کراچی،کرک اگین رپورٹ
کرک اگین اس سیریز کے آغاز سے ہی مسلسل لکھ رہا ہے کہ نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں آسٹریلیا پاکستان کے خلاف کبھی جیت ہی نہیں سکا،متعدد بار ایسا ہوا کہ وہ جیت کے قریب آیا،ہارا یا میچ ڈرا ہوا۔گزشتہ روز بھی لکھا تھا کہ قومی کھلاڑی ہمت کریں تو میچ بچاسکتے ہیں،اس کی سپورٹ میں نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں پاک آسٹریلیا میچزکی تاریخ پیش کی تھی۔چنانچہ میچ کے چوتھے روز پاکستان نے جس انداز میں قریب 3 سیشنز کھیل کر دن گزارا ہے،اس سے امید بندھی ہے کہ اسٹیڈیم کی تاریخ بھ پاکستان کی مددگار ہوسکتی ہے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ 506 اسکور کا ہدف ہے۔پاکستان نے جواب میں 2 وکٹ پر192 اسکور بنالئے ہیںْ314 اسکور مزید بنانے ہین۔اہم بات یہ ہے کہ چوتھے روز پاکستان نے جیت کے لئے کوئی پیش قدمی نہیں کی ہے۔5 ویں روز بھی پہلی ترجیح ڈرا ہوگی،وکٹیں اسی طرح محفوظ رہیں تو شاید جیت کی کوشش کی جائے جو کہ محال سی بات لگتی ہے۔
سٹیون سمتھ بابر اعظم کی وجہ سے بال نوچنے لگے،پاکستانی کپتان کی سنچری،امیدیں زندہ
عام طور پر ایسی کنڈیشنز میں چوتھی اننگ کھیلنے والی ٹیم کا بچنا مشکل سمجھا جاتا ہے لیکن ہم یہاں ماضی میں پاکستان اور آسٹریلیا کے کراچی کےا ن میچز کے آخری روز کے کھیل کی جھلک پیش کریں گے کہ جب 4 دن کےا ختتام پر شکست کے سائے پاکستان پر گہرے ہورہے تھے،اس کےباوجود نیشنل اسٹیڈیم آسٹریلیا کے سامنے سرنگوں نہیں ہوا۔
اس سلسلہ میں 1959 کے ٹیسٹ کا ذکر بنتا ہے۔چوتھے روز کے اختتام پر پاکستان نے 5 وکٹیں 104 پر گنوادی تھیں،یہ دوسری اننگ تھی،بے شک پہلی اننگ میں اسے 30 رنز کی معمولی سبقت حاصل تھی لیکن آدھی ٹیم باہر ہوچکی تھی،5 واں روز شروع ہوا۔امریکی صدر اسی میچ کے اسی روز نیشنل اسٹیڈیم کراچی میچ دیکھنے آئے تھے۔اکیلے حنیف محمد نے 101 کی اننگ کھیل کر 5 ویں روز کے 2 سیشن گزار ڈالے۔ٹیم نے 194 رنز 8 وکٹ پر اننگ ڈکلیئر کی،آسٹریلیا کو جیت کے لئے 225 رنزکا ہدف ملا۔33 اوورز کے کھیل میں یہ ممکن نہ تھا۔میچ ڈرا رہا۔اس طرح بظاہر یہ ڈرا میچ مشکل تھا۔
کراچی میں ہمیشہ ناکام رہنے والا آسٹریلیا اس بار بھی نامراد ہوسکتا،پاکستان کو کیسی مدد حاصل
اس سلسلہ میں 1994 کا ٹیسٹ یادگار تھا۔چوتھے روز کے خاتمہ پر پاکستان 155 رنزپر 3 وکٹ گنواچکا تھا۔314 رنزکا ہدف تھا،آخری روز شروع ہوا تو آسٹریلیا کا غلبہ تھا،اس میں مزید شدت یوں آگئی کہ اگلے 29 رنز میں مزید 4 وکٹیں گرگئیں،پاکستان 7 وکٹ پر 184 تک ہی پہنچ پایا تھا،پھر راشد لطیف کے 35 اورا نضمام کے 58 رنز،انضی اورمشتاق کی آخری وکٹ پر 57 رنزکی شراکت نے پاکستا ن کو ہارا ہوا میچ ایک وکٹ سے جتوادیا۔حد تو یہ ہوگئی تھی کہ 10 ویں وکٹ کی شراکت 2 رنز پہلے ہی ٹوٹ جاتی اگر این ہیلی اسٹمپ نہ چھوڑتے۔یوں اس روز یہ یقین غالب ہوا کہ آسٹریلیا کی قسمت میں نیشنل اسٹیڈیم فتح کرنا ہے ہی نہیں ہے۔
نیشنل اسٹیڈیم کراچی،دوسرا ٹیسٹ بابر اعظم کے لئے کڑا امتحان،پاکستان کبھی نہیں ہارا
اس کے 4 برس بعد 1998 کے کراچی ٹیسٹ کے چوتھے روز کے خاتمہ پر390 پر دوسری اننگ میں آئوٹ ہوگیا تھا،پاکستان کو جیت کے لئے 419 رنزکا ہدف ملا تھا،پورادن باقی تھا،آخری روز اس کی26 اوورز میں 75 پر 4 وکٹیں گرگئی تھیں۔ایسے میں 70 اوورز باقی تھے،ٹاپ آرڈرز آئوٹ تھی۔آسٹریلیا ٹاپ آرڈر اڑانے،اچھے بائولرز رکھنے کے باوجود کچھ نہ کرسکا۔اعجاز احمد نے اس روز ناقابل شکست سنچری جڑی،معین خان نے 75 کی اننگ کھیلی،پاکستان نے 5 وکٹ پر262 اسکور کے ساتھ میچ ڈرا کردیا۔
ان 3 میچز میں سے 2 ایسے تھے جب پاکستان یقینی شکست کے منہ میں تھا،ایک ڈرا کھیل لیا،ایک جیت لیا۔آج 2022 میں بھی صورتحال اتنی ہی خراب ہے۔314 اسکور باقی ہیں،اس کا سوچنا بھی فی الحال محال ہوگا۔8 وکٹیں ہاتھوں میں ہیں،بابر اعظم سنچری کے ساتھ وکٹ پر موجود ہیں۔عبد اللہ شفیق تھری فیگر اننگ کی جانب رواں دواں ہیں۔کل بھی لکھا تھا کہ ڈبل سنچری اور ٹرپل سنچری ایسے ہی مواقع پر جڑی جاتی ہیں،تاریخ کا بڑا چیپٹر بنتی ہیں۔کراچی کی تاریخ پیچھے ہے۔یہاں 5 ویں روز بھی انہونی نہیں ہوتی کہ بائولرز کو کوئی مدد ،ل جائے،اس لئے پاکستانی ٹیم ہمت پکڑے،میچ ڈرا ہوسکتا ہے۔محمد رضوان اور فواد عالم یا فہیم اشرف بڑا کریکٹر بن سکتے ہیں۔
سابقہ روایات کے مطابق ممکن ہے کہ 5 ویں روز کے پہلے سیشن میبن پاکستان 3 نقصان اٹھالے،اس کے بعد کی جوڑی چائے کے بعد تک کیا آخر تک کھیل سکتی ہے۔ہمت کرنی ہوگی ،تاریخ پیچھے ہے۔۔نیشنل اسٹیڈیم کی وسیع فیلڈ ایک بار پھر پاکستان کو اپنی آغوش میں لینے کو ہے۔