کرک اگین خصوصی رپورٹ۔بابر اعظم اور محمد رضوان مکمل سچ کے ساتھ ریٹائرڈ ہونے والے؟انتظار کیسا۔کرکٹ کی تازہ ترین خبریں یہ ہیں کہ
پاکستان کرکٹ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ نیا نہیں ہے۔ پہلی بار نہیں ہے۔ اور ایسا بار بار ہوا ہے۔ نئے لوگوں کو شاید حیرت ہو۔ پرانے لوگوں کو کم سے کم حیرت زدہ نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ممکن ہو تو درست انداز میں تصویر کشی کرنی چاہیے ۔میں نے یہاں پر بہت عرصہ پہلے لکھا تھا کہ جب تک بابراعظم اور محمد رضوان سچ نہیں بولیں گے ۔بری طرح ناکام ہوں گے اور عبرت کا نشان بنیں گے لیکن شاید ان کو مشکل لگا ۔شاید سچ بولنا مشکل ۔ایسی ناکامیوں کو گلے کا طوق بنانا شاید آسان ہے اور یہ ہو رہا ہے۔ ہوتا رہے گا۔
پاکستان کرکٹ کی سیاست نئی نہیں ہے۔ واردات بھی نئی نہیں ہے۔ انداز تھوڑا تبدیل ہے۔ ماجرا ایک ہی ہے اور اوپر کی سطح تک شاید ایسا ہی ہے۔ رمیز راجہ کبھی کبھی سچ بولتے ہیں لیکن وہ بھی آدھا سچ بولتے ہیں۔ وسیم اکرم بھی اس طرح کی بات کرتے ہیں۔ اب یہ لوگ اگر ایمانداری سے بتائیں اور پورا تجزیہ کریں اس ساری صورتحال کا ،تو کتنا آسان ہوگا ۔محمد رضوان کو جب کپتان بنایا گیا تو ساتھ میں سلمان علی آغا کو یہ کہہ کر لگایا گیا کہ یہ ان کے ڈپٹی ہوں گے۔ نائب ہوں گے۔ کہیں ورک لوڈ ہوتا ہے ۔کہیں کوئی پرابلم ہوتی ہے تو یہ محمد رضوان کی عدم موجودگی میں کپتانی کریں گے لیکن ان کے ساتھ رہتے ہوئے کپتانی سیکھیں گے اور اس کے بعد پھر کیا ہوا ۔محمد رضوان مختصر سیریز میں کپتانی کرتے نظر آئے، جہاں کمزور حریف سامنے آیا ۔وہاں رضوان کو ڈراپ کیا گیا۔ سلمان علی آغا کو تیار کیا گیا اور چند ماہ کے اندر کپتان محمد رضوان جو کپتان تھے اصل میں کپتان تھے ۔ وہ اب اسکواڈ سے بھی باہر کر دیے گئے۔ یہ ہوتا ہے طریقہ۔ اس کو سمجھیں۔ پاکستان کرکٹ کی پرانی باتیں ہم کیا کریں ،بس اس وقت کی بات کرتے ہیں جب یہ ماجرا شروع ہوا اور یہ ماجرا شروع ہوا جب پاکستان کے ایوانوں کی تبدیلی ہوئی اس کے بعد یہاں کرکٹ کے میدانوں میں بھی تبدیلی اس لیے ضروری سمجھی گئی کہ یہاں بڑا اتفاق اتحاد نظر آیا اور اس زمانے میں کچھ س
کرکٹرز کچھ ایسے لوگوں کو ملے کہ جہاں سے سفارشات کرا کے وہ ٹیم میں آ سکیں ان کی سفارشات بابرعظم اینڈ کمپنی نہیں مانے تو شاید انہوں نے بھی اسے عزت کا مسئلہ بنایا اور آج جب وہ پاور میں ہیں تو وہ بتا رہے ہیں کہ کل تم کپتان تھے۔ آج تم ٹیم میں بھی نہیں ہو ۔یہ ہے وہ کہانی ۔اس کہانی کا ایک سرا 2022 سے شروع ہوتا ہے۔ جب نجم سیٹھی ،ذکا اشرف آئے۔ اوپر تلے اور اوپر تلے تبدیلیاں ہوئیں تو وہاں پہ کپتان کی تبدیلی کی کوشش کی گئی۔ پہلی کوشش ناکام ہوئی۔کسی نے کہا کہ یہ ہماری ریڈ لائن ہے۔ یہ جملہ کسی کو پسند نہیں آیا تو جس نے کہا اور جس کے بارے میں کہا وہ سب نشان عبرت بنائے گئے۔ بار بار کپتانی ڈالی گئی، پھر کپتانی اچھی نہیں گئی اور انہیں ڈسٹرب کیا گیا اور پھر ان کا اعتماد چھینا گیا اور پھر انہیں یہ دکھایا گیا کہ ہم تمہارے ساتھ نہیں ہیں جو کرنا ہے کر لو ۔نتیجے میں آج پاکستان کی کرکٹ ٹیم پارہ پارہ ہے۔ سینیئرز کے بغیر ہے اور جو سینیئرز ہیں ان کی کوئی عزت نہیں۔ اب محمد رضوان کو آپ لے لیں، وہ ٹی ٹونٹی کرکٹ کے ایک بہترین کھلاڑی ہیں اور ان کا سٹرائیک ریٹ بھی اچھا ہے۔ ان کی رن اوسط بھی اچھی ہے تو دو سال قبل تک وہ ٹاپر میں تھے سالانہ کلینڈر میں وہ ٹاپ سکورر ہوا کرتے تھے لیکن اب ان کے ساتھ جو ہوا وہ آپ کے سامنے ہے۔ محمد رضوان سے پہلے بابراعظم کی کپتانی جس طرح لی گئی پھر انہیں واپس دی گئی پھر لی گئی رضوان کو جیسے کپتان بنایا گیا جز وقتی، پھر پہلے کل وقتی۔ پھر جز وقتی اور پھر ٹیم سے بھی ڈراپ اور اب آج جب ایشیا کپ کے لیے پاکستان سکواڈ کا اعلان ہوتا ہے تو ایک اوسط درجے کا پلیئر آ کے یہی بتاتا ہے کہ جناب یہ کھلاڑی فارم میں نہیں اور یہ اب ہماری سلیکشن میں نہیں ۔ آپ اندازا کریں کہ ایشیا کپ جیسا بڑا میگا ایونٹ ہے اور اس کے بعد ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ ہے اور پاکستان کے سینیئر کھلاڑی باہر کر دیے گئے ہیں اور جن کی سفارش کی گئی تھی ان کے دو نام آپ اپنے ذہنوں میں یاد کریں وہ اج ٹیم میں کھیل رہے ہیں اور ان کی سفارش بیرون ملک سے تھی۔ یہ تو کرکٹ کا حال ہے اس سے اوپر کے ایوانوں میں چلے جائیں وہاں بھی عجیب و غریب کہانی ہے۔ جب ہم کرکٹ سے جڑی شخصیات کی کھلے عام تذلیل کریں گے تو پھر جب ہمارا یوم آزادی ہوگا تو ٹیم 92 پر ہی آؤٹ ہوا کرے گی۔ تاریخ، وقت، حالات ،واقعات، حادثات ہر اہم موقع پر ہمیں یاد دہانی کراتے ہیں کہ رکیں، مڑیں، سوچیں۔ تمہارے ساتھ یہ اگر ہو رہا ہے کیوں ہو رہا ہے ۔اپنا قبلہ درست کریں، لیکن ہم ہیں کہ سمجھنا نہیں چاہتے۔ سیکھنا نہیں چاہتے اور اگر سمجھ جائیں تو بولنا نہیں چاہتے اب اگر کہیں کسی کے پاس بولنے اور لکھنے کا حق ہے تو وہ اپنی مرضی سے لکھ نہیں پاتا۔
اگر کوئی لکھ رہا ہے تو وہ کہہ رہا ہے کہ بس سچ چھوڑ دیں۔ معافی کی طرف چلے جائیں۔ آب بتائیں۔ یہ بھی کوئی بات ہے اور بابرعظم اور رضوان کو دیکھ لیں۔ اپنے آپ کو اب اگر وہ مستقل ٹی 20 کرکٹ سے باہر ہیں۔ اب وہ پاکستان کے لیے ون ڈے کرکٹ اور ٹیسٹ کرکٹ کھیلیں گے۔ ون ڈے کرکٹ کی کیا اہمیت باقی بچی ہے۔ سال میں کتنی ہوتی ہے اور ٹیسٹ انگلی پر گنے جا سکتے ہیں تو کیا ان کا کیریئر اب کتنا باقی ہے اگر ہے تو وہ کیا نظر ائیں گے تو اس سے بہتر یہ نہیں آج سچ بول کر تھوڑا وقت سائیڈ پر ہو جائیں۔ کل کیریئر بھی بچ جائے گا اور عزت بھی۔
ایک وقت تھا،بڑے قریب کا وقت تھا،دونوں کی جوڑی کی مثال تھی۔کئی سال ایسے گزرے،کامیابی کے ساتھ گزارے۔پھر رضوان نے یہاں تک کہا کہ مجھے کپتانی سے دلچسپی نہیں۔بابر بہترین کپتان ہیں۔پھر کیا ہوا۔پھر رجیم چینج کا نہ رکنے والا سسلہ شروع ہوا۔پاکستان کرکٹ ملک کی سب سے بڑی کھیل ہے،یہ کھلاڑی اور کھیل کچھ بھی اثر کرسکتے ہیں،جب اوپر کی رجیم چینج کے بعد اس کی باری آئی تو ارباب اختیار کو انداز ہوا،یہاں تو مثالی اتفاق اور اتحاد ہے۔جبری کوشش گلے پڑے گی۔پھر گلے پر کچھ پھیرنے کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ اتفاق اور اتحاد کو گروپ بندی اور گروہ بندی کہدیا گیا۔پھر جو ہوا،آپ کے سامنے ہے۔یہ تو ایک باب تھا۔دوسرا باب نشان عبرت بنانا بھی تھا،اس کیلئے بڑی جدید تیکینیکس استعمال کی گئیں اور فائنل نتیجہ سامنے ہے۔بابر اعظم پر ٹیگ لگ چکا کہ وہ بطور کپتان پاکستان کرکٹ اور پشاور زلمی کیلئے ناکام ہے اور بطور بیٹر پاکستان کرکٹ کیلئے بھی مذاق ہے،یہی انجام محمد رضوان کا ہوا۔
بہت پہلے لکھا تھا کہ جب تک یہ دونوں سچ نہیں بولیں گے،ناکام ہی رہیں گے لیکن سچ بولنا شاید مشکل ہے اور ایسی ناکامیوں کو گلےکا طوق بنانا شاید آسان ہے اور یہ ہورہا ہے اور ہوتا رہے گا۔پاکستان کرکٹ کی سیاست نئی نہیں ہے۔پاکستان کرکٹ میں واردات بھی نئی نہیں ہے۔انداز بدلا ہے،ماجرا ایک ہی ہے اور اوپر کی سطح تک ایسا ہی ہے۔
پاکستان کرکٹ کپتان کی تبدیلی در تبدیلی۔یہ بھی ایک کھیل تھا۔بابر اعظم سے شاہین اور شان۔پھر شاہین سے بابر اعظم لیکن انتہائی بھونڈے انداز میں۔شاہین کا رد عمل،پی سی بی سے انکا جھوٹا بیان،چیئرمین کی فوری ملاقات،ظاہری مٹی پائو پالیس۔سب ٹھیک ہے کا نعرہ لیکن وہی کہانی جو 1996،1999 اور 2003 میں تھی۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ پرانا سکرپٹ تھا۔2024 میں چلایا گیا۔ایسا لگتا ہے کہ جہاں سے پاکستان کرکٹ کی ڈوریں ہلائی جاتی ہیں،وہاں سے پری پلان پاکستان ٹیم کی اندرونی شکست رویخت کا عمل مکمل کیا گیا ہے اور یہ کروایا گیا ہے۔کرکٹ کور کرتے،دیکھتے چوتھائی صدی بیت گئی۔کرک اگین نے ٹی 20 ورلڈکپ آغاز سے کئی روز قبل لکھا تھا کہ پاکستان ٹی 20 ورلڈکپ گروپ اے سے باہر نکل سکتا ہے اور اس کا خطرہ زیادہ ہے۔یہ تمام باتیں اور 25 سالہ ماضی کی 36 مشابہتیں یہی یاد کروارہی تھیں کہ ایسا ہی ہونے لگا ہے۔
مکمل سچ کا پوسٹ مارٹم کب ہوگا۔محسن نقوی کو بطور چیئرمین پی سی بی لانے والے کون تھے،ان سے قبل ذکا اشرف کی آنیاں جانیاں کیسے ہوئیں۔نجم سیٹھی کا پلان کیا تھا۔اس پر کوئی نہیں بولے گا۔ان کی پالیسیاں دیکھیں تو صاف لگا کہ یہ مبینہ طور پر ایجنڈاز کی تکمیل کیلئے لائے گئے تھے۔ایک نے کچھ کام کیا،دوسرے نے آدھا کیا۔تیسرے نے ایسے ہی مکمل کیا،جیسے دیگر شعبوں میں اس نے اپنے کام مکمل کئے تھے۔فیصلے ان کے تھے اور ہیں۔پالیسی انکی تھی اور ہیں۔ذمہ داری بھی صرف ان کی بنتی ہے،ورنہ گزشتہ ٹی 20 ورلڈکپ کی فائنسلٹ ٹیم کے ساتھ یہ سلوک نہیں کیا جاتا،یہ طرز عمل اختیار نہیں کیا جاتا۔جب اس پورے ملک میں کرکٹ کھیلنے والے،لکھنے والے،کرکٹ چلانے والے اور کرکٹ پر بولنے والے اسی کھیل کے کسی بڑے بنیادی کھلاڑی بلکہ لیجنڈری ہیرو کی کھلے عام ناجائز تذلیل ہوتے دیکھیں،اس پر ایک لفظ تک نہ بولیں کہ نوکری جائے گی۔ناراضگی ہوگی اور سٹیٹس کو جھٹکالگے گا،اس ملک میں کھیلنے والے حاضر سروس کھلاڑی کبھی عزت بچانہیں سکیں گے اور اس کے لئے دوا کرنے والے کبھی سچ بول نہیں سکیں گے۔
