عمران عثمانی
بطور کپتان انفرادی اور ٹیم پرفارمنس،بابر اعظم کو سرفرازاحمد پر سبقت،پھر بحث کیسی اور کیوں۔پاکستان کے رنگ بھی عجب ہیں،یہاں چڑھتے سورج کی پوجا ہے۔یہاں کچھ ایجنڈے ہیں اور کچھ پردے کے پیچھے سے کام کررہے ہوتے ہیں۔پی سی بی رجیم چینج آپریشن کے بعد ان دنوں کپتانی رجیم کی تبدیلی کا ڈرامہ زوروں پر ہے۔اس کے لئے ایجنڈے کے تحت بحث بڑھائی جارہی ہے۔ہر پرس کانفرنس میں گھما پھراکربابر اعظم سے یہی سوال ہوتا ہے کہ اب ان سے کسی ایک فارمیٹ کی کپتانی واپس لینی چاہئے یا انہیں چھوڑنی چاہئے۔
ایسا ہی ایک سوال ان سے کراچی میں ون ڈے سیریز کے آغاز سے ایک روز قبل ہوا۔پوچھا گیا کہ سعید انور،سچن ٹنڈولکر جیسے کھلاڑی بھی عظیم بیٹرز تھے لیکن اچھے کپتان نہیں تھے تو کیا آپ بھی سارے ٹیسٹ ہارنے کے بعد یہ سوچتے ہیں۔بابر اعظم کا جواب یہ تھا کہ یہ ون ڈے کی پریس کانفرنس ہے،اس پر بات کریں۔ایسے ہی ایک سوال کے جواب میں بابر اعظم کو کہنا پڑا کہ سرفراز احمد 4 سال نہیں کھیل سکے تو مجھے اس بات کا کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔
سب سے پہلے تو یہ کلیئر ہو کہ بابر اعظم کی بطور کپتان پرفارمنس وہ نہیں ہے جو سچن ٹنڈولکر وغیرہ کی تھی۔وہ کپتانی کے دبائو میں خود ناکام ہوتے تھے ،یہاں بابر اعظم خود ناکام نہیں ہیں۔ٹیم ہاری ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ جس خاص مقصد کیلئے یہ ساری مہم چلائی جارہی ہے۔وہاں ایک ہی مقصد ہے کہ سرفراز احمد کے پاس کسی طرح ایک فارمیٹ کی کپتانی آجائے۔سوال یہ ہے کہ کیا سرفراز احمد خاص،کامیاب کپتان تھے،جب ان سے کپتانی لی گئی تھی تو اس سال پاکستان کا ٹیسٹ،ایک روزہ اور ٹی 20 کرکٹ میں کیا حال تھا؟کیاکسی نےا سے پڑھنے کی کوشش کی ہے یا ویسے ہی رجیم چینج کا موسم ہے تو ڈنڈے سے سارے کام چل رہے ہیں،یہ بھی چل جائیں گے۔
بابر اعظم کو سبکدوش،سرفراز احمد کو ٹیسٹ کپتان بنانے کا فیصلہ،وسیم،شعیب اور شاہد کا رد عمل
سرفراز احمد نے بطور کپتان جو 13 ٹیسٹ میچزکھیلے ہیں،ان کی پرفارمنس بد تر تھی23 اننگز میں 26 سے کم کی اوسط سے انہوںنے568 اسکور کئے،یہی جب وہ کپتان نہیں تھے تو انہوں نے 38 میچزکی67 اننگز میں44 کی اوسط سے2424 رنزبنائے۔ثابت ہوا کہ ٹیسٹ کرکٹ میں کپتانی نے ان کی ذاتی پرفارمنس کو داغدار کیا۔ایک روزہ کرکٹ کودیکھاجائے تو 50 میچزمیں کپتانی کی۔38 اننگز میں 804 اسکور 32 کی اوسط سے تھےکوئی سنچری نہیں۔بغیر کپتانی کے 67 میچز کی 53 اننگز میں 2 سنچریزکی مدد سے1511 اسکور ہیں اور 35 کے قریب اوسط ہے۔یہاں بھی ان کا ریکارڈ بطور کپتان خراب ہے۔بغیر کپتانی کے بہتر ہے۔ٹی 20 کے 37 میچزمیں کپتانی کی۔27 کی اوسط ہے اور521 رنزہیں۔ایک ففٹی ہے۔24 میچزکی 16 اننگز بنا کپتان کے کھیلے۔27 کی اوسط ہے۔2 ففٹیز ہیں۔برابر سرابر کا نتیجہ ہے۔
اب یہی تصویر بابر اعظم کی دیکھیں۔بابر اعظم نے 18 ٹیسٹ میچزکی 32 اننگز میں بطور کپتان4 سنچریز،11 ہاف سنچریزکی مدد سے1651 رنزبنائے۔اوسط53 سے زائد رہی۔بغیر کپتانی کے29 میچزکی 53 اننگز میں5 سنچریز،15 ہاف سنچریزکی مدد سے2045 رنزبنائے۔اوسط 45 بنتی ہے۔یوں بطور کپتان بیٹنگ اوسط بہتر ہے۔اس کا مطلب ہے کہ کپتانی نے کوئی دبائو نہیں ڈالا۔بطور کپتان 18 ون ڈے میچزمیں 81 سے زائد کی اوسط سے1305 اسکور ہیں۔بغیر کپتانی کے74 میچزمیں 54 کی اوسط سے3359 رنز ہیں۔یوں ان کا بیٹنگ اوسط اور نکھار کپتانی میں زیادہ ہے۔بغیر کپتانی کے نہایت کم ہے،گویا کپتانی نے پالش کیا،بہتر کیا ہے۔
پاکستان ،نیوزی لینڈ پہلا ون ڈے آج،ٹیبل پر نمبر ون بننے کا چانس،2 کھلاڑیوں کی زبردستی سلیکشن
سرفراز احمد کی بطور ٹیسٹ کپتان ٹیم کارکردگی دیکھی جائے تو مایوس کن تھی۔13 میچزمیں انہوں نے کپتانی کی۔پاکستان صرف4 میچزجیتا۔8 میں اسے شکست ہوئی۔صرف ایک میچ ہی ڈرا کھیلا جاسکا۔
بابر اعظم کی کپتانی میں پاکستان اب تک18 ٹیسٹ میچزکھیل چکا ہے۔8 جیتا ہے۔6 میں شکست ہوئی ہے اور4 میچز ڈرا کھیلے ہیں۔بابر کی کامیابی کا تناسب 44 فیصد اور سرفراز کا 30 فیصد بنتا ہے۔سرفراز احمد کی قیادت میں پاکستان 50 ون ڈے میچزکھیلا28 جیتا اور 20 ہارا۔2 بے نتیجہ تھے۔فتح کا تناسب 58 فیصد ہے۔بابر کی کپتانی میں18 ایک روزہ میچزمیں پاکستان 12 جیتا ہے،5 میں شکست ہے۔فتح کا تناسب 69 فیصد ہے۔دونوں فارمیٹ میں بابرا عظم سرفراز کے مقابل کہیں زیادہ کامیاب کپتان بنے ہیں۔
پاکستان بابر اعظم کی قیادت میں ایشیا کپ فائنل،ٹی 20 ورلڈکپ فائنل کھیل چکا ہے۔ورلڈکپ آنے والا ہے۔سرفراز کی کپتانی میں چیمپئنز ٹرافی ضرورجیتی ہے لیکن ٹی 20 ورلڈکپ کا موقع نہیں ملا۔بھلے 11 ٹی 20 سیریز جیتنے اور37 میں سے 29 میچزکی فتح کا ریکارڈ ضرور ہے لیکن جب ان سے کپتانی لی گئی تھی تو اس سال پاکستان ٹیسٹ،ون ڈے اور ٹی 20 میں بری طرح ناکام ہوا تھا۔
بطور کپتان انفردای پرفارمنس کے ساتھ بطور کپتان ٹیم کی فتوحات و ناکامی کا تناسب پیش کیا گیا ہے،اس سے آپ خود نتیجہ اخذ کریں کہ کیا یہ سوالات بنتے ہیں جو کئے جارہے ہیں اور کیا یہ بحث بنتی ہے کہ کوئی جواز زبردستی کا گھڑا جائے۔اگر نہیں تو پھر یہ کیا بحث ہے اور کیا ایجنڈا ہے اور کیا صحافت ہے۔