بدترین رسوائی میلوں کی آڑ لےکر ٹرافی ٹورز، نیشنل ٹی 20 کہانیوں میں چھپ سکتی،بتایئے ذرا۔کرکٹ بریکنگ نیوز یہ ہے کہ ایک زمانہ گزرا ۔ بہت پرانی بات ہے، مشغولیت کے لیے میلے سجائے جاتے تھے۔ اصل معاملات سے توجہ ہٹانے کے لیے ثقافتی میلے،سپورٹس،اعضائے تھرتھراہٹ میلے ۔موسیقی میلے۔شاعری میلے۔میلوں کی اوٹ لی جاتی تھی اور وہ کوئی ہفتوں کیلئے نہیں بلکہ مہینوں وار ہوا کرتے تھے اور پھر وہ ایک علاقے سے دوسرے علاقے منتقل ہو جایا کرتے تھے۔ کہیں سالانہ کا عنوان ہوتا اور کہیں حکومتی مہربانی کا۔کیا پاکستان کرکٹ بورڈ بھی اسی لائن پر چلتا ہوا دکھائی دے رہا ہے؟ اور اس کی منیجمنٹ، کمیٹی اور کرکٹ ٹیم کے کوچز ان کا بھی کوئی پتہ نہیں۔ ایسے لگتا ہے جیسے آرڈر آتا ہے ،یہ کر لیں ۔اور کر لیا۔
یعنی کوئی سوچ سکتا تھا کہ ٹھیک دو سے3 ماہ قبل پاکستان کے ہیڈ کوچ عاقب جاوید ملتان میں بیٹھ کے ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز کے دوران سپن پچز،پالیسی کا دفاع کر رہے تھے اور بڑے دھڑلے سے اعلان کر رہے تھے ہم نے ایسے ہی کھیلنا ہے۔ ہوم کنڈیشن کیا ہوتی ہیں، ہوم ملک کو ایڈوانٹیج ہونا چاہیے، جیتنا چاہیے۔ ٹھیک ہو گیا جی، لیکن اس کے ٹھیک ایک ہفتے بعد انہوں نے جب چیمپیز ٹرافی کے اسکواڈ کا اعلان کیا تو 360 ڈگری کا یوٹرن لیا۔ پاکستان ہوم ٹیم ہونے کے باوجود بھی ایک ایسی ٹیم اناؤنس کر گیا جیسے ایم سی جی ، پرتھ،لارڈز میں یعنی جنوبی افریقہ کا دورہ ہے یا انگلینڈ کا یا آسٹریلیا میں ہم سیریز کھیلنے جا رہے ہیں۔ 360 ڈگری کا یو ٹرن تباہ کن تھا ،سپنرز غائب تھے۔پاکستان کی حالت تباہ ہو گئی اور اس کے بعد ہم 3 ملکی کپ اور چیمپئنز ٹرافی ہارے اور ٹی 20 سیریز میں تبدیلیاں ہو گئیں ۔
ہم 50 اوورز کا ایونٹ ہارے۔ٹی 20 ٹیم برباد سمجھ کر اس میں تبدیلیاں کردی گئیں ۔ایک چلتے سیٹ اپ کو برباد کر دیا گیا۔ اب لوگوں کو کہنا پڑا کہ ٹی 20 ورلڈکپ سال بعد ہے،اس کی تیاری ہے۔یہ کیسی تیاری ہے کہ کہنا پڑے گا سسر کی بنیاد پہ آنے والا نائب کپتان جو کل تک ٹیم میں نہیں تھا اس کی حالت،چارٹ اور پیمانہ کیاہے ۔کسی ایک میچ پر کسی کی پرفارمنس کا جائزہ لینا مشکل ہے لیکن یہ مجبوری ہے۔ پرانی بیماری ہے اور پاکستان کرکٹ بورڈ کی حالت یہ ہے کہ کہیں نیشنل ٹی 20 کپ سجایا ہوا ہے، ایک سے زائد شہروں میں۔ کہیں پی ایس ایل ٹرافی ٹور کا نیا سفر لگایا ہوا ہے اور کہیں ٹیم کی یہ حالت ہے۔
یہ حرکتیں ساری یہ بتاتی ہیں جیسے قوم کی توجہ کو بس اس طرف ہی رکھنا ہے۔ قوم کہیں اور متوجہ نہ ہو۔ میرا خیال ہے محسن نقوی اینڈ کمپنی کیلئے اس پر ایک ایوارڈ بنتا ہے۔ ویسے بھی پاکستان میں سورج کی روشنی ، چاند کی روشنی اور ستاروں کی روشنی میں کوئی ایوارڈ تھوڑا دیئے جاتے ہیں۔ یہاں تو ایوارڈوں کی قسمت کا فیصلہ کہیں اور سے اور کسی اور انداز میں ہوتا ہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم جو آج 91 رنز پر آؤٹ ہوکر کرائسٹ چرچ میں دو بدترین ریکارڈ قائم کر گئی۔ پہلا ریکارڈ پاکستان کو ہاگلے اوول کرائسٹ چرچ میں اب تک کھیلے گئے پانچ ٹی 20 انٹرنیشنل میں تین دو سے سبقت حاصل تھی ۔اس بدترین شکست نے تین تین سے نتیجہ برابر کر دیا ۔گویا اس گراؤنڈ پر پاکستان کی سبقت کا باب فنش ہوگیا۔ اسی گراؤنڈ میں پاکستان کم ترین سکور پر آؤٹ ہونے کا اپنا ہی ریکارڈ 92 سے بدتر کرگئی۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اصل مرض کہاں ہے۔ اس کی دوائی کیا ہے ۔یہاں ہو کیا رہا ہے۔ کہیں نیشنل ٹی 20 کا ہنگامہ رمضان المبارک میں رچایا جا رہا ہے۔ جہاں صف اول کے کھلاڑی دستیاب نہیں۔ یعنی آپ کی نیشنل ٹیم نیوزی لینڈ میں مصروف ہے اور جو ڈراپ کھلاڑی کیے گئے ہیں ان کو کھیلنے کا نہیں کہا گیا تو بابراعظم ، محمد رضوان اور دیگر نام نہیں ۔ایسے میں رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں ٹی 20 کپ میلے کے سجانے کا منصوبہ کس کا تھا ۔کیا تھا اور کیوں تھا۔ یہ بھی ایک سوال ہے منصوبہ سازوں سے۔اصل میں فیکٹری سازوں سے ۔
آپ نے محمد رضوان کو آرام دیا تھا تو اس کا اعلان کرنا چاہیے تھا ۔محمد رضوان ٹی 20 کرکٹ میں 45 کے قریب کی اوسط سے سکور کرنے والے دنیا میں چوتھے کھلاڑی ہیں صف اول کے. آپ انہیں کیسے ڈراپ کر سکتے ہیں ۔بابرعظم کی پرفارمنس پر تو بات ہو سکتی ہے ۔آپ انہیں مستقل بنیادوں پر ٹیم سے ڈراپ نہیں کر سکتے ۔اپ کے پاس پیچھے بچتا کیا ہے، تو یہ ابھی فوری فیصلہ کرنا پڑے گا ۔یہ آج پاکستان کے 10 کھلاڑی 91 کے اسکور پر آؤٹ ہوئے ہیں۔ ان کی شاٹ سلیکشن, ان کا انداز ایسا تھا کہ آپ کو کلب لیول کی کرکٹ بہتر معلوم ہوتی ۔ نیوزی لینڈ میں کمنٹیٹرز کے قہقہے گونج اٹھے۔ یہ بدترین رسوائی ہے۔ یہ بدترین شکست ہے، اس کو میلوں کی آڑ میں،کسی ٹرافی ٹورز کی کہانیوں میں نہیں چھپایا جا سکتا۔