لاہور،میلبورن :کرک اگین رپورٹ
پاکستان اور آسٹریلیا کی ٹیسٹ سیریز جاری ہے۔تیسرا اور آخری ٹیسٹ 1 دن کے وقفہ سے قذافی اسٹیڈیم لاہور میں کھیلاجارہا ہے۔آسٹریلیا کا یہ 9 واں دورہ پاکستان ہے،اسی مناسبت سے سڈنی مارننگ ہیرالڈ میں آج 20 مارچ 2022 کی اشاعت میں سابقہ دوروں کے حوالہ سے کچھ پرانی یاددشتیں بیان کی گئی ہیں۔
آسٹریلیا نے 24 سال بعد پاکستان کا دورہ کیا،کراچی ٹیسٹ جب اس بار ڈرا ہوا تو کپتان پیٹ کمنز اور اس کے ساتھیوں نے کوئی زیادہ رد عمل نہیں دیا،بڑٖی سختی نہیں دکھائی ،حالانکہ 5 سیشن سے زیادہ،2 دن کے قریب کے کھیل کے بعد نتجہ کا نہ نکلنا افسوسناک تھا۔یہی کچھ 34 سال قبل بھی ہوا تھا۔آسٹریلیا کی ٹیم نے 1988 میں کراچی ٹیسٹ کھیلا۔
ملکی سیاسی حالات،پی سی بی چیئرمین کے لئے اچھی خبر متوقع
آسٹریلیا کا مشہور ادارہ سڈنی مارننگ رپورٹ کرتا ہے کہ اس سال گرمی کے دنوں میں سیریز رکھی گئی تھی،پاکستان کے کپتان عمران خان نے موسم کی بنیاد پر کھیلنے سے انکار کردیا تھا۔اس میچ میں امپائرز نے بدترین بے ایمانی کی،جاوید میاں داد کو 3 بال ایل بی ڈبلیو نہیں دیا گیا۔ڈبل سنچری کرگئے۔آسٹریلیا اننگ سے ہارگیا تھا۔
میچ کے دوران متعدد بار ایسے لمحات آئے کہ جب اس وقت کے کپتان سمیت 9 کھلاڑی اور سپورٹ سٹاف دورہ ادھورا چھوڑ کر واپس اپنے ملک آنا چاہتے تھے۔اتفاق سے آج کی آسٹریلوی اشاعت کا عنوان بھی یہی ہے کہ جب آسٹریلیا کے کھلاڑیوں نے دورہ پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا۔
پاکستان،آسٹریلیا سیریز میں استعمال ہونے والی بال پر پابندی کا مطالبہ
ایلن بارڈر کپتان تھے۔ٹم مے کی اپیلیں مسترد ہوئیں۔ٹیم منیجرکولن ایگر نے اس وقت کے پی سی بی سیکرٹری عارف عباسی سمیت اسپانسر ادارے کے سربراہ کے ساتھ سخت زبان استعمال کی،اس کے بعد منیجر امپائرز محبوب شاہ اور خضر حیات کے کمرے میں گئے،انہیں لائن حاضر کیا،برابھلا کہا۔یہی نہیں منیجر ایلگر اور کوچ باب سمپسن نے چائے کے وقفہ میں آسٹریلین میڈیا کو بلالیا،بھڑاس نکالی۔پاکستان کو دھوکے باز کہا۔بتایا کہ کپ امپائرز کو کھڑا کرکےا ن کی بے عزتی کی گئی۔
میچ کے آخری روز جب آسٹریلیا کی شکست لکھی گئی تو کپتان ایلن بارڈر اس جھگڑےمیں کود پڑے اور کہا کہ ہمیں جیتنے نہیں دیاجائے گا۔اگلے روز ٹیم ہوٹل مین ووٹنگ ہوئی کہ دورہ چھوڑیں یاجاری رکھیں،آفیشلز کی مداخلت اور ایک سمجھدار کے سمجھانے پر دورہ جاری رکھنے کا فیصلہ ہوا۔
گرے نے پھر بعد میں اعتراف کیا کہ ہم نے 1980 سے 1988 کے دوروں کے 9 ٹیسٹ میچزمیں 45 کیچز ڈراپ کئے،اسے بھی انہوں نے کھلاڑیوں کی ذہنی حالت خراب ہونے کا سبب بنایا لیکن مان لیا کہ ہارنے یا جیت نہ سکنے کی یہ بنیادی وجہ تھی،کھلاڑیوں کا غصہ تو نکلنا تھا،اچھا ہوا،بول کر ،رائے شماری کرکے ہلکا پھلکا کرلیا گیا۔
پھر 1990 کی دہائی کے 2 دوروں میں آسٹریلین کھلاڑیوں کی سوچ میں پختگی آئی،رد عمل کم ہوتا گیا ،اس میں سٹیوا جیسے پلیئرز کا اہم، کردار تھا۔ہیہ بات زیادہ اہم ہے کہ آسٹریلیا نے 1988 میں پی سی بی کو اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا تھا۔
اس کے 1 سال بعد جب پاکستان 1989 میں آسٹریلیا میں کھیل رہا تھا تو وہاں بھی امپائرز نے بد دیانتی دکھائی،آسٹریلیا کے حق میں کئی غلط فیسلے کئے لیکن اس وقت کے پاکستانی کپتان عمران خان نے آسٹریلیا کی طرح ایسا کوئی سخت بیان نہیں دیا،بد تمیزی بھی نہیںکی،احتجاج بھی ریکارڈ نہیں کروایا،سب سے بڑھ کر امپائرز کے کمروں میں گھس کر وہ توہین نہیں کی گئی جو کراچی میں خضر حیات اور محبوب شاہ کی گئی تھی۔
آج کرکٹ میں نیوٹرل امپائرز آگئے ہیں۔اب بددیانتی کا سوال نہیں ۔اس کے باوجود اب بھی کراچی ٹیسٹ میں وہی ڈیڈ پچ تھی،وہی گرمی تھی،آسٹریلیا کی جیت پھر بھی ممکن نہیں ہوسکی،اس کے باوجود تھکادینے والے ٹیسٹ کے بعد آج کے کپتان پیٹ کمنز نے کچھ رد عمل نہیں دیا۔
کرک اگین نے طویل سٹوری کا حاصل حصول بیان کیا ہے۔رائٹر ڈینیل بیٹنگ نے بہت کچھ سچ لکھا ہے،اپنے کپتان اور پاکستانی کپتان عمران خان کے ظرف اور رد عمل میں فرق بھی مانا ہے،یہاں یہ بات اہم ہے کہ آسٹریلیا کے امپائرز 1990 کے آخر تک جس طرح بددیانتی کے مرتکب ہوئے ہیں،اتنے پاکستانی امپائرز کبھی نہیں تھے،انہیں یہ بھی لکھنا چاہئے تھا کہ بد دیانتی کا یہ سلسلہ کس نے شروع کیا اور کہاں زیادہ بے ایمانی ہوا کرتی تھی۔