اسلام آبادد،کرک اگین رپورٹ
حامد میر کے انکشافات قریب درست،پاک بھارت کرکٹ میں عمران خان رکاوٹ بنے،جاری تماشا ڈرامہ۔سینئر صحافی وتجزیہ نگار حامد میر کے اس انکشاف کے بعد کہ پاکستان کے سابق آرمی چیف جرل ریٹائر قمر جاوید باجوہ نے کشمیر کا سودا کیا اور اس کے بعد بھارت سے پینگیں بڑھانے کی کوششیں کیں،ساتھ میں بھارتی وزیر اعظم کے دورہ پاکستان کو شیڈول کیا،اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے رکاوٹ ڈالی اور یوں وہ یہ مشن سرانجام نہ دے سکے،اس کی صداقت اس بات سے بھی محسوس ہوتی ہے کہ جنوری 2021 میں اسی ریاستی ادارے نے پاکستان اور بھارت میں تجارت،ثقافت اور کھیلوں کی بحالی کے وعدے بھی کئے تھے اور اس کے لئے کرکٹ سرفہرست تھی۔
کرک اگین اور کرک سین نے یہ بریکنگ نیوز سب سے قبل دی تھی کہ پاکستان اور بھارت میں کرکٹ بحال ہونے جارہی ہے اور بھارتی ٹیم پہلے پاکستان کا دورہ کرے گی۔نیشنل میڈیا میں یہ خبریں 2 ماہ بعد چلیں تھیں لیکن کسی کو علم نہ تھا کہ یہ کیوں قابل عمل نہیں بن رہیں،تو اسی عرصہ میں کرک اگین و کرک سین نے نیوز بریک کی تھی کہ اس سارے عمل میں وزیر اعظم عمران خان رکاوٹ بن گئے ہیں۔وہ پہلے کشمیر کی سابقہ پوزیشن کی بحالی کے متمننی تھے۔یہاں سے ان کے اور جنرل باجوہ کے شدید اختلافات شروع ہوئے۔حامد میر نے کرکٹ سے ہٹ کر باقی باتوں کی جو نشاندہی کی ہے،اس سے ممکنہ طور پر کرکٹ رکاوٹ کی نیوز درست بنتی ہے۔
رمیز راجہ کواصل دھکا کہاں سے لگا،نئی رجیم کے ایجنڈے میں پاک بھارت کرکٹ شامل
یہ بات یا د رہے اور ریکارڈ پر رہے کہ سی وقت بھارتی میڈیا میں ممتاز تجزیہ نگار یہی دعوے کررہے تھے کہ چونکہ باپ کا حکم آگیا ہے،اس لئے اب پاکستان اچھا ہوگیا ہے،ہماری اپنی تو کوئی سوچ ہی نہیں۔
یہ قصہ نہیں ،ایک حقیقت ہے،آج حامد میر،عمران ریاض خان اور زہرہ نسیم انکشاف کررہے ہیں لیکن کرک اگین کا ممکنہ طور پر ماننا ہے کہ یہ سب اسی دبائو کا نتیجہ تھا،یہ وہی دبائو تھا کہ جس کے تحت نیوزی لینڈ اور انگلینڈ نے پاکستان کے 2021 کے دورے منسوخ کئے۔پھر ریاستی سطح پر رجیم چینج تبدیلی کی یقین دہانی کے بعد کرکٹ ممالک آنا شروع ہوئے اور ساتھ میں حکومت بدل گئی۔عمران خان کا تختہ الٹ دیا گیا۔
اب کیا ڈرامہ لگتا ہے
ایسا صاف محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت پرو ریاست اور پرو ویسٹ ہے۔ایسے میں حکم کہیں سے ہو،پورا ہوگا لیکن ایک سال میں پاک بھارت روابط پر ایسے ہی عمل نہیں ہوسکا،جیسے باجوہ کوشش کے بعد نہیں کرسکے تھے۔سوال یہ ہے کہ اب تو عمران خان نہیں ہیں،پھر کیا رکاوٹ ہے۔سادہ سی بات ہے کہ مسئلہ کشمیر اور بھارتی ایشو سلگتے موضوعات ہیں۔اس وقت 80 فیصد عوام عمران خان کی بیک پر ہے،موجودہ رجیم اور طاقتیں چاہ کر بھی یہی نہیں کرپارہی ہیں۔اگر ایسا کیا تو رہی سہی 20 فیصد ہمدردی اور اس کے ساتھ بچا کھچا سب بہہ جائے گا،اس لئے انتظار بھی ہے اور شاید ایک ڈرامہ بھی،جس کا اختتام ڈرامائی ہوگا اور ساتھ میں اس کا تاثر بدل جائے گا۔
ڈرامہ کیا ہوسکتا
پاکستان اور بھارت کی کرکٹ بحالی مبینہ طور پر دونوں ممالک کی طے شدہ پالیسی اور تیسرے ملک میں طے کردہ فریم ورک کا حصہ ہیں لیکن پاکستانی ممکنہ متوقع رد عمل کی وجہ سے اب اس پر کام کچھ شاید اس انداز میں چل رہا ہے کہ ایشیا کپ کیلئے بھارت دورہ پاکستان سے انکارکررہا ہے اور ایسی ہوا بنائی جارہی ہے کہ جیسے بھارت ہمیشہ کی طرح نہیں آنا چاہتا،جواب میں پاکستان کا یہ ایشو بنایاجارہا ہے کہ وہ بھی ورلڈکپ کیلئے بھارت نہیں جائے گا۔اب کہانی اور منطرنامہ الٹ بنادیا گیا،ذرا سوچیں کہ ان حالات میں اچانک اگر بھارت اپنی ٹیم پاکستان بھیجے گا تو عمران خان کیا،پوری قوم کشمیر پالیسی بھول کر اسے اپنے ملک کی اخلاقی فتح سمجھے اور کشمیر کو لے کر وہ بحث نہیں ہوسکے گی جو اس سے قبل عام حالات میں بنتی تھی۔تو ذہن میں رکھیں بھارت کے پاکستان آنے کی نیوزاچانک بریک ہوسکتی ہے۔اگر ایسا ہوا تویہ ہرگز نہ سمجھاجائے کہ یہ اس لئے ہے کہ پاکستان نے ورلڈکپ کی دھمکی لگاکر بھارت کو مجبور کیا بلکہ یہ اس لئے ہوگا کہ یہ 2021 کے اس مبینہ پلان کا عمل ہوگا جو طے کیا گیا تھا۔
اس میں رکاوٹ کیا ہے
اس میں اصل رکاوٹ وہی کشمیر پالیسی اور عمران خان کی مقبولیت ہے اور بھارت سمیت وہ طاقتیں جو دراصل مبینہ طور پر جن شرائط پر یہ چاہ رہی تھیں،وہ ابھی مکمل نہیں ہوسکی ہیں،اس لئے کہ عمران خان کا بندوبست نہیں ہوسکا ہے،اس لئے ممکن ہے کہ یہ ایک پوائنٹ پاکستان اور بھارت کو اس چلتے نئے ڈرامہ کے بھی وہ مطلوبہ نتائج نہ دے سکے اور بھارتی ٹیم ابھی بھی پاکستان نہ آئے،تو بھی حیرت نہیں ہوگی کہ پھر پہلا مفروضہ غلط ہوجائے گا کہ یہ سب ڈرامہ ہے،ایسی بات نہیں نہ مفروضہ غلط ہوگا اور نہ تجزیہ،اصل بات یہ ہے کہ ان کو رجیم چینج کی مکمل کامیابی درکار ہے،تاحال وہ نہیں ہوسکی۔
ہتھیار پھینک دیئے،پاکستان بھارت میں ورلڈ کپ کھیلے گا،نجم سیٹھی کو کس نے یہ حکم دیا