اسلام آباد،کرک اگین رپورٹ
قطعی بات!حرف آخر!نیوٹرل پر تو ریویوز کی تلوار ہے۔وہ تو سنگل ریویو کی مار ہیں،ایک ریویو ہی کافی ہوتا ہے،یہاں تو 2، 2 اور 3،3 ریویوز ہوتے ہیں۔
انٹرنیشنل کرکٹ کو نیوٹرل کا تصور کس نے دیا تھا؟آئی سی سی کو اس طرف لانے پر مجبور کس نے کیا تھا۔کیا پی سی بی اور کیا آئی سی سی؟ اس جیسے کپتان کو کس کی اجازت درکار تھی۔رسمی کارروائی کے لئے کاغذی رسم نبھائی گئی ہوگی۔
پاکستان نے 80 کے عشرے کے آخر میں بھارت کے خلاف ہوم سیریز میں نیوٹرل امپائرز کھڑے کردیئے۔ایک کے بعد ایک ٹیسٹ میچ ڈرا ہوا۔سیریز برابر ہوگئی۔دونوں ٹیمیں مطمئن ہوگئیں۔یوں کرکٹ گلوبل باڈی کو ایک قابل عمل تصور مل گیا۔90 کے عشرے کے آوائل میں آئی سی سی نے اسے قبول کرلیا،پہلے قسطوں میں،پھر مکمل طور پر۔یہ کریڈٹ صرف عمران خان کو جاتا ہے۔80 کے عشرے کے پورے دور میں پاکستان دنیا کی نمبر ون ٹیم بن گئی تھی۔ویسٹ انڈیز کو ویسٹ انڈیز،آسٹریلیا کو آسٹریلیا اوربھارت کو بھارت میں ٹف ٹائم دیا۔پاکستان انگلینڈ میں جیتا۔بھارت میں جیتا۔آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز نے ایک نہیں 2،2 بار امپائرزکی مدد سے سیریز بچالی۔پاکستان جیت نہ سکا۔یوں عمران خان نے بطور پاکستانی کپتان یہ آئیڈیا پیش کیاعمل کرکے دکھایا۔نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔
اگلی بات یہ ہے کہ آئی سی سی نے محض نیوٹرل کو کافی نہیں جانا۔وقت گزرا۔جدید تیکنالوجی آئی۔ریویو سسٹم متعارف کروادیا گیا۔اس طرح نیوٹرل امپائرز بھی چیک ایند بیلنس میں جکڑے گئے۔کرکٹ اب اسی پر کھیلی جارہی ہے۔آئی سی سی اور تمام رکن ممالک نے گویا تسلیم کیا کہ نیوٹرل بد دیانت اگر نہیں ہوسکتے تو غلط ہوسکتے ہیں۔ان سے سنگین غلطیاں سرزد ہوسکتی ہیں۔بعض کیسز میں نیوٹرل امپائرز ذاتی عناد بھی لے آتے ہیں۔آسٹریلیا کے سابق امپائر ڈیرل ہیئر کا انضمام اور پاکستان سے عناد 2006 کے اوول ٹیسٹ کی صورت میں تاریخ کا تلخ حصہ ہے۔ایسے واقعات کا عکس اب بھی کبھی کبھار مخصوص ممالک میں دکھائی دیتا ہے۔
یہ بھی دیکھیں:وسیم اکرم کی 56 سال کی عمر میں ففٹی،وکٹیں،ایتھرٹن کا بولڈ مقبول
حاصل خلاصہ یہ ہے آئی سی سی کو نیوٹرل کا تصور گزشتہ صدی کے عظیم کپتان عمران خان نے دیا،آئی سی سی نےا سے قبول کیا ،پھر نیوٹرل کو فرشتہ نہیں،انسان ہی جانا۔ان پر چیک اینڈ بیلنس رکھ دیا۔آپ ریویو،ہاٹ سپاٹ،ہاک آئی اور تمام تیکنالوجی سے یہ سمجھ سکتے ہیں۔نتیجہ میں جب بھی کوئی کپتان یا ٹیم سمجھے کہ نیوٹرل کا فیصلہ غلط ہے،میرٹ پر نہیں۔وہ ایک اشارہ کرتے ہیں۔نیوٹرل اس پر عمل کا پابند،ریویو نیوٹرل کو غلط ثابت کردے تو نیوٹرل امپائر خندہ پیشانی سےاپنے دونوں بازو موڑتا ہے،کندھوں کی جانب ایسے ہاتھ لگاتا ہے کہ جیسے غلطی کو قبول کررہا ہو۔پھر اپنےدیئے گئے فیصلے کو بدل دیتا ہے۔
اب آتے ہیں آج کے عمران خان اور آج کے ان کے نیوٹرل نعرے پر
چند ماہ قبل پاکستانی سیاست میں اس وقت ایک چونکادینے والی بات ہوئی،جب ملکی سیاست میں اہم کردار اداکرنے والے ادارے کے ترجمان نے دعویٰ کیا کہ ہم موجودہ حالات میں نیوٹرل ہیں۔اس پر عمران خان نے اس کے فوری بعد کی اپنی تقریروں میں بارہا کہا کہ نیوٹرل جانور ہوتے ہیں۔
یہاں سے باریک بینی سے دیکھنے والوں کو اندازاہوگیا تھا کہ حالات خراب ہیں۔پیجز پھٹ چکے ہیں۔اس کے بعد جو ہوا۔وہ تاریخ ہے اور تاریخ اپنے آپ مرتب ہورہی ہوتی ہے،اسے وقتی طور پر تو مسخ کیا جاسکتا ہے لیکن ہر گزرتے وقت اور ہر آنے والے ٹھوس ثبوت تاریخ دان کو مدد فراہم کرتے ہیں۔
پاکستان کی پوری تاریخ ہے،سب جانتے ہیں کہ کہاں سے کیا اور کیسے ہوتا ہے،اس لئے یہ بات یوں عجب تھی کہ اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نیوٹرل اور نیوٹرل کی بات کررہے تھے،میٹھے انداز میں تنقید بھی کررہے تھے۔سوال ہوتا ہے کہ ایک ایسا کپتان جس نے کرکٹ کی صدی پرانی ہسٹری بدل ڈالی۔نیوٹرل کو لائے۔ہمیشہ کے لئے قابل عزت بنے۔تو انہیں پاکستانی ادارے کے اس اعلان پر کہ
وہ تحریک عدم اعتماد اور وزیر اعظم عمران خان کے درمیان نیوٹرل رہیں گے،خوش ہونا چاہئے تھا۔
عمران خان کو اسے ویلکم کہنا چاہئے تھا۔شروع میں عجب لگا لیکن جب حالات سامنے آئے،جوں جوں وقت گزرا،گتھیاں سلجھتی گئیں۔قوم کو سمجھ آگئی۔دنیا نے جان لیا کہ وہ نیوٹرل دوسرےمعنوں میں بنے تھے۔
آئی سی سی کی لائن دیکھی جائے تو ایسے نیوٹرلز پر تو چیک اینڈ بیلنس ہونا چاہئے۔ایسے نیوٹرل انسان ہیں ،غلطیاں کرسکتے ہیں۔کہیں نہ کہیں اور کوئی نہ کوئی بددیانت یا ذاتی پرخاش میں آسکتا ہے تو ایسے نیوٹرلز کی چیکنگ ہونی چاہئے۔ان پر بھی ریویوز کی تلوار ہونی چاہئے۔ان کے بھی ہاٹ سپاٹ چیک ہونے چاہئیں،ان پر بھی ہائی آئی لگنی چاہئے۔یہ کون لگائے گا؟
انگلینڈ 498 رنزکے بعد آج سہم گیا،کپتان کا مسلسل دوسرا صفر
کرکٹ میں تو ریکارڈنگ سسٹم ہے۔جدید تیکنالوجی کے رموز ہیں۔ریویوز ہیں،چینلج کرنے کی آپشنز ہیں،فیصلے بدلنے کی طاقت ہے لیکن یہاں کو کون چیلنج کرے گا،ان کے فیصلوں پر کون ریویو لےسکے گا۔کون ہائی آنکھ رکھے گا۔کون ان کو چیلنج کرےگا۔پھر کون سا پیمانہ ہوگا کہ نیوٹرل کے فیصلے واقعی نیوٹرل ہی لگیں؟
آج20 جون 2022 کی شب مختلف ٹی وی چینلز پر جو تبصرے جاری ہیں،خاص کر نجی چینل پر مہر بخاری کے ساتھ عارف حمید بھٹی اور کاشف عباسی نے جو انکشافات کئے ہیں،اس کے بعد ان کے نیوٹرل ہونے پر سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔نیوٹرل ہونا ایک اچھی بات ہے لیکن 360 ڈگری کا یوٹرن (اگر ہوتو )کسے قبول ہوسکتا ہے۔آئی سی سی کو بھی قبول نہیں ۔کرکٹ کو بھی قبول نہیں۔
آج سوشل میڈیا پر چلتے تبصرے،وائرل ہوتی تصاویر،چنگاڑھتے بینرز کچھ اور نوید دے رہے ہیں۔کچھ اور بتارہے ہیں۔سب اعلامیے یہ بتارہے ہیں کہ
عمران خان کی کرکٹ میں نیوٹرل کی پکار درست تھی،آئی سی سی کا اسے قبول کرنا درست تھا۔اسی طرح ان نیوٹرلز پر ریویوز کا چیک اینڈ بیلنس رکھنا بھی ضروری تھا۔اسی طرح قومی سیاست میں نیوٹرل کا تصور بھی درست ہے لیکن ان پر چیک اینڈ بیلنس بھی ضروری ہے۔سوال یہ ہے کہ یہ ریویوز کس کے پاس ہونگے،اس کو چیک اینڈ بیلنس کرنے کا اختیار کس کا ہوگا۔
اس کا جواب ہے کسی کے پاس
سوشل میڈیا،ڈیجیٹل میڈیا،نیشنل،انٹرنیشنل میڈیا۔سب سے بڑھ کر وہ شعور جو ہر ایک کے ذہن نے پکڑ لیا ہے۔وہ ایک ریویو نہیں،ان گنت ریویوز لے چکے ہیں،یہ ریویوز لئے جاچکے ہیں۔تھرڈ امپائر سے رجوع ہوچکا ہے۔بس لائٹ جلنے کی دیر ہے،سگنل آنے کا انتظار ہے۔یہ الگ بات ہے کہ یہ انتظار ہی رہ جائے۔
مندرجہ بالا مضمون کرکٹ کی زبان میں لکھا گیا ہے،اسے کرکٹ تناظر میں دیکھیں تو آسٹریلیا ،بھارت اور انگلینڈ جیسی ٹیمیں ایسے حالات میں اپنے کھلاڑی میدان کیا بلکہ اس ملک سے ہی باہر لے جائیں،میچ کیا اور سیریز کیا،دورہ ہی منسوخ کردیں۔نیوٹرل کے فیصلے پر جب ریویوز لے لئے جائیں توفیصلہ آنا ضروری ہوتا ہے۔اس سے قبل امپائرز اور کپتانوں میں مشاورت یا پیغام رسانی نہیں ہوا کرتی۔پپیغام رسانی شروع ہوجائے تو فیصلے تبدیل ہوجایا کرتے ہیں۔
انگلینڈ کب پاکستان اور کہاں میچز کھیلےگا،شیڈول تیار،اہم اجلاس کی تفصیلات