| | | | | | | | | | |

یوم دفاع کے ایک دن بعد آج یوم پاکستان کرکٹ،عمران خان پاکستان کا پرچم امرکرگیا،ورلڈچیمپئن ڈے

کرک اگین خصوصی رپورٹ

یوم دفاع کے ایک دن بعد آج یوم پاکستان کرکٹ،عمران خان پاکستان کا پرچم امرکرگیا،ورلڈچیمپئن ڈے۔کرکٹ کی تازہ ترین خبریں یہ ہیں کہ صدی کا بڑا کپتان۔دنیائے کرکٹ کا ممتاز آل رائونڈر،اپنے حریفوں میں ہمیشہ نمایاں رہنے والا۔ذاتی ریکارڈز سے ماورا ملکی مفادات کیلئے ہر پل کھیلنے والا۔پاکستان کرکٹ کے سنہرے عشرے کا سنہری پلیئر۔آئی سی سی ورلڈکپ 1992 جیتنے والا چیمپئن۔عمران خان آج جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے۔پاکستان کے یوم دفاع کے ٹھیک ایک دن بعد پاکستان کا یوم کرکٹ بنانے والا عمران خان پاکستان کو ہسٹری میں پہلی اور اب تک آخری بار ورلڈچیمپئن بنواگیا۔ہواکے جھونکے کی طرح دن آیا۔پاکستان ورلڈچیمپئن بنا اور دنیائے کرکٹ ہمیشہ کیلئے ایک عظیم  آل رائونڈرسے محروم ہوگئی۔عمران خان کا 1971 سے شروع کرکٹ کیریئر 25 مارچ 1992 کو اپنے اختتام کو پہنچا۔

اس بات کو آج ٹھیک32 برس بیت گئے ہیں۔پاکستان نے آج کے روز ہی ورلڈ چیمپئن بننے کا اعزاز اپنے نام کیا تھا۔ورلڈکپ کہانی بن گئی عمران خان کہانی،5ویں ورلڈکپ میں پاکستان چیمپئن،جہلا مائنس کرلیں۔یہاں کچھ عقل مند جمع تفریق میں لگے ہیں۔مائنس ون کی بات کرتے ہیں۔پاکستان کرکٹ بورڈ نے ملکی دیگر اداروں کی طرح گزشتہ  سال عمران خان کو پاکستان کرکٹ سے مئانس کرنے کی کوشش کی جو رائیگاں گئی،ملکی و عالمی سطح پر ایسا بھونچال آیا کہ تھوکا چاٹنا پڑا۔اب ٹیبل کے بنیچے معاہدے تو سیاست کے میدان کے کئے ہوں لیکن فرماں برداری میں اتنے آگے نکل جاتے ہیں کہ عقل ہی نہیں رہتی،اچھے اچھے بے نقاب ہوئے ہیں اور ہورہے ہیں۔جہلا ہیں۔حمقا ہیں۔

 

 

پانچواں عالمی کپ کرکٹ ٹورنامنٹ 1992ء …پاکستان کی تاریخ اس مقام پر سنہرے دور میں داخل ہوتی دکھائی دیتی ہے ، دنیائے کرکٹ پر پاکستان کی بلاشرکت غیر حکمرانی کا یہ زمانہ قابل داد ہی نہیں قابل دید بھی ہے ، ایک ایسی فتح جس کا تصور بھی نہ تھا ، ایسی کامیابی جس کا امکان تک نہ تھا، پانچویں ورلڈ کپ کی کہانی ناقابل یقین جذبوں کی کہانی ہے ، ناقابل بیان کارناموں اور گرانقدر حوصلوں سے عبارت یہ ٹورنامنٹ پاکستان شائقین کے لیے دلوں پر ہمیشہ کے لیے نقش رہے گا ، پاکستانی ٹیم نے 33 دن کا وہ سفر کیسے طے کیا ، ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب کھلاڑی شدید ترین مایوسی کا شکار ہوئے ، پھر ایک وقت ایسا آیا کہ جب کھلاڑی روتے ہوئے دکھائی دئیے ، پھرتاریک سیاہ اندھیروں میں ایک روشنی کی جھلک دکھائی دی کہ جس کی راہ نمائی میں ٹیم نے سفر ایک ایسے وقت میں شروع کیا کہ جب ورلڈ کپ کے منتظمین نے 21مارچ کی کرائسٹ چرچ سے سنگاپور اور پھر سنگاپور سے کراچی کے لیے ٹکٹیں بک کرالی تھیں، لیکن پھر معجزہ ہوا… ناقابل یقین کارنامہ ہوا’’ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا‘‘ ملنے والی کہاوت سچ ثابت ہوگئی، پاکستان چند دن ہی میں تکمیل کو جا پہنچا، عمران خان عالمی چیمپئن بن گیا ، ورلڈ کپ 87ء کی شکست کا غم اترگیا ، پاکستانی عوام جھوم اٹھی اور دنیائے کرکٹ کے افق پر ایک نئے مملک کو عالمی چیمپئن کا جھنڈا لہراتے دیکھا گیا ۔پانچواں ورلڈ کپ کا پٹارہ کھولتے دل ودماغ میں ایک سری کی لہر دوڑ کر رہ گئی ہے، رمضان المبارک کے بابرکت ایام میں سحری کے اوقات میں شروع ہونے والے میچوں کا وہ لطف آج بھی یاد آتا ہے تو رواں رواں نئی لذت سے آشنا ہوجاتا ہے ۔پانچواں عالمی کپ1992 دراصل پاکستان کی طرح دیگر ممالک کے لیے بھی کرکٹ کو عام کرنے اور اسے پروان چڑھانے میں ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا، یہ سال او ریہ کپ … کرکٹ کا نقطہ عروج تھا ، اس کے بعد پھر کوئی ایسا لمحہ نہیں بچتا تھا کہ جس میں کرکٹ اس سے زیادہ چاہی جانے لگتی، آسٹریلیا نے کرکٹ کو جتناColourful اور خوبصورت بنایا او رکوئی ملک یہ کارنامہ سر انجام نہ دے سکا ، ورلڈ کپ سے قبل صرف آسٹریلیا ہی میں بینسن اینڈ ہچز ورلڈ سیریز کپ کے میچ ہوا کرتے تھے ، ج وکہ نائٹ کرکٹ کے ہوتے اور جس میں بال سفید اور وردیاں رنگین ہوتیں، لیکن منتظمین نے پہلی مرتبہ ورلڈ کپ میں بھی یہ فارمولا اپنا کرکٹ کو صحیح معنوں میں حسن بخشا ، کیری پیکر کا مشن بہر حال درست ثابت ہوا ، دنیا نے اسے پسند کیا اور بہت چاہا ، یہی وجہ تو ہے کہ اس کے بعد صرف 6 سال کے اندر اندر ہی کرکٹ کھیلنے والے ہرملک میں نائٹ کرکٹ رنگین یونیفارم میں سفید بال کے ساتھ کھیلی جانے لگی ۔اس کے بعد سے تمام ورلڈ کپ میں یہ رنگینیاں لازمی جزو بنادی گئیں اور برطانیہ جیسے ملک میں جہاں کرکٹ کے قدامت پسند انگریزوں نے کبھی بھی رنگین کرکٹ کو پسند نہیں کیا اور اسے کرکٹ کے اصل حسن کے خلاف قرار دیا ہے وہا ںبھی ساتویں ورلڈ کپ میں یہ تمام رنگینیاں دیکھی گئیں ۔

 

 

پانچویں ورلڈ کپ کرکٹ ٹورنامنٹ کا تذکرہ کرنا آسان امر نہیں ہے ، تاہم پھر بھی حسب سابق اس کا رجسٹر بھی کھول لیتے ہیں ۔پانچواں ورلڈ کپ 33 روز تک آسٹریلیا او رنیوزی لینڈ میں اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ جاری رہا ، 18 مختلف گرائونڈز پر لاکھوں تماشائیوں او رکروڑوں ناظرین کی آنکھوں کو اس نے اپنی دلچسپ رنگینیوں سے خیرہ کیا ، 39 میچ کھیلے گئے ، جس میں سے 36 دن رات کے تھے ، فیلڈنگ پلان تبدیل تھا ، پہلے15 اوورز میں صرف 2 فیلڈر سرکل کے باہر رہ سکتے تھے ۔کرکٹ کے اس عظیم عالمی ایونٹ میں ریکارڈ میچ کھیلے گئے اور پہلی بار 9 ممالک ایکشن میں دکھائی دئیے ، نویں ٹیم جنوبی افریقہ کی تھی ، جس پر عالمی کرکٹ کے دروازے ورلڈ کپ کے قریب مہمان ہوگئے تھے ، پہلی مرتبہ ٹورنامنٹ سنگل رائونڈ کی بنیاد پر کھیلا گیا اور کئی میچ دن رات میں برقی قمقموں کے عکس تلے کھیلے گئے ، بال سفید اور کھلاڑیوں کی یونیفار م ان کے ملکوں کے پرچم کی مناسبت سے رنگین کی گئی ، گویا ورلڈ کپ جو کہ دلچسپ رنگوں میں ہوتا تھا اس بار اس کے کھلاڑیوں کو بھی رنگ دیا گیا ، اس مرتبہ عالمی کپ کے رنگ مختلف دکھائی دیئے ، ٹورنامنٹ میں سنسنی خیر اتار چڑھائو آئے اور ناقابل یقین نتائج دیکھنے کو ملے ، ورلڈ کپ سے قبل آسٹریلیا کی ٹیم فیورٹ قرار دی جارہی تھی ، مگر وہ سیمی فائنل تک بھی نہ پہنچ سکی ، اس طرح نیوزی لینڈ جسے کمزور ٹیم کہا جارہا تھا ، لیگ میچوں میں سب سے زیادہ میچ جیت کر سیمی فائنل میں پہنچی ، تو پھر اسے فائنل کھیلنا بھی نصیب نہ ہوا ، انگلینڈ کی ٹیم نے پورے ٹورنامنٹ میں دلکش پرفارمنس دی اور مجموعی طورپر تیسری بار فائنل میں پہنچنے کے باوجود بھی چیمپئن نہ بن سکی ، جنوبی افریقہ کی ٹیم نے پہلی مرتبہ ورلڈ کپ میں شرکت کی مگر بدقسمتی سے وہ شاندار کارکردگی دکھانے کے باوجود بھی سیمی فائنل میں پٹ گئی اسے کرکٹ نے شکست دیدی ، بارش متنازعہ قانون نے اسے گرفت میں لے لیا، پاکستان کی ٹیم جس کی کارکردگی ابتداء میں اتنی خراب تھی کہ وہ صرف زمبابوے سے پوائنٹ ٹیبل پر اوپر تھی ، اچانک ابھری اور 10 دن سے بھی کم عرصہ میں چیمپئن بن گئی ۔

 

 

اب تک کھیلے گئے تمام ورلڈ کپ ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ دلکشی اور سنسی خیزی دیکھنے کوملی ، خاص طورپر رنگین کٹ ،سفید گیند اور سیاہ سائٹ سکرین نے شائقین کے دل موہ لیے ، ورلڈ کپ میں ڈے اینڈ نائٹ میچ کرانے کا سہرا بھی آسٹریلیا کو جاتا ہے ، جس نے برقی قمقموں کی روشنی میں میچز کروانے کی ریت ڈالی ، مجموعی طورپر یہ ٹورنامنٹ بے حد کامیاب ثابت ہوا ، ان میچز کی ٹی وی کوریج وسیع پیمانے پر ہوئی ، دنیا میں کرکٹ کھیلنے والے سب ہی ممالک میں ان میچزکو دکھانے کے انتظامات کیے گئے ، فائنل میچ میں شائقین کی تعداد 8 لاکھ 70 ہزار 182 تھی جو کہ ایک ریکارڈ ہے ، یہ میچ 29 ممالک میں براہ راست دکھایا گیا ، آج تک کسی میچ کو اتنی کوریج نہ ملی ، اس ورلڈ کپ کے لیے جو قوانین ترتیب دیئے گئے اس کو خاصی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ، خاص طورپر بارش کا قانون اس ٹورنامنٹ کا سب سے بے کار قانون تھا، جنوبی افریقہ کی ٹیم سیمی فائنل میں اسی بوگس قانون کا شکار ہوئی ، سیمی فائنل میں اسے 13 گیندوں پر 22 رنز درکار تھے ،پھر بارش ہوگئی ،بعد میں اسے ایک گیند پر 21 سکور کرنا تھا، اس قانون کے تحت اگر ایک ٹیم نے بیٹنگ کی اور 50 اوورز کھیلے تو جب دوسری ٹیم کی باری آئی تو بارش ہوگئی اور اوور کم کرنے پڑے ،تو اگر فرض کریں 25 اوورز ان کے حصے میں آئے تو ان 25اوورز کے لیے ٹارگٹ وہ سکور نہیں ہوگا جو مخالف ٹیم نے پہلے 25 اوورز میں بنایا تھا بلکہ وہ پہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیم کے بیسٹ سکورنگ اوورز کے برابر ہوگا ، اس ٹورنامنٹ کی کوریج کے لیے پوری دنیا سے 500 سے زائد صحافی اور فوٹو گرافرز آسٹریلیا او رنیوزی لینڈ پہنچے ۔

پانچویں ورلڈ کپ میں 39 میچوں میں 3412.1 اوورز میں 514وکٹوں کے نقصان پر 15107 رنز بنائے گئے ، پہلی سنچری مارٹن کرونے آسٹریلیا کے خلاف بنائی ، پہلی نصف سنچری ردر فورڈ نے آسٹریلیا کے خلاف سکور کی، بہترین انفرادی اننگز کا اعزاز رمیزراجہ کو 119 ناٹ رنز کے ساتھ نیوزی لینڈ کے خلاف حاصل ہوا ، بہترین انفرادی بائولنگ جنوبی افریقہ کے پرنگل نے ویسٹ انڈیز کے خلاف 4/11کے ساتھ دکھائی ، کیپل ویسلز 7کیچز کے ساتھ فیلڈر ز میں او ر جنوبی افریقہ کے ڈیوڈ رچرڈسن 15شکار کے ساتھ وکٹ کپیننگ میں آگے رہے ،نیوزی لینڈ کے مارٹن کرو 456 رنز کے ساتھ بلے بازوں میں اور پاکستان کے وسیم اکرم 18 وکٹوں کے ساتھ بائولرز میں نمایاں رہے ، ٹورنامنٹ میں 8 سنچریاں اور 84 نصف سنچریاں بنیں،بون اور رمیز 2،2 سنچریاں کرکے آگے رہے ، جب کہ 5 نصف سنچریوں کے ساتھ جاوید میاں داد چھائے رہے ، مارٹن کرو ٹورنامنٹ کا بہترین پلیئر قرار دیا گیا ، 23فروری کو سری لنکا اور زمبابوے کا میچ اس اعتبار سے اہمیت اختیار کرگیا کہ زمبابوے نے 312 رنز کے بنائے ، سری لنکا نے دوسری اننگز میں یہ ریکارڈ سکور عبور کرکے ورلڈ کپ کی نئی تاریخ رقم کی ، یکم مارچ کو آسٹریلیا نے ایک بارپھر بھارت کو محض 1 رنز سے شکست دی اور تیسرے میچ میں پہلی فتح حاصل کی ، بھارت یہ میچ اپنی غلطیوں سے ہارا ۔
اسی تاریخ کو پاکستان انگلینڈ کے خلاف ایڈیلیڈ میں ورلڈ کپ اور اپنی تاریخ کے کم سکور 74پر آئوٹ ہوا ،بارش نے پاکستان کو یقینی شکست سے بچالیا ،18 مارچ کو ویلنگٹن میں زمبابوے نے ٹورنامنٹ کی بہترین ٹیم انگلینڈ کو 9رنز سے ہراکر اپ سیٹ فتح حاصل کی ، زمبابوے کے 134 رنز انگلینڈ پر بھاری پڑگئے ،18 مارچ کو ایم سی بی میں آسٹریلیا نے ویسٹ انڈیز کو ہراکر پاکستان کے سیمی فائنل کھیلنے کی راہ ہموار کی ، اگر ویسٹ انڈیز جیت جاتا تو وہ 10 پوائنٹس کے ساتھ سیمی فائنل کھیلتا اور پاکستان باہر ہوجاتا ،21 مارچ کو آکلینڈ میں انضمام الحق کی لازوال کارکردگی کی بدولت پاکستان نیوزی لینڈ کو ہراکر فائنل میں پہنچ گیا ، پاکستان ورلڈ کپ کا چوتھا سیمی فائنل کھیل رہا اور اس مرتبہ فائنل میں کوالیفائی کیا تھا ،22 مارچ کو سڈنی میں جنوبی افریقہ ،انگلینڈ سے نہیں بلکہ بارش سے ہارکر باہر ہوا ، 253رنز کے تعاقب میں اسے فتح کے لیے آخری 13 گیندوں پر 22 رنز درکا رتھے کہ بارش آگئی ، 12 منٹ کی بارش کے بعد یہ ٹارگٹ 1 بال پر 22 رنز ہوگیا جو کہ ناممکن تھا ۔

 

 

  اور 25مارچ 1992 کو ورلڈ کپ کا فائنل ایم سی جی میلبورن کرکٹ گرائونڈ میں تیسری مرتبہ فائنل کھیلنے والی انگلینڈ اور پہلی مرتبہ فائنل میں پہنچنے والی ٹیم کے درمیان تھا، عمران خان نے ٹاس جیتا اور بارش سے متعلقہ قانون سے ڈرتے ہوئے پہلے کھیلنے کا فیصلہ کیا ، پاکستان کے دونوں اوپنرز عامر سہیل اور رمیز راجہ 22 رنز پر ہی پویلین سدھارگئے ، اس نازک ترین موقع پر سیمی فائنل کے ہیرو جاویدمیانداد اور کپتان عمران خان نے دھیرے دھیرے اپنی ٹیم کی اننگ آگے بڑھانا شروع کی ، وکٹوں کے جلد گرجانے کی بناء پر پاکستان کی بیٹنگ سست رہی ، پاکستان کے 100رنز 31ویں اوور میں بنے ، مگر اس کے بعد عمران خان اور جاوید میانداد اپنے ہاتھ اوپن کردئیے اور انگلش بائولروں کو آڑے ہاتھوں لیا ، اس سے قبل 29ویں اوور میں جاوید نے ڈی فریٹس کو کٹ کرکے تھرڈ مین پر چوکا لگاکر عالمی کپ میں اپنے1000رنز مکمل کرلیے ،33 ویں اوور میں جاوید کے پاس ایک اور اعزاز آیا اور وہ تھا ایم سی جی میں 500رنز بنانے کا ، میانداد 58رنز بناکر آئوٹ ہوئے ،تو اس وقت پاکستان قدرے بہتر پوزیشن میں تھا ، اور پھر سیمی فائنل کے دیوقامت ہیرو انضمام الحق نے آکر رہی سہی کسر پوری کردی ، جب کہ دوسری جانب عمران خان بھی 72 رنز بناکر آئوٹ ہوگئے، اس کے بعد وسیم اکرم اور انضمام الحق نے اپنے بلوں سے رنز اگلنے شروع کردئیے ،اور پاکستان کا مجموعہ 50 اوورز میں 249/6تک پہنچادیا ، انضمام الحق نے 42 رنز 35 گیندوں پر اور وسیم اکرم نے18 گیندوں پر33رنز بنائے ، انگلینڈ کی جانب سے پرنگل نے نپی تلی بائولنگ کی اور22 رنز کے عوض 3 وکٹیں حاصل کیں ۔
پاکستان نے فیلڈنگ کا آغاز کیا تو ایم سی جی روشنیوں سے سجا ہوا تھا ، اور گرمی کی شدت30 ڈگری پر تھی ، وسیم اکرم اور عاقب جاوید نے ابتدائی کھلاڑیوں کو جلد ہی ٹھکانہ لگادیا ، بعد ازاں مشتاق نے بھی ایک دھچکا لگایا ، 69رنز پر انگلینڈ کی 4 بہترین وکٹیں گوچ29 ، بوتھم 0 ، سٹیوارٹ7 اور ہک 17 رنز بناکر آئوٹ ہوگئے تھے ، اس موقع پر فیئر برادر اور لیمب نے شدید مزاحمت کی ، مگر وسیم اکرم کے آگے ایک بھی نہ چلی ، اور پوری ٹیم 49.2 اوورز میں 227 رنز پر آئوٹ ہوکر یہ میچ 22 رنز سے ہار گئی ۔فیئر برادر نے 62 اور لیمب نے31 رنز بنائے ، وسیم اکرم نے3،مشتاق نے3 ،عاقب نے 2 اور عمران نے 1 وکٹ حاصل کی ۔ورلڈ کپ کا یہ فائنل پاکستان نے جارحانہ انداز سے جیتا ، پاکستان کی اس فتح کے ساتھ ورلڈ کپ کی دو روایات بھی برقرار رہیں ایک یہ کہ ورلڈ کپ فائنل میں پہلے کھیلنے والی ٹیم کے فاتح بننے کی اور دوسرا یہ کہ میزبان ملک کے عالمی کپ نہ جیتنے کی ۔نتیجہ : پاکستان 22رنز سے جیت گیا مین آف دی میچ :وسیم اکرم 33 + 3/49

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *