کرک اگین اسپیشل رپورٹ
پاکستان کرکٹ میں بھی عدم استحکام،سابق ہیڈ کوچ الجزیرہ کی ہیڈلائن بن گئے،اندرونی سیاست کے انکشافات،کرکٹ کی تازہ ترین خبریں یہ ہیں کہ تین سال سے ملک میں سنگل ٹیسٹ میں ناکامی۔مسلسل 10 ٹیسٹ میچز،وہ بھی گھر میں بغیر جیت کے۔2 سالوں میں پاکستان کو ہوم میدانون میں مسلسل 2 بار کلین سوئپ شکست جو اس سے قبل کھی نہیں ہوئی تھی۔پاکستان کرکٹ کی داستان کا عنوان بننے کیلئے کافی ہیں۔دو طرفہ سیریز میں نچلے درجے کی ٹیموں کے خلاف شکست ہو یا عالمی مقابلوں میں حیران کن نتائج، پاکستانی کرکٹ شائقین نے یہ سب کچھ حالیہ برسوں میں دیکھا ہے۔پاکستان کی آخری قابل ذکر کارکردگی نومبر 2022 میں آسٹریلیا میں ہونے والے ٹی 20 ورلڈ کپ میں سامنے آئی، جہاں وہ آخر کار انگلینڈ کے خلاف یکطرفہ فائنل میں ہار گئے۔
یہ سب آج یاد آیا،جب راولپنڈی میں پاکستان بنگلہ دیش جیسے کمزور حریف کے خلاف مسلسل دوسرا ٹیسٹ ہارکر تاریخ میں اس سے پہلی بار دونوں میچزہارتے ہوئے کلین سوئپ ہوگیا۔
پاکستان نومبر 2022 سے کیا کررہا
پاکستان ٹی 20 ورلڈ کپ 2024 میں پہلے راؤنڈ سے آگے جانے میں ناکام رہا جب وہ بدنام زمانہ امریکہ سے ہار گیا، جس نے صرف شریک میزبانوں میں سے ایک کے طور پر ٹورنامنٹ کے لیے کوالیفائی کیا۔پاکستان کو پہلی بار آئرلینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی میچ میں شکست ہوئی۔بھارت میں ہونے والے کرکٹ ورلڈ کپ 2023 میں، پاکستان اپنے نو میں سے پانچ میچ ہار کر گروپ مرحلے میں ٹورنامنٹ سے باہر ہو گیا۔
پاکستان کی تینوں فارمیٹس کی کارکردگی
اپنی آخری پانچ ٹیسٹ سیریز میں سے پاکستان نے جولائی 2023 میں سری لنکا کے خلاف ایک جیت لی ہے۔باقی میں ناکامی ہے۔پاکستان نے نومبر 2022 سے 12 ٹیسٹ میچز کھیلے۔2 جیتے،2 ڈرا کھیلے اور 8 ہارے ہیں۔25 ون دے میچز میں 14 جیتے اور 10 ہارے ہیں۔54 ٹی 20 میچزمیں سے 25 جیتے اور 26 ہارے ہیں۔
الجزیرہ کی ہیڈلائن پاکستان کرکٹ کا عدم استحکام کیوں بنی
معروف براڈ کاسٹر اور نشریاتی گروپ الجزیرہ نے پاکستان کے سابق ہیڈ کوچ مکی آرتھر سے ابھی پوچھا ہے کہ یہ پاکستان کرکٹ کو کیا ہوا ہے۔ان کا جواب تھا کہ پاکستان کے پاس ٹیلنٹ کی کمی نہیں۔منگل کی شام راولپنڈی میں جب پاکستان بنگلہ دیش سے ہارچکا تھا تو مکی آرتھر دور بیٹھے بتارہے تھے کہ باصلاحیت پلیئرزکی پاکستان کو کمی نہیں ہے لیکن عدم استحکام پاکستان کرکٹ کو لے ڈوبا ہے۔
مکی آرتھر نے عدم استحکام کا بھانڈا پھوڑا
مکی آرتھر نے استحکام کی وضاحت کچھ یوں کی ہے کہ استحکام اوپر سے آتا ہے۔ ٹیم کے انتخاب میں، کھلاڑیوں کے کردار میں، مستقل مزاجی میں اور اس بات کو یقینی بنانے میں کہ ہر کھلاڑی اپنے کردار کو سمجھ جائے اور اسے اعتماد دیا جائے۔پاکستان کرکٹ کے اندر عدم استحکام افراتفری پیدا کرتا ہے اور کھلاڑی بالآخر اپنے لیے کھیلنا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ اگلی حکومت کے ذہن میں کیا ہے۔ اس سے اعتدال پسندی پیدا ہوتی ہے۔
عدم استحکام کیا ہے،کب سے ہے اور کیوں
پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) 2022 کے اواخر سے اس وقت سے ہلچل کا شکار ہے جب اس وقت کے چیئرمین رمیز راجہ کو وفاقی حکومت نے برطرف کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے ملک کے کرکٹ حکمران ادارے کی قیادت تیسرے چیئرمین کر رہے ہیں۔ ہر ایک اپنے ساتھ بیک روم کے عملے اور ٹیم کی قیادت میں تبدیلیاں لاتا رہا ہے۔پی سی بی کے موجودہ سربراہ محسن نقوی 6 فروری سے انچارج ہیں اور وہ پاکستان کے وزیر داخلہ کا کردار بھی ادا کرتے ہیں۔پاکستان کے نومبر2023 میں ون ڈے ورلڈ کپ سے گروپ مرحلے میں بدنامی سے باہر ہونے کے بعد ان کے آل فارمیٹ کپتان بابر اعظم نے استعفیٰ دے دیا۔پی سی بی نے کپتان کا کردار الگ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ٹیسٹ ٹیم کی باگ ڈور شان مسعود کو سونپ دی جبکہ فاسٹ بائولر شاہین شاہ آفریدی کو ٹی ٹوئنٹی کی قیادت سونپی گئی۔ جب نقوی نے پی سی بی کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالا تو انہوں نے صرف ایک سیریز کے بعد آفریدی کو برطرف کر کے بابر کو بحال کر دیا۔
کپتانوں کی چھیڑ چھاڑ
جہاں تک ون ڈے کپتانی کا تعلق ہے، معاملہ ہوا میں ہی ہے کیونکہ پاکستان نومبر سے اس فارمیٹ میں نہیں کھیلا ہے۔بابر اعظم نے نومبر2023 میں ذمہ داری چھوڑنے کے بعد مارچ 2024 میں دوبارہ ٹی ٹوئنٹی کپتان مقرر کیا گیا تھا۔نومبر 2022 سے اب تک کتنے لوگ پاکستان کو کوچ کر چکے ہیں۔یہ سوال سادہ ساہے،جواب نہایت تکلیف دہ۔سات کوچز۔ ثقلین مشتاق، عبدالرحمان (عبوری کوچ)، گرانٹ بریڈ برن، محمد حفیظ، اظہر محمود (عبوری کوچ)، گیری کرسٹن (موجودہ وائٹ بال کوچ) اور جیسن گلیسپی (موجودہ ریڈ بال کوچ)۔
گھومنے والے دروازے کی پالیسی ٹیم کیلئے نقصان دہ
خیال ہے کہ گھومنے والی دروازے کی پالیسی ٹیم پر نقصان دہ اثر ڈال رہی ہے۔56 سالہ جنوبی افریقہ کے سابق کوچ نے کہا کہ مختلف کوچ مختلف خیالات لاتے ہیں اور کھلاڑیوں کے لیے مختلف کردار ہوتے ہیں۔آرتھر نے کہا، یہ غیر یقینی صورتحال، عدم مطابقت کھلاڑیوں کو اپنے لیے کھیلنا شروع کرنے پر مجبور کرتا ہے۔آرتھر کا خیال ہے کہ بابر اعظم،رضوان،شاداب اور شاہین یہبلاشبہ بہت اچھے کھلاڑی ہیں لیکن ان کی فارم پر ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔کبھی کبھی کھلاڑی اپنی فارم پر توجہ دینے کے بجائے یہ سوچنے میں لپٹے رہتے ہیں کہ ان کے ارد گرد کیا ہو رہا ہے۔
شان مسعود کی کپتانی کے حمایتی
مکی آرتھر شان مسعود کے حمایتی ہیں،کہتے ہیں کہ شکست کا ذمہ دار شان مسعود نہیں۔وہ بہترین کپتان بننے جارہے ہیں لیکن ان کو رنزکرنے ہونگے۔
پاکستان کرکٹ کے اتفاق اور اتحاد کو پلیئرز پاور کے الزام پر توڑاگیا،سنسنی خیز تفصیلات
شان مسعود کی جواب طلبی بنتی ہے،تبدیلیوں اور فیصلوں نے بیڑا غرق کردیا،رمیز راجہ برس پڑے
شان مسعود شاہین آفریدی پر جھوٹ بول گئے ،الزام کس نے لگادیا