عاقب جاوید عظیم ہی نہیں عظیم تر،ورلڈکپ 92 کی جیت کی نئی توجیہ پیش کردی۔کرکٹ کی تازہ ترین خبریں یہ ہیں کہ پاکستان کرکٹ کی تاریخ کے لئے آج 25 مارچ کا دن اہم نوعیت کا حامل ہے۔33 برس قبل 1992 کو پاکستان نے عمران خان کی کپتانی میں انگلینڈ کو فائنل میں ہراکر ایم سی جی میں ہرادیا تھا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے آفیشل پیجز سے ٹیم کی فتح کی ایک تصویر شیئر کی گئی لیکن عمران خان کا بطور کپتان تک ذکر نہیں کیا گیا،اسی پی سی بی نے آج کے دن کی مناسبت سے عاقب جاوید کا تازہ انٹرویو شیئر کیا۔اتفاق سے عاقب جاوید اس وقت پاکستان کے چیف سلیکٹرجمع عبوری ہیڈ کوچ ہیں اور اتفاق سے وہ ورلڈکپ 1992 کی فاتح سائیڈ کے رکن تھے۔
اب عاقب جاوید چونکہ پی سی بی کے اہم ملازم ہیں اور عمران خان کے حوالہ سے انہوں نے بخل کا مطاہرہ کیا ہے۔کہتے ہیں کہ بہت پرانی بات ہوگئی لیکن اب بھی یاد آتی ہے تو حیرانگی ہے،بڑی جیت ہے،ہمیں تو اپنی جیت پر یقین نہیں آرہا تھا،پھر بھی نہیں علم تھا کہ کیا ہوگیا ہے،جب پاکستان آئے تو علم ہوا کہ ہم کیا کرکے آئے،پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں لوگوں نے بڑا استقبال کیا،ایسی خوشیاں آج بھی تازہ ہیں۔
عاقب جاوید نے کہا ہے کہ کوئی ایک پلیئر نہیں ملے گا کہ جس پر آپ کہیں گے کہ یہ پورا ٹورنامنٹ اس کیلئے کمال ہوا ہے یا اس پر پاکستان جیتا ہے۔چاہے وسیم اکرم ہیں،چاہے جاوید میاں داد ہے،انضمام الحق ہے،عامر سہیل ہے کوئی ایک باکمال نہیں لگے گا۔وسیم اکرم فائنل کے ہیرو لیکن شروع سے اچھے نہیں جارہے تھے۔انضمام الحق آدھا ایونٹ ناکام گئے۔پھر سیمی فائنل میں کلک کیا۔کپتان عمران خان کو دیکھیں کہ ان کی انجری چل رہی تھی،بائولنگ نہیں کررہے تھےجیسا کہ کرتے،یہ حالات جاوید میاں داد کے تھے تو ٹیم بٹز اینڈ پیسز پر چل رہی تھی۔اسی لئے ایک ٹیم کے اندر اور باہر یہی بات ذہن میں آرہی تھی کہ یہ ٹیم جیتے لیکن رائٹ ٹائم پر ٹیم کا کلک کرنا وجہ بنا۔کئی ٹیموں کا اچھا آغاز ہوتا لیکن ہارجاتے،جیسے نیوزی لینڈ۔آسٹریلیا کے خلاف میچ سے ٹیم میں جان آئی،کپتان نے بھی ہمیں یہی بات کہی کہ اب جیتنا ضروری ہوگا،جیسے سارے میچز جیتے۔سیمی فائنل میں مجھے مارک گریٹ بیچ سے بڑا چھکا لگا،سوچتا جارہا کہ اگلی بال کیا کروائوں۔آک لینڈ کا میدان تکون سا ہے۔مجھے بائونسر،یارکر کیا کروں۔میں نے بال پکڑا۔کوئی پلان نہیں تھا،آدھے راستے ذہن میں آیا کہ سلو بال کردوں۔وہ ہوگئی،وہ بولڈ ہوگیا،میرے لئے یہ نیا بال تھا۔مجھے خود نہیں علم تھا۔
عاقب جاوید کی بد دیانتی۔ملازمت یا جی حضوری
عاب جاوید نے وسیم اکرم کے حوالہ سے لایعنی باتیں کی ہیں۔ پورے ایونٹ میں جاوید میاں داد کو نظر انداز کرکے ظلم کیا ہے۔نیوزی لینڈ جو پورے ایونٹ میں ہوا بنا تھا۔پاکستان سے گروپ میچ اور پھر سیمی فائنل ہارا،8 میچز جیتا تھا،اس کے کپتان مارٹن کرو ہر میچ میں ماررہے تھے۔114 کی اوسط،1 سنچری،4 ففٹیز۔456 رنز لیکن ان کے ساتھ ہی جاوید میاں داد ایک ٹیم کیلئے کیا کررہے تھے،456 سے صرف 19 رنز کم437 رنزبنائے۔68 سے زائد کی اوسط۔5 ففٹیز۔رمیز راجہ کے 58 کی اوسط سے 349 رنز اور 2 سنچریاں۔عامر سہیل کے 326 رنز،یہ سب نمایاں ٹاپ ٹیم میں تھے۔سیمی فائنل میں جاوید میاں داد،انضمام کی اننگز نکال دیں تو کیا پاکستان فائنل کھیل پاتا۔فائنل سے عمران خان اور جاوید میاں داد کی اننگز نکالیں تو کیا پاکستان جیت پاتا۔اسی طرح بائولنگ کو دیکھیں۔وسیم اکرم تمام ٹیموں میں 18 وکٹوں کے ساتھ پہلے اور مشتاق احمد 16 کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے،کیا یہ کسی ایک میچ یا 3 میچز کی وجہ سے تھا۔خود عاقب جاوید کی صرف 11 وکٹیں 10 میچز میں تھیں۔اوسط درجہ کی یہ پرفارمنس بنتی ہے لیکن اپنا ذکر خاص کیا،مشتاق احمد کا نام تک نہیں لیا۔کیا ہے یہ سب۔آپ ہاررہے تھے،آپ کو جیت کا یقین نہیں تھا تو یہ یقین کس نے دلوایا،کس نے یکسو کیا،کس نے جمع کیا۔اس کا ذکر تک بھی نہیں۔عمران خان اس سے پہلے بھی بائولنگ پراپر نہیں کررہے تھے۔وہ بطور کپتان اور بیٹر یا آل رائونڈر تھے،جن کا 1988 سے 1992 تک بیٹنگ اوسط 58 کے قریب رہتا تھا۔