ورلڈکپ کہانی سلور جوبلی ایڈیشن 2023 سے یہ 19 ویں قسط پیش خدمت ہے۔اگلے 24 سے 48 گھنٹوں میں ماضی سے متعلق تمام اقساط مکمل ہونگی اور اس کے بعد 4 اکتوبر تک آنے والے ورلڈکپ کے حوالہ سے دھماکا خیز مواد ہوگا۔ہر ٹیم کے متعلق ریکارڈز کے ساتھ پیش گوئی ہوگی۔کتاب کے 7 ویں ایڈیشن کی سافٹ کاپی جلد آرہی ہے۔
عمران عثمانی
ورلڈکپ کہانی،وہ جو آخری عالمی کپ میں تھے،اس بار باہر بیٹھیں گے،نامور نام آئوٹ۔دنیائے کرکٹ میں ریکارڈز پر ریکارڈز بنانے والے لیجنڈری کرکٹر سچن ٹنڈولکر طویل کیرئیر کے بعد بالآخر اپنے چھٹے اور آخری ورلڈ کپ 2011 میں وہ اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے جس کی تمنا معمولی سا معمولی کھلاڑی بھی رکھتا ہے۔ 1992 کے ورلڈ کپ سے سفر شروع ہوا۔ 96 کے ورلڈ کپ میں ناکامی، 99 کے ورلڈ کپ میں بھی ناکامی، 2003 کے ورلڈ کپ فائنل میں جا کر محرومی اور پھر 2007 کے عالمی کپ میں فائنل سے بھی پہلے مایوسی بہت بڑی تشنگی تھی تاہم 2011 کے عالمی کپ میں انہیں اسی دستے کا رکن بننے کا اعزاز حاصل ہوا جس نے عالمی کپ کی ٹرافی اٹھا لی۔ یہی نہیں بلکہ انہیں یہ موقع اپنے ملک میں عوام کے سامنے حاصل ہوا چنانچہ ہر 4 سال بعد منعقد ہونے والے میگا ایونٹ کی کامیابی ایک بڑا خواب ہے. خوش قسمت ترین کھلاڑی اس میں شریک ہوتے ہیں اور بہت ہی زیادہ قسمت کے دھنی وہ پلیئرز ہوتے ہیں جن کی زندگی میں ورلڈ کپ بار بار آ جائے یہ بار بار آنا کہہ دینا آسان ہے اس کا سفر وہی جانتا ہے جو ایک مرتبہ یہ کپ کھیل کر پھر اگلے ایڈیشن کا شدت سے انتظار کرتا ہے چنانچہ ورلڈ کپ 2019 میں بھی سچن ٹنڈولکر کی طرح کے کئی پلیئرز اپنے اپنے ملک کی جانب سے اس امید کے ساتھ ایکشن میں تھے کہ اس مرتبہ تو وہ چیمپئن کہلائیں گے اور خاص کر وہ کھلاڑی کہ جو ایک عرصہ سے یہ ایونٹ کھیل رہے تھے اور جن کا آخری شو بن گیا۔
ذیل میں ہم ایسے نامی گرامی کھلاڑیوں کا ذکر کریں گے کہ جنہوں نے آخری ورلڈکپ کھیلا لیکن اب اس ورلڈکپ 2023 میں وہ نہیں ہونگے۔
ایم ایس دھونی (بھارت)
دنیا میں شاید ہی کوئی کرکٹ کا شائق ایسا ہو جو اس نام سے واقفیت نہ رکھتا ہو۔ پھر اس کے بے مثال کارناموں کی خبر نہ رکھتا ہو ۔ دھونی بھارتی کرکٹ کی تاریخ کے وہ کھلاڑی ہیں جنہوں نے 21 ویں صدی کے آغاز میں بھارتی کرکٹ کو بلندیوں و کامرانیوں کی معراج پر پہنچایا، اپنے شاندار کھیل، وننگ اننگز، ٹھوس کپتانی اور کول پرسن کے طور پر ان کی پہچان ایک کامیاب قائد کے طور پر ہوئی ہے۔ وہ لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتحال میں بہترین اور کامیاب فیصلے کرنے کی اعلیٰ صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ 2011 ورلڈ کپ فاتح ٹیم کے کپتان بھی تھے۔ ان کی قیادت میں بھارت نے ورلڈ ٹی 20 اور چیمپینز ٹرافی بھی جیتی ہے۔ چنانچہ آئی سی سی کے تینوں میگا ایونٹ جیتنے والے پہلے کپتان بھی ہیں، 2019 ورلڈ کپ میں وہ بطور وکٹ کیپر بیٹسمین شریک ہوئے ۔ بھارتی ٹیم اپنے کھیل اور جذبوں سے اس عظیم کھلاڑی کی رخصتی پر انہیں ورلڈ کپ کی فتح کا تحفہ دینے کی ہر ممکن کوشش کرتی رہی لیکن سیمی فائنل میں جاکر نیوزی لینڈ کے خلاف وہ ناکام ہوگئے۔
جولائی 1981ء کو پیدا ہونے والے دھونی 2007 ء سے 2016ء کے درمیان محدود اوور کی کرکٹ اور 2008ء سے 2014ء کے درمیان ٹیسٹ کرکٹ کے کپتان رہے ۔ 2004ء میں بنگلہ دیش کے خلاف ڈیبیو کیا۔
ڈیل اسٹین (جنوبی افریقہ)
جنوبی افریقہ کے لئے ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے والے فاسٹ بائولر ڈیل اسٹین انگلش وکٹوں پر اپنی ٹیم کے لئے بڑا ہتھیار تھے۔ پیسر نے فٹنس مسائل کے باوجود کمر کس لی ،200 ون ڈے وکٹیں حاصل کرنے والے فاسٹ باؤلر نے ٹیسٹ کرکٹ میں نہ صرف چار سو وکٹوں کے ساتھ اپنا سفر مکمل کیا بلکہ شان پولاک کی 422 وکٹوں کا ریکارڈ توڑ کر اپنے ملک کے لیے سب سے زیادہ ٹیسٹ وکٹیں حاصل کرنے والے بائولر بننے کا اعزاز بھی حاصل کیا ، رائٹ ہینڈ فاسٹ باؤلر 2019 ورلڈ کپ کے فوری بعد محدود اوورز کی کرکٹ کو خیر آباد کہہ دیا۔
شعیب ملک،پاکستان
پاکستان کرکٹ ٹیم کے تجربہ کار کھلاڑیوں میں شامل تھے۔ ورلڈ کپ 2019کے لئے پاکستانی ٹیم ان کے تجربے اور صلاحیت سے یہ امید رکھتی تھی کہ 50 اوورز کے فارمیٹ میں وہ وکٹ پر طویل قیام کر کے نہ صرف اپنی اننگ کو مستحکم کرےگی بلکہ پاکستانی بیٹنگ لائن کو مضبوط سہارا دے گی، اڑھائی سو سے زائد ایک روزہ میچوں کا تجربہ رکھنے والے شعیب ملک کا وہ دوسرا ورلڈ کپ تھا یقینی طور پر شعیب ملک کا یہ آخری ورلڈ کپ تھا ۔
محمد حفیظ (پاکستان)
:
17 اکتوبر 1980ء کو پیدا ہونے والے پاکستان کے سابق کپتان محمد حفیظ 39سال کی عمر میں ورلڈ کپ کھیلنے کے امیدوار تھے ، 3اپریل 2003ء کو انہوں نے ون ڈے ڈیبیو کیا ، وہ بھی ریتائر ہوچکے ہیں۔
ہاشم آملہ (جنوبی افریقہ)
جنوبی افریقہ کے لئے سب سے زیادہ سنچریاں بنانے والے ہاشم آملہ کو تیز ترین 2 سے 7 ہزار ون ڈے رنز بنانے کا اعزاز ملا۔ 50 کے قریب کی شاندار اوسط سے بیٹنگ کرنے والے 36 ہاشم آملہ کا آخری ایونٹ تھا۔
کرس گیل (ویسٹ انڈیز)
90 کے عشرے میں ڈیبیو کرنے والے کرس گیل چند کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں جو تاحال انٹرنیشنل کرکٹ کھیل رہے ہیں۔ جارحیت، تیزی اور سفاکی کرس گیل کی پہچان ہے۔ ویسٹ انڈیز کرکٹ ٹیم کے یہ شہرہ آفاق کھلاڑی گذشتہ چند سالوں میں ٹیم کے لئے تواتر کے ساتھ اگرچہ نہیں کھیل سکے مگر گزرے عرصے میں ٹیم کی زبوں حالی کے بعد کرس گیل کی سلیکشن ورلڈ کپ کے لئے لازم و ملزوم لگتی تھی کیونکہ وہ کسی بھی حالت میں کسی بھی مقام پر دنیاکے کسی بھی باؤلر کا ناطقہ بند کر سکتے ہیں انہوں نے اپنا اسٹائل بدلااور نہ ہی طرزانداز، چنانچہ دنیائے کرکٹ میں ایک غیر سنجیدہ مگر فعال کرکٹر کے طور پر جانے گئے۔ کرس گیل نے ورلڈ کپ سے ساڑھے تین ماہ قبل واضح اعلان کر دیا تھا کہ وہ میگا ایونٹ کے بعد ریٹائر ہو جائیں گے۔ 300 کے قریب ون ڈے میچ کھیلنے والے کرس گیل 10 ہزار رنز بنانے کا اعزاز رکھتے ہیں انہیں 2015 ورلڈ کپ میں ڈبل سنچری بنانے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
کرکٹ ورلڈکپ ہیٹ ٹرک ریکارڈز،کس کی پہلی،کس کی آخری،پاکستان اور بھارت کہاں
راس ٹیلر (نیوزی لینڈ)
نیوزی لینڈ کے لئے سب سے زیادہ سنچریاں بنانے والے راس ٹیلر 8 ہزار سے زائد ون ڈے رنز بنا چکے تھے، 45 رنز سے زائد کی اوسط سے ون ڈے رنز بنانے والے ٹیلر ورلڈ کپ کے 3 سال بعد ریٹائر ہوئے تاہم 2019 ورلڈ کپ ان کے کیرئیر کا آخری میگا ایونٹ تھا۔
دنیائے کرکٹ کی تمام ٹیموں کا جائزہ لیا جائے تو دفاعی چیمپئن آسٹریلیا کرکٹ ٹیم میں شامل نامور کرکٹرز ڈیوڈ وارنر 2023 کے ورلڈ کپ کے بعد ماضی ہونگے۔ اس لئے ان کا یہ آخری ورلڈ کپ ہو سکتا ہے ۔کیمرون وائٹ، جارج بیلی اور شان مارش بھی ماضی بن گئے ۔
جنوبی افریقہ ٹیم سے اے بی ڈی ویلیئرز ایک سال قبل اچانک ریٹائر ہو گئے تھے، دیگر کرکٹر ز میں ہاشم آملہ، جے پی ڈومینی، عمران طاہر، مورنی مورکل، ڈیل سٹین، فاف ڈوپلیسی وغیرہ کا آخری ایونٹ ثابت ہو ہوا۔ یہ تمام کھلاڑی بڑے قد کاٹھ کے ہیں، بے پناہ تجربہ اور وسیع سکلز رکھتے ہیں۔
سری لنکن ٹیم لاستھ ملنگا، اینجلو میتھیوز کو میگا ایونٹ میں نہیں دیکھ سکیں گے۔
کرکٹ ورلڈکپ کہانی،بیٹنگ،بائولنگ،فیلڈنگ،ٹیم ریکارڈز،ٹاپ بیٹرزوبائولرز،پلیئرز آف دی ایونٹس
میزبان انگلش کرکٹ ٹیم بھی کئی تجربہ کار وسینیئرز کے بغیر اس مرتبہ میدان میں اترے گی ۔ معین علی تاحال ہیں۔انگلینڈ کے گزشتہ ورلڈکپ کے فاتح کپتان اوئن مورگن شدید خوایش کے بعد بھی یہ ورلڈکپ 2023 نہیں کھیل سکے۔ایک سال قبل ریٹائر ہوگئے۔