تحریر:محمد عظیم گھمن،سابق پاکستان انڈر 19 کپتان
پاکستان کرکٹ نچلی سطح کی آخری قسم پر کیوں،وجوہات جانیئے اور حل بھی ۔پاکستان کرکٹ اس وقت نچلی سطح کی آخری قسم پر ہے۔سوال ہوگا کہ کیا اس سے بھی گہرائی کی پستی ہوگی یا یہ سلسلہ یہاں سے واپس بہتری کی جانب جائے گا۔اس کا جواب یہاں تلاش کریں گے لیکن اس سے قبل ذرا ذکر ہوکہ پاکستان کرکٹ کی گرتی پڑتی پستی کیسے ہوئی اور اس کا ذمہ دار کون ہے۔
یہاں جو ہوا،اسے سال بھی مکمل نہیں ہوا۔نومبر 2023 کے ورلڈ کپ کے بعد بابر اعظم کو پی سی بی کے سابق چیئرمین ذکا اشرف نے کپتانی سے ہٹا دیا اور فوری طور پر شاہین شاہ آفریدی کو وائٹ بال قیادت سونپ دی۔ ان کی کپتانی میں پاکستان نیوزی لینڈ میں پانچ میچوں کی ٹی 20 سیریز میں صرف ایک میچ جیتنے میں کامیاب رہا۔ ادھر اس سے قب؛ بابرا عظم کی جگہ شان مسعود کو ٹیسٹ کپتان بنایا گیا تھا جو آسٹریلیا میں3 ٹیسٹ کی سیریز ہارگئے تھے۔
پاکستان ٹیم کی واپسی کے ساتھ ہی پی سی بی مین ایک نئی انتظامیہ آگئی اور محسن نقوی کو نیا چیئرمین پی سی بی مقرر کیا گیا۔ انہوں نے شاہین کو وائٹ بال کپتانی سے ہٹاکربابر اعظم کوامریکہ میں 2024 ورلڈ کپ کے اختتام تک دوبارہ ٹی20 کرکٹ ٹیم کا کپتان مقرر کردیا۔
کرکٹ ڈائنامک میں یہ غیر متوقع تبدیلیاں ٹیم یا انتظامیہ یا کسی بھی سطح پر کم سے کم پاکستان کرکٹ کے لیے کبھی بھی اچھی نہیں تھیں۔ میرا ماننا ہے کہ شاہین کو کم از کم ورلڈ کپ تک کپتان رہنا چاہیے تھا کیونکہ ایک اچھی یا بری سیریز سے فیصلہ نہیں ہوتا۔اگر ایسا تھا تو بابر بطور کپتان تین ٹی ٹوئنٹی سیریز میں نیوزی لینڈ کے خلاف ہوم میدانوں میں نہ جیت سکے اور سیریز 2-2 سے برابر رہی۔کیوی ٹیم نچلے درجہ کی تھی۔صف اول کے پلیئرز تو بھارت مین آئی پی ایل میں تھے۔پھر کیا یہ نتیجہ قابل قبول تھا؟ میرا خیال ہے کہ نہیں۔
آئرلینڈ اور انگلینڈ کے دوروں میں سیریز کے لیے پاکستان کرکٹ ٹیم نے کچھ نئے کھلاڑیوں کے ساتھ تجربہ کیا، جن میں عرفان خان نیازی، صائم ایوب اور اعظم خان شامل تھے، آئرلینڈ کے خلاف پاکستان کا میچ ایک عام میچ کی طرح نظر آرہا تھا لیکن پہلے ٹی ٹوئنٹی میچ میں بھی آئرلینڈ نے انہیں شکست دی۔ اگرچہ اس کے بعد پاکستان نسبتاً زیادہ مضبوط ہوا، تاہم مجھے شک ہے کہ اس سے پاکستانی ٹیم کے حوصلے نہیں بڑھے ہوں گے۔ نتیجہ میں انگلینڈ کے خلاف دو میچ بارش کی نذر ہوئے تو باقی دو بری طرح سے ہار گئے۔
خوش قسمتی سے پاکستان صائم ایوب کے ساتھ اوپننگ کے اپنے منصوبے پر اچھا لگ رہا تھا، جو کوئی بھی میچ جتواسکتے تھے۔ نوجوان اعظم خان اکیلے ہی میچ جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ورلڈ کپ سے قبل پاکستانی ٹیم نے دونوں کو اچھے مواقع فراہم کیے تھے اور ایسا لگتا تھا کہ وہ بالآخر پلیئنگ 11 میں شامل ہوں گے۔ پاکستان کا اسپن اٹیک سب سے زیادہ پریشان کن تھا۔ شاداب خان پر بہت زیادہ بھروسہ کیا گیا تھا، جو بحیثیت باؤلر اعتماد کھو بیٹھے تھے، تاہم، اسپنر ابرار احمد جو پاکستان کے سب سے بڑے ٹرمپ کارڈ بن سکتے تھے کو ورلڈ کپ سے قبل بمشکل ہی کوئی موقع دیا گیا۔ورلڈ کپ کے شیڈول کے مطابق، پاکستان ایک کمزور گروپ میں تھا جس میں مرکزی ٹیم کے طور پر صرف بھارت اور دیگر ایسوسی ایٹ ٹیمیں جیسے کینیڈا، آئرلینڈ اور امریکہ شامل تھے۔ پاکستان سپر 8 کے لیے ممکنہ طور پر فیورٹ تھا۔
Pakistan cricket team has hit the new low
ورلڈ کپ کا آغاز پاکستان کے لیے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں تھا کیونکہ وہ پہلی بار امریکا کے خلاف کھیلا تھا۔ صائم ایوب کو ڈراپ کر دیا، جنہیں پچھلی تین سیریز میں سپورٹ کیا گیا تھا اور کہا تھا کہ وہ یقینی طور پر ورلڈ کپ کے لیے ہمارے اوپنر بننے جا رہے ہیں۔ پاکستان نے ان کو ایک ایسے میگا ایونٹ میں ڈراپ کیا جس کے لیے وہ اسے تیار کر رہے تھے۔ میرے خیال میں پاکستان نے غلط فیصلے کیئے۔ خاص طور پر جب کپتان خود ٹاس کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ کہ پچ میں نمی بہت زیادہ ہے اور پھر بھی انہوں نے ایک اضافی اسپنر نہیں کھلایا جو کہ ایک عجیب بات تھی۔ پاکستان نے صرف 159 رنز بنائے ۔ اسپنر بری طرح جبکہ اگر آپ پاکستان کی باؤلنگ لائن اپ کو دیکھیں تو یہ تیز گیند بازوں سے زیادہ بھری ہوئی تھی اور بہت کم لوگوں نے سوچا ہوگا کہ 159 یو ایس اے ٹیم کے لیے کافی ہوں گے لیکن یہ غلط تھا۔ پاکستانی اسپنرز ان حالات میں بھی شاداب کی شکل میں ایسی کنڈیشنز میں پرفارم نہیں کر سکے اور دوسرے پیس اٹیک کو سپورٹ فراہم کرنے میں ناکام رہے۔پاکستان کو یقینی طور پر ان کے اسپن ڈپارٹمنٹ نے مایوس کیا۔امریکہ نے بالآخر کھیل برابر کر دیا اور تجربہ کار تیز گیند باز محمد عامر کے خلاف سپر اوور میں 18 رنز بنائے جس کا تعاقب کرنے میں پاکستان ناکام رہا۔
بھارت کے خلاف دوسرا میچ زبردست رہا۔ حیرت انگیز طور پر دو کھلاڑیوں کو ڈراپ کیا جن کی وہ سب سے زیادہ حمایت کر رہے تھے، جن میں اعظم خان بھی شامل تھے۔ دوسرے فیصلے نے واضح طور پر ظاہر کیا کہ پاکستان کے گزشتہ 3-4 ماہ کے منصوبے اور عمل کو گرہن لگ گیا۔ پاکستان کچھ نیا کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ انہوں نے ایک اہم ٹاس جیت کر پہلے بولنگ کی۔ پاکستانی سیمر نے شاندار باؤلنگ کی اور بھارت کو صرف 119 پر آئوٹ کر دیا۔ ایسا لگتا تھا کہ پاکستان آسانی سے اس کا تعاقب کرنے میں کامیاب ہو جائے گا، لیکن پاکستان اس کا پیچھا نہ کر سکا۔ عجیب بات ہے کہ انہوں نے تمام 20 اوورز کھیلے اور صرف 113 رنز بنائے جبکہ 3 وکٹیں باقی تھیں۔
پاکستان اگرچہ آئرلینڈ اور کینیڈا کے خلاف بقیہ دو میچوں میں فتح یاب رہا لیکن ٹی 20 ورلڈکپ کے پہلے مرحلہ سے باہر ہوگیا تھا۔
ون ڈے ورلڈکپ۔دورہ آسٹریلیا،نیوزی لینڈ،انگلینڈ میں شکست۔ٹی 20 ورلڈکپ میں بد ترین شکست ۔سوال ہے کہ ایسا کیوں ہوا۔یہ آخری سہ ماہی میں اچانک انتظامیہ ردوبدل کی وجہ سے ہونا تھا۔یہاں یہ سوال بھی ہوگا کہ کیا ورلڈ کپ میں ریٹائرڈ کھلاڑیوں کو واپس لانا ضروری تھا؟ یہ درخواست کرنا ضروری تھا کہ کوئی متحدہ عرب امارات چھوڑ کر پاکستان کے لیے کھیلے؟ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈومیسٹک کھلاڑیوں اور ٹورنامنٹس پر بھروسہ نہیں کیا جا رہا تھا۔ مزید برآں اپنے ٹرمپ کارڈ پلیئرز صائم ایوب اور اعظم خان کو چھوڑنا مزید واضح کرتا ہے کہ بڑے موٹے ایونٹ کی منصوبہ بندی میں تقریباً 4 ماہ گزارے، تاہم وہ خود اس پر یقین کرنے میں ناکام رہا۔
ورلڈ کپ کے بعد پاکستان نے عبدالرزاق اور وہاب ریاض کو ہٹا کر خصوصی طور پر سلیکشن کمیٹی میں کچھ تبدیلیاں کیں اور حال ہی میں نئی سلیکشن کمیٹی نے بنگلہ دیش کے خلاف ٹیسٹ سیریز کے لیے شان مسعود کے ساتھ ٹیم کا اعلان کیا ہے۔یہاں سے پاکستان کا 2024-25 کا کرکٹ سیزن شروع ہورہا ہے۔کوچز بدلے گئے۔کپتان بدلنے کے بعد بھی تبدیلی کے امکانات موجود ہیں،یہ سب کرکے بھی ناکامیاں ہوئی ہیں تو آگے مزید کیا ہوگا۔اسے دیکھنا ہوگا۔ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ فائنل منزل ہے ۔پاکستان کے 9 میں سے 7 ٹیسٹ ہوم گرائونڈز میں ہیں۔بنگلہ دیش،انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کو ہرانا بنتا ہے۔جنوبی افریقا میں کامیاب کوشش بنتی ہے لیکن یہ سب کیونکر ہوکر رہے گا،اس کیلئے پہلے انتظار کرتے ہیں اور پھر کچھ رائے دیں گے۔
یہ آرٹیکل کرک اگین ڈاٹ کام نے اپنے پڑھنے والوں کیلئے انگلش میں شائع کرنے کے بعد اردو میں بھی شائع کیا ہے،تاکہ پڑھنے والوں کو آسانی رہے۔
کالم نگار :محمد عظیم گھمن سابق کپتان پاکستان انڈر 19 ورلڈ کپ 2010