فلوریڈا،کرک اگین رپورٹ
گیری کرسٹن کا آدھا سچ،پاکستان ٹیم کی تباہی کا پورا سچ جانیئے،ذرا نہیں مکمل سوچیئے۔کرکٹ کی تازہ ترین خبریں یہ ہیں کہ وہ کرکٹ تجزیہ کار جو من چاہا سچ بولتے ہیں اور لکھتے ہیں۔وہ کرکٹ مبصرین جو اپنی اپنی پسند کے تعاقب میں ہوا کرتے ہیں اور وہ کرکٹ کوریج کرنے والے لوگ جو ڈیلی بنیادوں پر اپنی رپورٹس سورج کی چال دیکھ کر کیا کرتے ہیں۔ان میں سے کسی کو حق نہیں ہے کہ وہ آج پاکستان کرکٹ ٹیم،پاکستان کی ٹی 20 ورلڈکپ ناکامی پر کچھ بولیں،لکھیں یا نیا ڈیزائن کردہ پلان پروموٹ کریں۔
کرک اگین نے سادہ سے انداز میں پی سی بی کے سابق چیئرمین رمیز راجہ سے جاننا چاہا ہے کہ وہ کیا کہتے ہیں،فلوریڈا میں کمنٹری کیلئے موجود رمیز راجہ نے بھی جو کہا،حاصل حصول یہی تھا کہ ایجنڈاز نے مار ڈالا۔وسیم اکرم آدھا سچ بولتے ہیں۔جب سپر اسٹار کا یہ عالم ہے تو رپورٹنگ اور تجزیہ نگاروں کی کیا سوچ ہوگی۔ایمانداری سے بتائیں جب آئی سی سی جیسے ایونٹس کیلئے ویزا اور ایکریڈیشن پالیسی پی سی بی سے مشروط ہو،تو ٹیم کے قریب جانے والے رپورٹرز بھی کیا نیوز نکالیں گے۔
ایسے میں پاکستان کرکٹ سے جڑے،جمعہ جمعہ 8 دن کے ہیڈ کوچ گیری کرسٹن سچ بول گئے۔ویسا سچ جیسا کسی زمانہ میں محمد حفیظ نے بھی بولا تھا لیکن وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کو پسند نہیں آیا تھا،گھر بھیج دیئے گئے۔اب گیری کرسٹن نے بھی اپنی جانب سے پورا سچ ہی بولا ہے لیکن انہیں گھر نہیں بھیجا جائے گا،اس لئے کہ پی سی بی کو معلوم ہے کہ گیری کرسٹن کو اتنا ہی علم ہے جتنا انہوں نے نے دیکھا یا دکھایا گیا،پی سی بی کیلئے ایشو نہیں،سب چلے گا۔
نجی چینل کی رپورٹ کے مطابق گیری کرسٹن کھلاڑیوں پر برس پڑے۔سکلز،شاٹ سلیکشن،اپروچ زیرو قرار دے دی،ساتھ میں کھلاڑیوں کے گروہ،گروپ بندی،سیاست اور لڑائی،بول چال بند،ایک دوسرے کو بیک نہ کرنے کے الزامات بھی عائد کئے ہیں۔سب سچ ہونگے۔85 فیصد سچ ہی ہیں ،تو اس سے کیا ہوگا۔ایک اور ایجنڈا مکمل ہوگا۔ایک اور ایجنڈے کی تکمیل ہوگی۔وہ کیسے ۔اسے سمجھنے کیلئے ذرا آزادی کے ساتھ گزشتہ ماہ وایام پرنظر دوڑانی ہوگی۔
پی سی بی چیئرمین کی سیٹ کا میوزیکل گیم،کسی نے تسلسل کے ساتھ اس پر انگلی اٹھائی۔حفیظ ہوں یا گیری کرسٹن۔کسی نے یہ نہیں کہا کہ یہ کیا ڈرامہ ہے کہ 24 ماہ میں 6 چیئرمین پی سی بی آگئے،اپنی ٹیم،اپنی مرضی اور اپنی پالیسی۔ٹیم پر اثرات تو پڑنے تھے۔کسی نےا سے بنیادی وجہ اورفساد کی جڑ قرار نہیں دیا۔سوال ہے کہ ہے کرکٹ مبصریں کی اکثریت بھی اس پر کم کیوں بولتی ہے۔
پاکستان کرکٹ کپتان کی تبدیلی در تبدیلی۔یہ بھی ایک کھیل تھا۔بابر اعظم سے شاہین اور شان۔پھر شاہین سے بابر اعظم لیکن انتہائی بھونڈے انداز میں۔شاہین کا رد عمل،پی سی بی سے انکا جھوٹا بیان،چیئرمین کی فوری ملاقات،ظاہری مٹی پائو پالیس۔سب ٹھیک ہے کا نعرہ لیکن وہی کہانی جو 1996،1999 اور 2003 میں تھی۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ پرانا سکرپٹ تھا۔2024 میں چلایا گیا۔
وہاب ریاض کیسے کریکٹر۔یہ ایسے لوگ ہوا کرتے ہیں،جنہوں نے کام سنوارنا نہیں،بڑھانا ہوتا ہے۔
ریٹائرڈ پلیئرز کی واپسی۔ایسے کپتان اور سیٹ اپ میں کہ جہاں اختلافات ایک رات میں ختم نہیں ہونے تھے۔
سات رکن سلیکشن کمیٹی۔یہ ایسا بھانت مندی کا کنبہ تھا،جس نے سب کی چولیں ہلادیں۔
ایسے میں چنگاری لگانے،اسے سلگنے کیلئے پٹرول ڈالنے والے کریکٹر بھی آخر تک ساتھ رہے اور ٹیم ہار گئی۔بار بار ہاری لیکن سب ٹھیک ہے کی باتیں کی گئیں۔سرجری کے فوری بیانات بھی ایسے لگے جیسے چلتے سکرپٹ کا حصہ تھے۔
ایسا لگتا ہے کہ جہاں سے پاکستان کرکٹ کی ڈوریں ہلائی جاتی ہیں،وہاں سے پری پلان پاکستان ٹیم کی اندرونی شکست رویخت کا عمل مکمل کیا گیا ہے اور یہ کروایا گیا ہے۔کرکٹ کور کرتے،دیکھتے چوتھائی صدی بیت گئی۔کرک اگین نے ٹی 20 ورلڈکپ آغاز سے کئی روز قبل لکھا تھا کہ پاکستان ٹی 20 ورلڈکپ گروپ اے سے باہر نکل سکتا ہے اور اس کا خطرہ زیادہ ہے۔یہ تمام باتیں اور 25 سالہ ماضی کی 36 مشابہتیں یہی یاد کروارہی تھیں کہ ایسا ہی ہونے لگا ہے۔
ٹی 20 ورلڈکپ،پاکستان پہلے ہی مرحلہ سے باہر ہوسکتا،آئرلینڈ سے آخری گروپ میچ محض اتفاق یا
اب جب یہ ہوچکا تو گیری کرسٹن نے اپنی جانب سے مکمل سچ بولا جو آدھا ہے،اس کا فائدہ پاکستان کرکٹ بورڈ کو ہوگا۔وہ شاہین آفریدی کی ناراضگی یا جرات کا توڑ بھی کرسکے گا۔بابر اعظم کا ڈنگ بھی نکال سکے گا۔اگر کھلاڑیوں کا ایک فیملی کی طرح کا کھٹکتا نام نہاد گروپ تھا بھی،تو اسے تار تار کرنا آسان ہوگا۔یہ اس آدھے سچ سے مکمن ہوسکے گا اور اس ایجنڈے کو آگے بڑھانے کیلئے اب میڈیا وغیرہ بھی یہی ایشو اٹھائے گا۔اسی پر ایک بیانیہ بنے گا۔
مکمل سچ کا پوسٹ مارٹم کب ہوگا۔محسن نقوی کو بطور چیئرمین پی سی بی لانے والے کون تھے،ان سے قبل ذکا اشرف کی آنیاں جانیاں کیسے ہوئیں۔نجم سیٹھی کا پلان کیا تھا۔اس پر کوئی نہیں بولے گا۔ان کی پالیسیاں دیکھیں تو صاف لگا کہ یہ مبینہ طور پر ایجنڈاز کی تکمیل کیلئے لائے گئے تھے۔ایک نے کچھ کام کیا،دوسرے نے آدھا کیا۔تیسرے نے ایسے ہی مکمل کیا،جیسے دیگر شعبوں میں اس نے اپنے کام مکمل کئے تھے۔فیصلے ان کے تھے اور ہیں۔پالیسی انکی تھی اور ہیں۔ذمہ داری بھی صرف ان کی بنتی ہے،ورنہ گزشتہ ٹی 20 ورلڈکپ کی فائنسلٹ ٹیم کے ساتھ یہ سلوک نہیں کیا جاتا،یہ طرز عمل اختیار نہیں کیا جاتا۔جب اس پورے ملک میں کرکٹ کھیلنے والے،لکھنے والے،کرکٹ چلانے والے اور کرکٹ پر بولنے والے اسی کھیل کے کسی بڑے بنیادی کھلاڑی بلکہ لیجنڈری ہیرو کی کھلے عام ناجائز تذلیل ہوتے دیکھیں،اس پر ایک لفظ تک نہ بولیں کہ نوکری جائے گی۔ناراضگی ہوگی اور سٹیٹس کو جھٹکالگے گا،اس ملک میں کھیلنے والے حاضر سروس کھلاڑی کبھی عزت بچانہیں سکیں گے اور اس کے لئے دوا کرنے والے کبھی سچ بول نہیں سکیں گے۔
پاکستانی فینز ایسے میں بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم کو ویسٹ انڈیز میں عید نماز پڑھتے دیکھیں گے۔بھارتی کرکٹرز کو کریبین ساحلوں میں والی بال کھیلتے دیکھیں گے لیکن اپنی ٹیم کو گروپ بندی میں چھپتے چھپاتے بھی کہیں نہیں دیکھ سکیں گے کہ آدھے کب واپس آرہے ہیں تو آدھے کیوں امریکا میں ہیں۔