عمران عثمانی کا تجزیہ
پی سی بی کا ردعمل کوئی نہیں ہوگا۔بات نئی ہے۔معاملہ پرانا ہے لیکن وقت بہت باقی ہے۔بھارتی بورڈ سیکرٹری جے شاہ کی جانب سے اگلے سال ایشیا کپ کے لئے پاکستان اپنی ٹیم نہ بھیجنے کا اعلان غیر ضروری تھا۔ادھر پاکستان ہے کہ جیسے طوفان ہو،غیر منطقی نیوز اپنے عروج پر ہیں۔پہلی کہ پاکستان 2023 ورلڈکپ کا بائیکاٹ کرسکتا ہے۔دوسری یہ کہ پی سی بی ایشین کرکٹ کونسل سے الگ ہوسکتا۔تیسری یہ کہ ایشین کرکٹ کونسل کو خط لکھا جائے گا۔
بھارتی بورڈ کا نیا صدرآگیا،کئی فیصلے،پی سی بی کی آپشنز
ادھر پی سی بی چیئرمین رمیز راجہ سے سخت رد عمل کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔کرک اگین پہلے ہی رپورٹ کرچکا ہے کہ پی سی بی کے پاس سخت جواب دینے کا کوئی آپشن نہیں ہے،اس لئے کہ آئی سی سی ایونٹس کا معاملہ نہیں ہے،اس لئے پاکستان بھی 2023 ورلڈ کپ کو دھمکی کے طور پر استعمال کرکے اپنا کیس خراب کرے گا ۔اہم سوال یہ ہے کہ ایشیا کپ سے قریب 10 ماہ قبل بھارتی بورڈ سیکرٹری کو یہ بیان دینے کی ضرورت ہی کیا تھی۔پھر ایسے اعلانات حکومتی کندھوں پر چلائے جاتے ہیں۔اس وقت بھارتی بورڈ کے سیکرٹری ہی ایشین کرکٹ کونسل کے صدر ہیں۔
اب ہی سی بی ایشین کرکٹ کونسل کے صدر جے شاہ کو احتجاجی خط لکھے گا کہ وہ اپنے خلاف اجلاس بلوائیں تاکہ جواب طلب ہو ۔کیسی احمقانہ بات ہوگی کہ جسے خط لکھا جائے گا ،اسے اس کے اپنے خلاف کارروائی کا کہا جائے گا ۔
وہ کتنے تگڑے ہیں اور رکن ممالک کی کیا اوقات
اسی سال کے ایشیا کپ کو لے لیں۔سری لنکا میزبان تھا،خراب ملکی حالات میں اس نے آسٹریلیا اور پاکستان کی کامیاب میزبانی کے بعد ایشیا کپ کی میزبانی کی منتیں کیں۔پی سی بی نے اس کی حمایت کا اعلان کیا لیکن پھر کیا ہوا،ایک روز اچانک اسی بھارتی بورڈ سیکرٹری نے ایونٹ سری لنکا سے یو اے ای منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا اور پھر ایسا ہی ہوا ۔
ویسے بھی اسی بھارت کے اسی سیکرٹری نے اس سال برمنگھم کامن ویلتھ گیمز سائیڈ لائن پر ہونے والی میٹنگ کے موقع پر کہا تھا کہ رمیز راجہ شریف آدمی ہیں،میڈیا پر دکھانے کے لئے بولتے ییں۔میٹنگ میں ہماری مخالفت نہیں کریں گے ،بڑا شور تھا کہ پی سی بی آئی پی ایل ونڈو بڑھانے کی مخالفت کرے گا اور نہیں کی تھی۔سب ریکارڈ کا حصہ ہے۔
اصل کہا نی یہ ہے
کرک اگین یہاں یہ واضح کرتا چلے کہ ایسا ہی رد عمل ہوگا،جیسا ادھر سے بیان آگیا۔اس سے زیادہ جو ہوگا دکھانے کے لئے ہوگا،اصل میں اس نئی مہم کے پس منظر میں کیا ہے۔اسے سمجھنا ہوگا۔اچھی طرح سے ذہن نشین کرنا ہوگا۔اس وقت بھارت پاکستان کے خلاف کھیلنے سے انکاری نہیں ہے بلکہ پاکستان گزشتہ 2 سال سے انکاری ہے۔سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے سٹیٹس کی اصل تبدیلی تک کسی بھی قسم کے تعلقات نہ رکھنے کا اٹل فیصلہ تھا،اسے یہاں کے طاقتور حلقے کہیں یقین دہانی کرواکر بھی تبدیل نہیں کراسکے تھے۔عمران خان کا بیانیہ ان کے ہٹائے جانے کے بعد بھی حاوی ہے اور اگر پاکستان اس کے الٹ چلے گا تو ہرجانب سے آوازیں اٹھیں گی۔اب چال ایسی چلی ہے کہ الٹا پاکستان سے حق مین آوازیں بلند کروادی ہیں۔ہردوسرا بندا یہ کہہ رہا ہے کہ بھارت کو سخت جواب دیں یا آئی سی سی ایونٹ کے بائیکاٹ کی دھمکی دے ،ورنہ اسے یہاں آنے پر مجبور کرے تو اب یہ نیا بیانہ کھڑا ہوگا،شور اٹھے گا تو پھر سابقہ بیانیہ کا کیا بنے گا۔
اس کے حق میں یہاں لکھنے کو متعدد دلائل ہیں،بہت سی وجوہ ہیں،پر تحریر کرنا ممکن نہیں ہے لیکن ایک بنیادی بات ذہن نشین کرلیں گے تو سب سمجھ میں آجائے گا۔کسی بھی ایونٹ سے 10 ماہ قبل ایسی مہم جوئی کی ضرورت ہی کیا تھی؟ اگر یہ سیاست نہیں ہے تو قطعی طور پر اس وقت اس کے تکرار کی گنجائش نہیں تھی۔رائے عامہ بنانے،سنوارنے،تبدیل کرنے اوربیانیہ کو الٹ کرنے کے لئے وقت درکار ہوتا ہے اور وقت پھر اتنا ہی بنتا تھا۔دوسرا پاکستان کے سیاسی حالات سامنے ہیں۔سابقہ دور کے پلٹ آنے کا خوف جہاں مقامی سہولت کاروں کو ہے،وہاں انٹرنیشنل سرپرستوں کو بھی،اس لئے بھی یہ ایک وار ہوسکتا ہے۔کرکٹ کے حوالہ سے کئی عشروں سے جاری کرکٹ سیاست کا استعمال اب ملٹی پل طریقوں سے ممکن ہے۔یہ جاری ہے اور جاری رہے گا۔
حاصل کلام یہ ہے کہ یہ بیان مصنوعی ہے،اس کے متعدد مطالب ہیں،اس لئے پی سی بی دن بھر خاموش رہا،اگلا رد عمل بھی ویسا ہوگا جو اس نئے بیانیہ کو پار لگائے گا۔بظاہر بڑے دعوے ہونگے،اختتام خوش کن ہوگا۔گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
پاکستان آئی سی سی ٹی20 ورلڈکپ کھیلنے سے انکار نہیں کرےگا،نہ کرسکتا ہے،آئی سی سی ورلڈ کپ کھیلنے سے بھی انکار نہیں کرے گا۔یہ پلیٹ فارم اور ہے،اسی طرح ایشین کونسل سے نکلنے کی باتیں بھی بے معنی ہیں۔جی یہ ضرور ہوگا کہ کرکٹ فینز کو بھی مطمئن کرنا ہے۔رد عمل دینا بنتا ہے اوراس لئے بھی کہ بات پھر ہی بنے گی،ماحول پھر ہی بنے گا،پھر کسے سابقہ بیانیہ یاد رہے گا۔۔