PHOTO: PCB
کرک اگین کا خاص تبصرہ
پاکستان کرکٹ بورڈ میں تبدیلی کا عمل قریب مکمل ہوا،اب پیچھے کیا بچا ہے۔سب کو پتا ہے۔ہمارے پیارے اور ہمارا قومی میڈیا اس پر لب کشائی کرتے شاید ڈرتا ہے،یا پھرکچھ اور وجہ ہوتی ہے۔اہم مسئلہ جسے بھی تھا،وہ سابق چیئرمین پی سی بی احسان مانی سے تھا ۔وہ چلے گئے تو پھر توپ خانے جیسا مسئلہ وسیم خان سے پڑ گیا۔پی سی بی چیف ایگزیکٹو وسیم خان بھی پاکستانی میڈیا سے ناخوش تھے اور میڈیا ان سے ناراض تھا۔تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے،اس لئے نیوٹرل بنیادوں پر کسی ایک کے بارے میں حتمی منفی رائے قائم کرنا غلط ہوگا۔
بدھ 29 ستمبر 2021 کو وسیم خان نے پی سی بی چیف کی حیثیت سے استعفیٰ دے دیا۔پاکستان کرکٹ بورڈ کی گورننگ باڈی نے اسے 4 گھنٹوں میں منظور کر لیا۔اس طرح وسیم خان قصہ پارینہ ہوئے۔وسیم خان نے جنوری 2019 میں پی سی بی میں قدم رکھا تھا۔انگلینڈ میں مختلف کائونٹیز کے لئے کھیلنے والے وسیم خان اس وقت وہاں کی انتظامی ٹیم کا حصہ تھے،پاکستانی نژاد وسیم خان ملک کی محبت اور کرکٹ میں بہت کچھ نیا کرنے کا مشن لئے یہاں پہنچ گئے۔ان کا پیکج کیا تھا؟کتنا تھا ؟کیوں تھا۔یہ ان کا مسئلہ نہیں تھا،یہ ان کولانے والوں کا ایشو تھا۔اب یاد کریں کہ انہیں لانے والوں میں اس وقت پاکستان کے سابق کپتان وسیم اکرم،موجودہ چیئرمین رمیز راجہ کی رائے یا پشت پناہی کسی نہ کسی شکل میں موجود تھی۔ہمارے قومی میڈیا کے بعض حصوں نے ان کا استقبال ایسے کیا جیسا کہ کوئی دشمن پاکستان کرکٹ میں آگیا ہو۔کبھی تنخواہ کی بات تو کبھی غیر ملکی ہونے کا طعنہ،کبھی کیا اور کبھی کیا۔ایسے میں وسیم خان کی جانب سے رد عمل آنا فطری عمل تھا۔رہی سہی کسر جاوید میاں داد نے پوری کردی،جب ایک بارانہوں نے احسان مانی اور وسیم خان دونوں کو بری طرح لپیٹ ڈالا۔خیر وقت گزرتا گیا۔وسیم خان پاکستان کے ڈومیسٹک کرکٹ سسٹم میں تبدیلی کے مشن سمیت انٹر نیشنل کرکٹ کو پاکستان لانے میں پیش پیش تھے۔
احسان مانی کی دوبارہ تقرری جب ممکن نہیں ہوسکی تو پھر وسیم خان کا مستقبل بھی تاریک ہوگیا تھا۔نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کی ٹیمیں اگر پاکستان کا دورہ کرتیں تو شاید یہ وقت اتنا جلد نہ آتا اور وسیم خان اپنے باقی ماندہ 4 ماہ بھی نکال جاتے۔بظاہر یہ بتایا گیا ہے کہ اختیارات میں کمی کے باعث وسیم خان نے استعفیٰ دیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ان کی رخصتی کا فیصلہ بھی تب ہی ہوگیا تھا جب احسان مانی کو نو مور کہدیا گیا تھا۔
وسیم خان نے پاکستان کرکٹ کے لئے کیا کیا،کیسے کیا اور کتنا اچھا کیا،اس کی تعریف کرنا سب کے لئے بہت مشکل ہوگا لیکن اس پر تنقید ہر جانب سے کی جائے گی،طویل ترین مضامین بھی ہونگے،چھوٹے موٹے چٹکلے بھی ہونگے،طنز بھی ہونگے اور اخلاقی گراوٹ سے بھر پور تبصرے بھی کئے جائییں گے۔جانے والوں کے لئے کیا ایسا کرنا ٹھیک ہے؟ہیڈ کوچ مصباح الحق اور بائولنگ کوچ وقار یونس بھی چلے گئے،ان کے لئے بھی کیا اتنی نفرت دکھائی گئی ہے؟
وسیم خان اگر اتنے ہی ناپسندیدہ تھے،پاکستان کرکٹ کے لئے اتنے ہی برے تھے،تمام تباہی کے مرکزی کردار بھی اگر وہی تھے تو پھر سوال یہ ہے کہ ان کو لانےوالے تو ان سے بھی بڑے مجرم ہوئے،ان کو لانے کی حمایت کرنے اور اس میں کسی نہ کسی شکل میں کردار ادا کرنے والے بھی ویسے بلکہ ان سے زیادہ غلط ہوئے،انہیں کیسے بھلایا جاسکتا ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمیں کسی کو نہ ویلکم کرنا آیا اور نہ خدا حافظ کہنا۔یہی وسیم خان چند ماہ قبل اسی حوالہ سے انگلینڈ سے بیٹھے یہ کہہ رہے تھے کہ میری پوری فیملی ایسی باتیں دیکھ اور سن کر پریشا ن ہوجاتی ہے،کسی روز اب وہ پھر بیٹھے ایسا ہی کوئی شکوہ نہ کر رہے ہوں تو کیا یہ مناسب ہوگا؟
پی سی بی چیئرمین رمیز راجہ نے وسیم خان کو خراج تحسین پیش کرکے رخصت کیا ہے،ان کی قائدانہ صلاحیتوں کا اعتراف کیا ہے،دستور بھی یہی ہے اور طریقہ بھی یہی۔تنقید کرنے یا پرانے گڑھے مردے کھودنے سے کیا سب ٹھیک ہوجائے گا۔ہمیں وسیم خان کو الوداع اچھے انداز میں کرنا چاہئے۔یہ ممکن ہے کہ وہ جس نیت سے کام کرنا چاہ رہے ہوں،وہ ٹھیک ہو،آگے نتائج جلدی یا ویسے نہ ملے ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ پی سی بی میں عشروں سے موجود ایک لابی نے انہیں ٹریپ کیا ہو ورنہ وسیم خان کا ذاتی ایجنڈا کیا ہوسکتا تھا۔