بھی دوسرے کنٹریکٹ کی پیشکش نہیں ہوئی تھی مگر وہ چاہتے تھے۔آپ کمال یہ دیکھیں کہ مکی آرتھر گئے۔مصباح آگئے۔مصباح گئے۔کچھ وقت بعد مکی آرتھر نئے روپ میں آگئے۔اب پی سی بی رجیم تبدیل ہوتے ہی مصباح الحق آرہے ہیں اورمکی آرتھر کی فراغت کی افواہیں زور پکڑرہی ہیں۔یہ سب کیا ہے؟کبھی آسٹریلیا،انگلینڈ،بھارت میں ایسا ہوتے دیکھا۔
ذکا اشرف کی جگہ 2014 میں نجم سیٹھی آئے۔نجم سیٹھی کی جگہ رمیز راجہ آئے۔رمیز راجہ کی جگہ نجم سیٹھی آئے۔نجم سیٹھی کی جگہ پھر ذکا اشرف آگئے۔گویا 10 سال پیچھے کا منطرنامہ گھوم رہا۔دنیا آگے جاتی ہے۔ہم پیچھے جارہے ہیں۔ذکا اشرف کی پی سی بی منیجمنٹ کمیٹی کے طور پر تقرری ایسے ہی ہے ،جیسے نجم سیٹھی کی رمیز راجہ کی جگہ آمد ہوئی تھی۔کھوکھلی سی۔کمزور سی۔ابھی پی سی بی چیئرمین کے انتخابات ہی کیوں نہ ہوجائیں اورذکا اشرف چیئرمین ہی منتخب کیوں نہ ہوجائیں،پھر بھی گنگا الٹی بہہ سکتی ہے،اس لئے کہ جب تک ملک میں جنرل انتخابات نہیں ہوجائیں گے۔منتخب حکومت نہیں آجائے گی۔یہ کھچڑی ایسے ہی پکتی رہے گی۔
ایسے میں، جب ملک میں رجیم چینج حالات کی پکچر کلیئر ہے۔عوامی رد عمل واضح ہے۔اکثریتی رائے روز روشن کی طرح واضح ہے۔اس کے برعکس چلتے چکر میں چکی کے پاٹ بننے کیلئےشاید مصباح الحق کے پاس تو کوئی جواز ہو۔ذمہ دار،ذی شعور ناموں کو سوچنا پڑے گا۔مبینہ اطلاعات کے مطابق مصباح الحق پی سی بی کی کرکٹ کمیٹی کے ہیڈ اور ذکا اشرف کے مشیر بن چکے ہیں،اپنی کمیٹی میں وزن پیدا کرنے کیلئے اظہر علی،یونس خان،اقبال قاسم،انضمام الحق،وقار یونس اور محمد حفیظ سمیت راشد لطیف ودیگر سے رابطے میں ہیں۔چیف سلیکٹر کیلئے محمد حفیظ کو قائل کرنے کی کوشش ہے۔عامر سہیل کیلئے نئی ذمہ داری ہے۔ایشیا کپ اور ورلڈکپ سر پر ہے،اس سے ذرا پہلے مکی آرتھر سمیت کوچنگ سٹاف اور ٹیم منیجمنٹ تبدیلی کی کوششیں ہیں۔کیا ایسے وقت میں،ایسے حالات میں ،ایسی رجیم میں کوئی سمجھدار کرکٹر ایسا کرسکتا ہے؟کرک اگین کا سادہ سا سوال ہے کہ جس سیٹ پر ذکا اشرف ہیں اور جس پوزیشن پرہیں،کیا نجم سیٹھی ایسی سیٹ اور ایسی پوزیشن پر نہیں تھےْجب تھے،تو ان کے فیصلے کاغذی بنانے کی کوششیں ہورہی ہیں تو آپ کے فیصلے کیسے مضبوط کتاب بن سکیں گے۔پھر نجم سیٹھی جن کے نیچے کام کررہے تھے ،ذکا اشرف بھی ویسے ہی کام کررہے ہیں۔عوامی مقبولیت انہیں نہ تھی تو اب کسے ہے۔ایسے میں انضمام الحق،یونس خان،عامر سہیل،راشد لطیف اور اقبال قاسم کے ساتھ ساتھ کسی بڑے نام کو اس سیٹ اپ کا حصہ بننا چاہئے یا نہیں ؟جواب واضح اور کلیئر ہے۔
بدتمیزی پر سری لنکن کرکٹرکی سرزنش،میڈیا کس کے ہاتھ میں،بابر اعظم کی پھر بھی بلے بلے،اہم خبریں
مکی آرتھر ہوں یا بیٹنگ کوچ برن۔کسی کی تبدیلی کا یہ وقت اب مناسب نہیں ہے۔بدقسمتی یہ ہے کہ انہیں ہٹانے کی کوششیں وہ نام کررہے ہیں جو خود فضا میں معلق ہیں،جن کے پائوں کے نیچے زمین ہے،نہ سپورٹ۔یہ سب اس لئے ہے کہ بنیاد ہی غلط ہے۔میرے لئے آج یہ ایک مضحکہ خیز صورتحال ہے۔نجم سیٹھی کے آنے پر جو حلقہ خوشیاں منارہا تھا۔وہ آج ان کے جانے پر شدید پریشان ہے اور ذکا اشرف کےآنے پر جو حلقہ خوشیاں منارہا ہے،وہ اسے قبل پریشان تو نہیں البتہ اضطراب میں تھا۔دونوں کی مجموعی پکچر یہ ہوئی کہ آدھے پریشان اور آدھے خوش ہیں۔گویا رمیز راجہ کے جانے کے بعد کسی کو خوشی مکمل نہیں ملی،اس لئے کہ بنیاد غلط تھی اور ہے۔اس لئے کہ راستہ شارٹ کٹ والا تھا اور شارٹ کٹ میں کامیابی وقتی اور اناکامی یقینی اور حقیقی ہوا کرتی ہے۔ایسے کریکٹرز رہے اور ایسے فیصلے ہوئے تو آپ ایشیا کپ جیت سکیں گے اور نہ ہی ورلڈکپ۔