رپورٹ : عمران عثمانی
پاکستان کرکٹ کی تاریخ کے وہ 5 پلیئرز جنہوں نے پاکستان کا ڈی این اےتبدیل کردیا،5 گریٹ کھلاڑیوں نے پاکستان کرکٹ کی تاریخ کا رخ بدل ڈالا،میں نے ان کی گریٹنس بتائوں گا،ساتھ میں ڈریسنگ روم کے وہ لمحات شیئر کروں گا جو اب تک کسی نے نہیں کئے ہیں،یہ دعویٰ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رمیز راجہ نے کیا ہے،پی سی بی چیئرمین رمیز راجہ نے 28 دسمبر 2021 کو اپنے آفیشل یوٹیوب چینل پر یہ سب کیا۔اس سلسلے کی پہلی کڑی پیش کی جو کرکٹ فینز کے لئے حاضر ہے۔کرک اگین کا ماننا ہے کہ پی سی بی چیئرمین نے اس موقع پر اتنے بڑے پلیئرز کو لے کر اتنے حسین لمحات کو ایسے ہی شیئر نہیں کیا ہے،اس میں بابر اعظم سمیت سب کھلاڑیوں کے لئے ایک سبق ہے۔ایک کوچنگ ہے۔ایک پیغام ہے کہ پاکستان کو بلندیوں پر اگر لے جانا ہے تو ان کی تقلید کرنا ہوگی۔رمیزراجہ نے 5 پلیئرز میں عمران خان،جاوید میاں داد،وسیم اکرم ,عبد القادر اور انضمام الحق کا انتخاب کیا ہے۔پہلا انتخاب جاوید میاں داد ہیں۔
رمیز راجہ نے جاوید میاں داد کےا لفاظ بھی ڈالے۔انہوں نے بتایا ہے کہ میں لڑتا تھا،میں فائٹ کرتا تھا،کرکٹ میں کوئی ویسا نہیں بن سکتا لیکن اس جیسا بن سکتے ہو۔
رمیز راجہ نے بتایا ہے کہ جاوید میاں داد ایک ہی تھے،منفرد تھے،یونیک تھے،کیا مقام بنایا ہے جاوید میاں داد نے پاکستان کرکٹ کی تاریخ میں۔سنہرا کھلاڑی،سنہرا دور۔پہلے پاکستانی بیٹر بنے جن کی ایوریج پہلے ٹیسٹ سے لے کر 124 ویں میچ تک 50 سے زائد کی اوسط رکھی،کمال تھا۔دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ لڑکر کھیلتے تھے،پنگے کرکے سامنے آتے تھے، پنگا،اڑی لے کر کھیلا کرتے تھے۔کرکٹ کی بے انتہا سمجھ تھی،ایک ایک بات کو سمجھتے تھے،ٹمپرامنٹ لاجواب تھی۔لڑکھڑاتے کبھی نہیں تھے۔
رمیز راجہ نے یہاں جاوید میاں داد کے جملے ڈالے کہ میں نے گھر سے لڑنا سیکھا تھا۔
رمیز راجہ نے بتایا ہے کہ جاوید میاںداد کی ڈریسنگ روم میں بڑی عزت تھی،ہر ایک ان کے سامنے ادب سے ہوتا،جس انداز میں ٹاپ کوالٹی اپوزیشن کے خلاف اسکور کرتے تھے،ان کی اتنی عزت تھی کہ کوئی سوچ نہیں سکتا،ویک بیٹنگ لائن میں ایک چمکتا ستارہ تھے۔
رمیز راجہ نےا نکشاف کیا ہے کہ جاوید میاں داد کی بیٹنگ جس طرح منفرد تھی،ایسے ہی ان کا سینس آف ہیومر بھی منفرد سا تھا،ایک 2 قصے سناتا ہوں،چائے کے وقفہ میں ان کے ذہن میں شرارت شروع ہوجاتی تھی۔ٹیسٹ میچ میں چائے کے وقفہ کے دوران جب ویٹر سے یہ چائے منگواتے تھے تو کہتے تھے کہ گرما گرم چائے لے آئو۔وہ جب چائے لے کر آتا تھا تو اس میں چائے کا چھوٹا چمچ ڈبودیتے تھے،اس سے چائے گرم ہوجاتی تھی،اس سے بھاپ نکلنا شروع ہوجاتی،اس کے بعد چمچ نکال کر پلیئرز کو لگانا شروع کرتے تھے،کسی کے بازو پر،کسی کے ہاتھ اور کسی کی گردن پر ایسا کرتے تھے۔کھلاڑی اس پر چیخ مار کر اٹھ جاتا تھاکہ یہ کیا بات ہے۔2 گھنٹے کی فیلڈنگ کے بعد پلیئرز کو آرام کی ضرورت ہوتی تھی لیکن میاں داد آرام نہیں دیتے تھے۔
اسی طرح دوسرا قصہ یہ ہے کہ جب ہم ٹریننگ کرکے واپس ہوتے تھے تو یہ اس وقت پان کھایا کرتے تھے،بس میں بیٹھ کر پان کھاتے ہوئے اپنے ایک یا 2 قریبی کرکٹرز کو کہتے تھے کہ مجھے اپنا ہاتھ دکھائو،میں قسمت کا حال بتائوں گا،وہ پلیئرز جیسے ہی ہاتھ بڑھاتے تھے تو میاں داد اس پر پان کی پیک پھینک دیتے تھے۔
رمیز راجہ نے بتایا کہ ایک بار انگلینڈ سے ٹیسٹ میچ تھا،این بوتھم بیٹنگ کررہے تھے،وہ خاصی مشکل میں تھے،عبد القادر کے خلاف نہیں کھیل پارہے تھے۔ میاں داد کو شاٹ لیگ پر بلالیا گیا،میں بھی قریب تھا۔اب میاں داد ہر بال کے بعد بولنا شروع ہوتے کہ سوئپ۔سوئپ۔این بوتھم 2 یا 4 بالز کے بعد پریشان ہوگئے،دائیں بائیں دیکھا اور پھر وہ بول اٹھا کہ مجھے کیوں ڈسٹرب کررہے۔میاں داد نے کہا کہ نہیں،میں ٹربل نہیں کر رہا بلکہ جب تم کو کھیلنے میں مشکل ہو تو سوئپ شاٹ کھیلوگے تو بہتر ہوگے،اس کے بعد جب تک بوتھم آئوٹ نہیں ہوگیا،میاں داد نے خاموشی نہیں اختیار کی۔میں ہنس ہنس کر دہرا ہوگیا۔پہلی بار کسی نے کسی گورے کو اس طرح زچ کیا تھا۔
رمیز راجہ نے مزید بتایا ہے کہ ورلڈ کپ 1992 کے دوران میری اور جاوید میاں داد کی شراکت اچھی لگیں،ایک میچ نیوزی لینڈ کے خلاف تھا،پول میچ جیتنا ضروری تھا۔ڈینی موریسن بالز کررہے تھے،وہ اوپر چڑھے تھے۔10 پر 2 آئوٹ ہوچکے تھے ،وہ اچھی بالز کررہے تھے،میاں داد کے آتے ہی موریسن نے 2 بائونسرز مارے،ایک میاں داد کے گلوز پر بھی لگا۔اوور ختم ہوتے ہی میاں داد میرے پاس آئے اور بولے کہ اگر اس نے تم کو بائونسر کئے تو تم نے اپنی پل شاٹ کھیلنی ہے،کیونکہ تمہاری پل شاٹس اچھی لگ رہی ہیں،باقی کاکام مجھ پر چھوڑ دینا۔رمیز نے کہا کہ اگر آپ اس میچ کی ہائی لائٹس دیکھیں گے کہ موریسن آئے،مجھے بائونسر مارا،میں نے چوکا لگایا،اس کے ساتھ ہی میاں داد نان سٹرائیکر اینڈ سے موریسن کے ساتھ ساتھ ان کے بائولنگ لائن اپ پر چلنا شروع ہوگئے،موریسن کو برابھلا کہا،کہا کہ تم مسلسل بائونسرز کررہے ہو۔نان سینس ہو،سلی مین ہو۔میاں داد کے منہ میں جوبھی آیا بولتے گئے،بعد میں امپائرز ان کو واپس لے کر آئے۔سلیجنگ تک کے لفظ بولے۔دھمکی بھی لگائی کہ کہ اب بائونس کیا تو چھکا ماروں گا۔موریسن نے غصہ میں مجھے زناٹے دار بائونسرز مارے،وہ سر کے اوپر سے گزر گئے۔اوور کے بعد میں نے میاں داد سے کہا کہ یہ کیا کررہے ہیں،اسے ایسی باتیں مت کریںوہ غصہ میں مجھےا ور تیز بائونسرز مارے جارہا ہے۔
اس پر جاوید میاں داد بولے کہ نہیں۔تم فکر مت کرو،میں اس کے ذہن سے کھیل رہا ہوں،میں اسے بھٹکانے کی کوشش کررہا ہوں،پھر ایسا ہی ہوا۔موریسن اپنے چکر سے نکل گئے۔پاکستان کو فائدہ ہوا۔رمیز راجہ کہتے ہیں کہ میاں داد کی یہ کوالٹی تھی،ہر لمحہ،ہر جگہ وقت اور موقع کی مناسبت سے پلان کرتے تھے اور پاکستان کے فائدے کی کوشش کرتے تھے۔
رمیز راجہ نے بتایا کہ کہ ان کے ساتھ بیٹنگ کرتے ہوئے وہ ساتھ میں کوچنگ بھی کرتے تھے۔بعض اوقات اچھا لگتا تھا،بعض اوقات بندا زچ ہوجاتا تھا،ایسا ہی قصہ ورلڈ کپ 1992 میں ویسٹ انڈیز میچ میں تھا،میں انکے ساتھ بیٹنگ کررہاتھا ۔وہ مجھے فائن لیگ سے شاٹ نکالنے کا کہہ رہے تھے،میں انکار کررہا تھا کہ میں اایسے نہیں کھیلتا،انہوں نے مجھ پر شدید دبائو رکھا،آخر کار میں نے ہمت کی،بال بیٹ کاکنارہ لیتے الٹی سائیڈ کی سلپ پوزیشن سے بائونڈری کے پار گئی،میں نے پھر ان سے کہا کہ دیکھیں مجھ سے نہیں کھیلا جاتا،تب جاکر وہ خاموش ہوئے۔میاں داد میری بلکہ ہرایک کی بہتری چاہتے تھے۔
اسی ورلڈ کپ 1992 کے دوران میاں داد کمر کی تکلیف کے باعث تاخیر سے آسٹریلیا آئے،ایسے ہی ایک پریکٹس میچ کے لئے ہم کوچ میں تھے۔میں ان کے ساتھ بیٹھا تھا۔مجھے کہتے کہ کیا تم نے آسٹریلیا میں یہاں اسکور کرنا ہے۔میں نے کہا کہ جی جاوید بھائی کرنا ہے۔ تو مجھے کہا کہ اچھا پھر وہی کرنا جو میں بیٹنگ پریکٹس کررہا ہوں۔لب لباب یہی ہے کہ اگلی بال پر کٹ مارنی ہے۔پہلے میں سمجھا نہیں۔بعد میں سمجھ آیا کہ آسٹریلیا کی بائونسی پچز ہوتی ہیں،وہاں فرنٹ فٹ پر کھیلنے سے سلپ میں کیچز جاتے تھے،مجھے اس کا فائدہ ہوا۔پورے ایونٹ میں میں نے اسکور کئے۔میاں داد نے کیا کردیا۔اسی وجہ سے یہ پاکستان کے لئے تاریخ ساز پلیئر بنے۔
جاوید میاں داد کی بیسٹ بیٹنگ کہاں دیکھنے کو ملی،1988 میں ویسٹ انڈیز کے دورے میں جو میں نے دیکھا،کہیں نہ دیکھا۔ٹاپ آرڈر کی ٹیم تھی،ٹاپ کلاس بائولرز تھے۔ٹاپ کلاس کرکٹ تھی،میاں داد نے وہاں اسکور بنائے۔ہم جب بھی ایک ساتھ بیٹھتے ہیں تو اس سیریز کو یاد کرتے ہیں۔اس سیریز میں 6 فاسٹ بائولرز کو انہوں نے آگے لگایا،ٹری لگائی،کہا کہ ہٹ می۔ایک کے بعد ایک بائونسرز آئے،میاں داد نے سب جھیلے،برداشت کئے،آئوٹ نہیں ہوئے۔ان کو یقین تھا کہ میں آئوٹ نہیں ہوسکتا،وہ واقعی آئوٹ نہیں ہوتے تھے،ہم سب کو حوصلہ ملتا،پوری سیریز میں میاں داد چھائے تھے۔امپائرنگ درست ہوتی تو تینوں میچز پاکستان کے تھے۔ویسٹ انڈیز کے کھلاڑی رچرڈز،ہولدنگ وغیرہ آج بھی میاں داد کی تعریف کرتے ہیں،انہیں بے حد عزت دیتے ہیں۔
رمیز راجہ نے ورلڈ کپ 1992 کو پھر یاد کیا کہ اس ایونٹ میں میاں داد نے ہر موقع پر اپنی اہمیت دکھائی۔بتایا کہ میاں داد کا ہر میچ میں حصہ تھا۔پھرشارجہ کا چھکا کیسی ہسٹری بنا،یہ میاں داد ہی تھے جو آخرتک کھڑے تھے،فائٹ کررہے تھے۔جاوید میاں داد کرکٹ کی تاریخ کا درخشندہ ستارہ تھے۔
اس موقع پر جاوید میاں داد نے رمیز کا نام لے کرکہا کہ رمیز تم اچھی طرح جانتے ہو کہ میں کیسے کھیلتا تھا،ڈریسنگ روم میں سب انگلیوں کو دانتوں میں لئے ہوئے تھے۔اس میں ایک سبق ہے،ہر ایک کے لئے۔وہ سبق یہ ہے کہ کیسے لڑنا ہے۔کیسے جیتنا ہے،اپنی رٹ منوانے کے لئے کیسے کھیلنا ہے،ہمت نہیں ہارنی ،بس لڑتے ہی جانا ہے۔
رمیز راجہ نے یہ بھی بتایا ہے کہ بلاشبہ جاوید میاں داد ایک بڑے دل کے کھلاڑی تھے۔