لندن،ٹورنٹو،کابل:کرک اگین رپورٹ
Image ESPNcricinfo
افغان خواتین کرکٹرزطالبان کے خلاف پھٹ پڑیں،آئی سی سی سے مدد،بھارت میں میچ مانگ لئے۔افغانستان کی خواتین کرکٹرز نے طالبان کے خلاف آواز اٹھادی،ساتھ میں کرکٹ برادری اور گلوبل باڈی سے ممکنہ مدد بھی مانگی ہے۔اپنی کرکٹ کے لئے میچز کے انعقاد کی بھی درخواست کردی۔
یہ غیر معمولی آواز افغانستان کی ان کرکٹرز نے اٹھائی ہے جو گزشتہ سال اگست تک اپنے ملک میں تھیں،کنٹریکٹ لسٹ کا حصہ تھیں اور کابل میں اپنے تابناک مستقبل کا خواب دیکھ رہی تھیں۔
افغانستان میں گزشتہ سال طالبان حکومت دوبارہ آگئی تھی،8 ماہ بعد بھی خواتین کرکٹ کے مستقبل کا کوئی علم نہیں۔آئی سی سی نے شروع میں کرکٹ رکنیت معطل کرنے کی بات کی،اس کے بعد بننے والے ورکنگ گروپ،اس کی رپورٹس میں تاحال کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔گلوبل باڈی نے افغانستان کرکٹ رکنیت معطل کرنے کی بات تو کی ہے لیکن تاحال خاموشی ہے،اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ مارچ میں ہونے والے آئی سی سی اجلاس میں اس سال اگست تک خواتین کرکٹ کے لئے جامع پلان بنائے جانے کی یقین دہانی کروائی گئی تھی۔
ادھر طالبان کے اقتدار میں آتے ہی ملک سے کینیڈا فرار ہونے والی چند افغان کرکٹرز اب منظر عام پر آگئی ہیں،وہ اپنے ملک کی خواتین کرکٹ کے لئے امید بھی رکھتی ہیں،ساتھ میں خوف بھی ہے۔
ان میں سے ایک رویا صمیم ہیں۔وہ اگلے ماہ کینیڈا میں کلب کرکٹ کا ڈیبیو کریں گی۔29 سالہ اوپننگ بیٹر کہتی ہیں کہ ایک سال قبل میں افغانستان کی ان 25 کنٹریکٹ یافتہ پلیئرز میں تھی جو روزانہ 8 گھنٹے کی ٹریننگ کرتی تھیں۔ہمارا ایک میچ بھی شیڈول تھا،ہمارے پاس ہمارے ہیرو راشد خان بھی آئے تھے کہ اچانک حکومت بدل گئی،ہمیں وہاں کے اس وقت کے کرکٹ ڈائریکٹر نے کہا کہ اب آپ کا مستقبل روشن نہیں ہے،کہیں جاسکتی ہیں تو چلی جائیں۔صمیم نے اپنی 2 بہنوں کے ساتھ کینیڈا کے لئے پرواز پکڑلی۔
پاکستانی کھلاڑیوں کی عید کہاں اور کیسی
برطانیہ کے معروف ادارے ٹیلی گراف کے مطابق صمیم نے کینیڈا میں صفر کے ساتھ دوبارہ شروعات کیں۔انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ 25 کنٹریکٹ یافتہ پلیئرز میں سے زیادہ تر افغانستان سے نکل گئیں،آج دنیا کے مختلف کونوں میں بکھری کرکٹ کھیل رہی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق صمیم نے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل پر زوردیا ہے کہ وہ ہمارے لئے دنیا میں دوستانہ میچز کا انعقاد کرے،تاکہ اس سے عملی طور پر ہمارے ملک کی خواتین گیم کو تقویت ملے۔ان میچز میں جلاوطن پلیئرز کو شامل کیا جائے۔ہمیں بہت نقصان پہنچا ہے۔ہمیں مدد کی ضرورت ہے۔
صمیم نے کہا ہے کہ آئی سی سی صرف میچز ہی نہ دے بلکہ ہمارے لئےکوچز رکھے ،دنیا کو معلوم ہوسکے کہ ہم موجود ہیں۔حیران کن طور پر صمیم نے تجویز دی ہے کہ میچزوکوچنگ کے لئے آئی سی سی ہمیں دنیا سے اکٹھا کرکے بھارت میں جمع کرسکتی ہے۔ہم وہاں کھیلیں گے۔طالبان ہمیں افغانستان میں کھیلنے سے منع کرسکتے ہیں لیکن دنیا کے کسی بھی حصہ میں ہمیں کھیلنے سے روک نہیں سکتے۔
صمیم کے ساتھ ایک اور خاتون کھلاڑی سنگر ہیں،جو یہ کہتی ہیں کہ افغانستان کے مردوں کی ٹیم ہماری خوشیاں واپس لاسکتی ہے۔
آئی سی سی ورکنگ گروپ نے آئی سی سی بورڈ کو ملک میں کھیل کی صورتحال سے آگاہ کیا۔ گروپ کو افغان کرکٹ بورڈ کی طرف سے یقین دہانی ملی ہے کہ وہ جولائی میں آئی سی سی کی سالانہ کانفرنس میں خواتین کے کھیل کو ترقی دینے کے لیے ایک مکمل ایکشن پلان اور بجٹ پیش کریں گے۔
طالبان سے واقفیت رکھنے والے سمجھتے ہیں کہ خواتین کرکٹ مشکل ہے۔ گزشتہ اگست سے ملک میں خواتین کرکٹ کا کوئی علم نہیں ہے۔
سانگر کہتی ہیں کہ طالبان سے پہلے سب کچھ اچھا تھا – لڑکیاں اسکول جا رہی تھیں۔ اب انہیں اسکول جانے کی اجازت نہیں تو وہ کرکٹ کیسے کھیل سکتی ہیں؟ یہ ایک ڈراؤنا خواب ہے۔
صمیم اور سنگر کہتی ہیں کہ ہر ایک کی زندگی میں اپنے مقاصد اور خواہشات ہوتی ہیں۔ ہمارا یہ منصوبہ ہے کہ ایک دن افغانستان کے پاس خواتین کی ٹیم ہوگی اور ہم اس میں کھیلیں گی۔