دبئی،کرک اگین رپورٹ
پاکستان اور بھارت کے میچ سے قبل کپتانوں کی گفتگو اور میڈیا کا مثبت انداز نوٹ کئے جانے والا ہے۔ایسا پہلے بہت کم ہوا کرتا تھا،آہ گزشتہ سال کے2021 ورلڈ ٹی20 کو بھی ذہن میں رکھ لیں،تب بھی اتنا نہیں تھا،اس سے قبل تو تصور بھی نہیں تھا،جب کھلے عام کھلاڑی ایک دوسرے سے گھلے اور ملے ہوں۔آج معاملہ کافی آگے ہے۔
مثال کے طور پر ہفتہ کو مختلف انٹرویوز میں ویرات کوہلی نے بابر اعظم کی کھل کر تعریف کی،موجودہ وقت کا نمبر ون بیٹر تسلیم کیا ہے،ایک ایک کا نام لیا گیا ہے۔اسی طرح پاکستانی کپتان بابر اعظم نے بھی کوہلی کے لئے لمبی باتیں کیں،ان کی فارم بحالی کی خواہش ظاہر کی۔کہیں شاہین آفریدی ڈسکس ہورہا ہے تو کہیں جسپریت بمراہ۔بھارتی کپتان روہت شرما نے تو یہاں تک بول دیا کہ پاکستان جاکربھی کھیل لیں گے۔سوال یہ ہے کہ یہ تبدیلی کسیے ہوئی ہے۔
اس کا سادہ ساجواب یہ ہے کہ گزشتہ سال ستمبر تک اس کا تصور بھی نہ تھا،خاص کر جب انگلینڈ اور نیوزی لینڈ نے اپنے پاکستانی دورے ختم کردیئے۔اس کے ایک ماہ بعد جب ورلڈ ٹی 20 ہورہا تھا،تب ہی فیصلہ کیا جاچکا تھا کہ آسٹریلیا کی ٹیم پاکستان آئے گی،ساتھ میں نیوزی لینڈ اور انگلینڈ بھی دورہ کریں گے۔اکتوبر 2021 سے مارچ 2022 کے درمیان 6 ماہ کا وقت تھا مگر کچھ فصلے ہوچکے تھے،کچھ کو یقین دہانی کروادی گئی تھی۔نتیجہ میں آسٹریلیا ٹیم پاکستان آئی اور اس کے بعد قومی سطح پر وہ کچھ کردیاگیا جس کا مطالبہ تھا۔
فاروقی نے لنکا ڈھادی،ایشیا کپ میں افغانستان کا فائنل ٹچ باقی
اب پاکستان اور بھارت کے کرکٹ روابط میں یہ خوشگوار تبدیلی اسی سلسلہ کی کڑی ہے جو فروری 2021 میں سوچا گیا تھا۔پاکستان اور بھارت کی کرکٹ بحالی کی باتیں ہوئی تھیں لیکن اس میں جو ایک شرط رکھنے والی شخصیت تھی،وہ اب نہیں ہے۔ایسے میں ظاہری رویہ بہتر ہونا لازمی امر تھا لیکن باہمی سیریز کی منظوری دے کر اس کے خواب دیکھنے والوں کی راہ میں اب بھی بڑی رکاوٹیں موجود ہیں۔
ایسی رکاوٹ جس کا تصور بھی نہ تھا،ایسی کاٹ جو سوچی نہیں گئی تھی،وہ اب بھی چیلنج ہے۔اچھا ہوگا ک پاک بھارت باہمی کرکٹ سیریز کی بحالی کا فیصلہ بھی ہم کسی عدالت سے لے لیں