عمران عثمانی۔خدا خدا کر کے پاکستان کرکٹ ٹیم نے کسی نہ کسی طرح درجن کے قریب بنا ٹیسٹ جیتے ہوم گراؤنڈ پر 44 ماہ کے طویل عرصے کے بعد بڑی بڑی شکستوں کا سامنا کرتے ہوئے ایک ٹیسٹ جیتا اور پھر ٹیسٹ سیریز جیت لی ۔ یہ ایک انتہائی خوشی کی بات تھی اس میں کوئی ایسی منفی بات نہیں ہونی چایئے تھی جو کہ پاکستان کرکٹ کے حوالے سے منفی پہلو کو اجاگر کرتی لیکن ہمارے ہاں لگتا ہے بہت سی چیزیں ایجنڈا بنیاد پر چلتی ہیں۔ یہ ایجنڈے ہی ہوتے ہیں جو کسی کو نہیں بخشتے ۔نہ کسی کپتان کو ،نہ کسی سابق ٹیسٹ کرکٹر کو۔ نہ کسی سابق چیئرمین پی سی بی کو۔نہ کسی اچھے کمنٹیٹر کو ۔
کرکٹ کی تازہ ترین خبریں یہ ہیں کہ پاکستان کرکٹ میں ہمیشہ سے ایک ممتاز نام رمیز راجہ کا رہا ہے۔ رمیز راجہ نے اپنے دور میں ایک صاف ستھری کرکٹ کھیلی اور اس کے بعد ایک بہترین کمنٹیٹر بنے اور بڑی محنت کے ساتھ انہوں نے ایک مقام بنایا۔ پاکستان کی جس سیریز میں رمیز راجہ نہ ہوں، اس سیریز کی کمنٹری کا کوئی لطف نہیں ہوتا ۔یہ میں نہیں کہہ رہا۔ یہ دنیائے کرکٹ میں رہنے والے لوگ ، فینز کہتے ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ راولپنڈی ٹیسٹ جب ختم ہوا تو پاکستان کے سابق کپتان سابق چیئرمین کرکٹ بورڈ رمیز راجہ کو بھی نہیں چھوڑا گیا۔ ان کے حوالے سے ایک خبر چلائی گئی کہ وہ شان مسعود کا ٹی وی انٹرویو کرتے ہوئے کوئی گہرے طنز مار گئے ۔اب اس میں کوئی طنز والی بات نہیں تھی ۔کوئی بھی ہوتا وہ یہی سوال کرتا کہ مسلسل چھ شکستوں کے بعد بطور کپتان پہلی فتح کیسی لگ رہی ہے۔پچھلا زمانہ کیسا گزرا، یا پاکستان کی ٹیم 44 ماہ بعد ایک ٹیسٹ جیتی اور طویل عرصے بعد ٹیسٹ سیریز ہوم گراؤنڈ پہ جیتی تو کیسا محسوس ہو رہا ہے۔ اسی حوالے سے یہ سوالات بنتے تھے لیکن ان سوالات کو میڈیا کے کچھ حصوں نے طنزیہ بناڈالا اور اس پر مخصوص پروپیگنڈا کیا اور پھر اسی پر اکتفا نہیں کیا ،یہاں تک خبریں چلا دیں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ رمیز راجہ کی شکایت براڈ کاسٹر ادارے کو لگا رہا ہے۔ خط لکھ دیا ہے۔ یہ کر دیا ہے ۔وہ کر دیا ہے۔
رمیز راجہ نے فتح کے باوجود اہم سوالات اٹھادیئے،شان مسعود انٹرویوپر بھی تفصیلی بات کردی
سب جانتے ہیں براڈ کاسٹر سکائی سپورٹس تھا اوربمشکل ملا تھا۔سیریز شروع ہونے میں ڈیڑھ درجن دن باقی بچے تھے اور یہ نہیں پتہ تھا کہ میچز کہاں ہونے ہیں اور یہ بھی نہیں علم تھا کہ انگلینڈ میں میچز براہ راست نشر ہوں گے یا نہیں ہوں گے ۔ پاکستان میں ہونے والی اس کرکٹ سیریز میں کسی براڈکاسٹر کی کوئی بڑی دلچسپی نہیں تھی۔ جب ٹیم ہارتی ہے تو یہی نتائج ہوتے ہیں۔ جب آپ ایک دم ٹیم سے بڑے بڑے کھلاڑیوں کو نکالیں یا ایک دم ٹیم ڈاؤن ہو تو پھر کاروباری اعتبار سے فائدے میں نہیں، نقصان والی چیزیں ہوتی ہیں۔ کسی طرح براڈ کاسٹر سے ہماری ڈیل ہوئی اور پاکستان کرکٹ بورڈ کو بھی فائدہ ہوا ۔پاکستان کرکٹ کو بھی فائدہ ہوا۔ پاکستان کرکٹ ٹیم نےٹیسٹ سیریز جیت لی۔ انگلینڈ کے خلاف نو سال بعد یہ ٹیسٹ سیریز جیتے ہیں ۔ہوم گراؤنڈ میں کوئی ساڑھے تین سال کے بعد کوئی پہلا ٹیسٹ جیتنا نصیب ہوا ۔اور اسی طرح ساڑھے3 سال بعد غالبا یہ کوئی سیز ہوم گراؤنڈ میں جیتے تو اس کے بعد سابق چیئرمین پی سی بی رمیر راجہ کو بھی نہیں بخشا گیا۔