عمران عثمانی کا خصوصی تجزیہ
آئی سی سی میں لین دین،اسٹیبلشمنٹ غالب،کرکٹ کونسل کو بھی عمران خان کی ضرورت۔ایک وقت تھا ،بہت پرانا،اس صدی کے آغاز سے قبل کا۔کرکٹ پر انگلینڈ اور آسٹریلیا کا ہولڈ تھا،یہ ممالک بھی انڈر دا بیلٹ فائر کرنےسے چوکتے نہیں تھے لیکن پھر بھی انہوں نے ایک اخلاق کا ظاہری معیار رکھاتھا،بھرم ہوتا تھا کہ ایک انٹرنیشنل کرکٹ کونسل ہے،اس کا ایک مرکزی آفس لندن میں ہے۔یہ الگ بات ہے کہ ویسٹ انڈیز اور پاکستان کے سپراسٹارز فاسٹ بائولرز کے خوف سے انہوں نے بائونسرز کی پابندیوں سمیت متعدد اقدامات اٹھائے لیکن پھر بھی کھل کر اتنا کچھ نہیں کیا ،جو آج جاری ہے۔
پھر وقت بڑھا،آئی سی سی ہیڈ کوارٹر دبئی منتقل ہوگیا۔آئی سی سی کو پہلے اکیلے آسٹریلیا اور پھر بھارت نے ساتھ مل کر مکمل ٹیک اوور کیا۔شروع میں کرکٹ ممالک کو سمجھ نہیں آئی لیکن گزشتہ ایک عشرے سے سب کچھ واضح ہے۔بگ تھری کی آواز بھی اب پرانی ہوگئی ہے۔اب تو کھلم کھلا ایسی کرکٹ اسٹیبلشمنٹ ہے،جس نے آزاد کرکٹ کا جنازہ نکال دیا ہے۔
پاکستان کے ایک کپتان عمران خان ہوا کرتے تھے،انہوں نے ویسٹ انڈیز،آسٹریلیا اور بھارت کے امپائرز کی بددیانتی کو اتنا زیادہ دیکھا کہ اپنے ملک میں نیوٹرل امپائرز کھڑے کردیئے۔بعد میں آئی سی سی کو یہ آئیڈیا قبول کرنا پڑا۔گویا آئی سی سی کو بھی ٹکر کاکوئی کپتان یا ٹکر کا کوئی ملک چاہیئے ہوتا ہے،بدقسمتی سے وہ آج نہیں ہے۔سابق پاکستانی کپتان عمران خان کسی اور محاذ پر کسی اور اسٹیبلشمنٹ اور کسی نام نہاد نیوٹرلز سے نبرد آزما ہیں،ان کی فائٹ،جنگ اور آواز سن کر کبھی کبھی لگتا ہے کہ کاش کرکٹ کو بھی اب ایسی ایک آواز اورفائٹ مل جائے۔
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل بری طرح اسٹیبلشمنٹ کےہاتھوں اغوا ہے۔اس کے نظارے ایک عشرے سے واضح ہیں،کووڈ کے سخت ایام میں بھی کمزور کرکٹ ممالک بلکتے رہے لیکن اس اسٹیبلشمنٹ نے ذرا بھی توجہ نہیں کی ہے۔کسی رکن ملک یا کسی ایک آواز نے کچھ کیا ہوتا تو کم سے کم اس کی راہ میں کچھ رکاوٹ ہوتی،اسے بھی کچھ خوف ہوتا لیکن جناب کہاں کسی میں کچھ مجال ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس اسٹیبلشمنٹ نے اگلے 4 سال پر بھی مکمل کنٹرول کرلیا ہے۔
آئی سی سی کے بڑے برمنگھم میں جمع ہیں،کل سے ایک اجلاس ہے،اس میں اگلے 4 سالہ ایف ٹی پی کو حتمی شکل دی جائے گی لیکن ساری تفصیلات آچکی ہیں۔پاکستان کرکٹ ٹیم اس وقت پوری دنیا کی کرکٹ ڈیمانڈ ہے لیکن آپ دیکھیں کہ اگلے 4 سال کا کیا کلینڈر سیٹ کیا گیا ہے،اس کی مکمل تفصیلات کے لئے نیچے موجود لنک پر کلک کریں۔
ہاتھ ہوگیا،آئی سی سی ایف ٹی پی میں پاکستان کے کم میچز
یہاں صرف یہ عرض کرتا چلوں کہ بھارت نے آسٹریلیا اور انگلینڈ جیسے ممالک کے ساتھ 4 سال میں 2 ،2 باہمی ٹیسٹ سیریز رکھی ہیں،وہ بھی 5،5 میچز کی۔اسی طرح باقی مصروفیات بھی ایسی ہیں۔38 ٹیسٹ میچ لے لئے۔انگلینڈ نے 42 اورآسٹریلیا نے 41 ٹیسٹ میچز سیٹ کئے۔نیوزی لینڈ،بنگلہ دیش اور ویسٹ انڈیز 32 سے 35 ٹیسٹ میچز لے گئے ہیں۔ان کے مجموعی میچز بھی 150 سے کہیں زائد ہیں لیکن ایک پاکستان ہے،ٹیسٹ میچز 29 سے کم ،مجموعی میچز بھی کم۔ساتھ میں آسٹریلیا اور انگلینڈ سے غیر متوازن سیریز۔آسٹریلیا کا دورہ پاکستان شامل نہیں۔گویا ایسی سیریز کہ جس سے ریونیو کم ہو،کمائی نہ ہوسکے۔
دوسرا اس اسٹیبلشمنٹ نے اپنی اپنی لیگز کے لئے لین دین کیا ہے۔بھارت نے آئی پی ایل کے لئے آئی سی سی ونڈو 75 روزہ لے لی ہے۔اس کے بدلہ میں انگلینڈ دی ہنڈرڈ کے لئے 21 روزہ اور آسٹریلیا بگ بیش کے لئے 28 روزہ ونڈو لے رہا ہے،اس عرصہ میں کوئی ٹیم کسی ملک کے خلاف کوئی میچ نہیں کھیل سکے گی۔پی ایس ایل سمیت باقی کسی لیگ کے لئے کوئی ونڈو نہیں ہوگی۔ایک اور بھی لین دین ہے۔بھارت پہلی بار اپنے کھلاڑیوں کو ملک سے باہر ٹی 20 لیگ کھیلنے کی اجازت دینے والا ہے۔اس طرح یہ کھلاڑی آسٹریلیا اور انگلینڈ میں ہونگے۔یہ ونڈوز کی بندر بانٹ اور لین دین کے شاندار نتائج ہیں۔
ایف ٹی پی پر رمیز برہم،3 ملکی کپ ڈیماند،ایک اور کڑی شرط
آئی سی سی پر انترنیشنل اسٹیبلشمنٹ قابض ہے،ٹارگٹ آپریشن ہیں۔کہنے کو یہ نیوٹرل ادارہ ہے لیکن ایسا نہیں ہے،جہاں اسٹیبلشمنٹ آجائے،وہاں کچھ نیوٹرل نہیں رہتا،آپ دیکھنا کہ رمیز راجہ کے 4 ملکی کپ پلان سمیت تمام منصوبے کیسے خاک میں ملیں گے اور ان کی آواز کون سنے گا۔آج اس امر کی ضرورت ہے کہ آئی سی سی کو واقعی نیوترل شپ ملے،ایک وقت آگیا ہے کہ کرکٹ کے رکن ممالک جمع ہوں،اپنی ووٹ پاور کو جان لیں،سمجھ لیں،اس کا استعمال کریں۔پھر یہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہونے پر مجبور ہوجائے گی۔یہ مجبوری کیسے ہوگی،اس کی حالیہ مثال سامنے ہے۔پاکستان کے حالیہ حالات دیکھ لیں،دبئی سے اپنی آنکھیں لاہور کی جانب کرلیں،انہیں دکاھی دے گا کہ کہ یہ سب کیسے ہوتا ہے۔