کرک اگین خصوصی تحریر۔پی ایس ایل 10 میں محمد رضوان کے بعد بابر اعظم کا بھی افسوسناک اختتام۔ملتان سلطانز جو 4 باسے فائنلسٹ تھی،اس کا انجام برا ہوا۔پشاور زلمی کا بھی،اس لئے کہ اسے جیتے بھی وقت ہوا،ھیران کن اتفاق دیکھیں کہ ایک ٹیم کا کپتان پاکستان کا سابق کپتان تھا اور دوسری ٹیم کا کپتان موجودہ کپتان ہے۔اوپر تلے پاکستان کے کپتان بنے اور اوپر تلے ناکام ہوئے تو اوپر تلے ہی اپنی فرنچائزز کیلئے بھی ناکامی لکھواگئے۔ایسا اتفاق کیسے ہوگیا۔ایک نیشنل کپتان ہو،اچانک ناکام ہوجائے،ایک فرنچائز کا کپتان ہو،وہاں بھی ناکام ہوجائے،ایک قومی کپتان بنایا جائے،وہ بھی ناکام ہو،فرنچائز لیگ میں بطور کپتان 4 سال سے اوپر ہو،اچانک کہانی تمام ہوجائے،کیا یہ 4 اتفاقات ایک ساتھ ہوسکتے ہیں،سوچنے کی بات ہے۔
پشاور زلمی پی ایس ایل تاریخ میں پہلی بار پلے آف میں نہ پہنچ سکی۔ایسا 10 سال میں پہلی بار ہوا
دونوں کی کارکردگی دیکھی جائے تو محمد رضوان اگر اچھے نہیں رہے تو برے بھی نہیں،اس لئے کہ انہوں نے ایک ماہ بطور لیڈنگ سکورر راج کیا،لیکن آج آخری میچ کےساتھ ہی پوزیشن کھوبیٹھے۔اب ہاتھ میں کچھ نہ رہا۔فخرزمان 369 رنزکے ساتھ پہلے نمبر پر ہوگئے ہیں۔محمد رضوان367 رنزکے ساتھ دوسرے اور جیمز ونس 366 رنزکے ساتھ تیسرے نمبر پر ہیں۔بابر اعظم 10 میچز میں 288 رنز کرسکے،یہ پی ایس ایل ہسٹری میں ان کا کم ترین سکور بھی ہے۔
ماجرا کیا ہے
ایک وقت تھا،بڑے قریب کا وقت تھا،دونوں کی جوڑی کی مثال تھی۔کئی سال ایسے گزرے،کامیابی کے ساتھ گزارے۔پھر رضوان نے یہاں تک کہا کہ مجھے کپتانی سے دلچسپی نہیں۔رضوان بہترین کپتان ہیں۔پھر کیا ہوا۔پھر رجیم چینج کا نہ رکنے والا سسلہ شروع ہوا۔پاکستان کرکٹ ملک کی سب سے بڑی کھیل ہے،یہ کھلاڑی اور کھیل کچھ بھی اثر کرسکتے ہیں،جب اوپر کی رجیم چینج کے بعد اس کی باری آئی تو ارباب اختیار کو انداز ہوا،یہاں تو مثالی اتفاق اور اتحاد ہے۔جبری کوشش گلے پڑے گی۔پھر گلے پر کچھ پھیرنے کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ اتفاق اور اتحاد کو گروپ بندی اور گروہ بندی کہدیا گیا۔پھر جو ہوا،آپ کے سامنے ہے۔یہ تو ایک باب تھا۔دوسرا باب نشان عبرت بنانا بھی تھا،اس کیلئے بڑی جدید تیکینیکس استعمال کی گئیں اور فائنل نتیجہ سامنے ہے۔بابر اعظم پر ٹیگ لگ چکا کہ وہ بطور کپتان پاکستان کرکٹ اور پشاور زلمی کیلئے ناکام ہے اور بطور بیٹر پاکستان کرکٹ کیلئے بھی مذاق ہے،یہی انجام محمد رضوان کا ہوا۔
بہت پہلے لکھا تھا کہ جب تک یہ دونوں سچ نہیں بولیں گے،ناکام ہی رہیں گے لیکن سچ بولنا شاید مشکل ہے اور ایسی ناکامیوں کو گلےکا طوق بنانا شاید آسان ہے اور یہ ہورہا ہے اور ہوتا رہے گا۔
پاکستان کرکٹ کی سیاست نئی نہیں ہے۔پاکستان کرکٹ میں واردات بھی نئی نہیں ہے۔انداز بدلا ہے،ماجرا ایک ہی ہے اور اوپر کی سطح تک ایسا ہی ہے۔