تحقیق وتحریر:کرک اگین اسپیشل انوسٹی گیشن ڈیسک
یہ پاکستان کرکٹ ہے،یہاں کچھ بھی ممکن ہے۔تعلقات،شور شرابہ،دبائو اور آوازیں بلند کرکے درست کو غلط اور غلط کو درست کردو۔پاکستان کے نومنتخب چیئرمین رمیز راجہ کے خیالات جو بھی تھے،اس کی مثال ایسی ہے کہ سیٹ پر جانے کے بعد عمران خان کو دیکھ لیں۔پہلے کیا کہتے تھے،ان دنوں کیا کر رہے ہیں۔رمیز راجہ بھی اسی لائن پر چل نکلے ہیں۔عمران خان کی طرح یہاں کرکٹ کا اقتدار سنبھالتے ہی بڑی بڑی باتیں۔ہر ہفتہ کرکٹ فینزکے لئے آن لائن سیشن کا اعلان۔یہ سب ایسا ہی ہوا کہ جیسے ملک کے وزیر اعظم نے ہر ہفتہ قومی اسمبلی میں آکر سوالات کے جوابات دینے کا اعلان کیا تھا۔دونوں ہی معاملات ایک جیسے ہوئے۔اب ورلڈ ٹی 20 ٹیم میں شعیب ملک کی انٹری لے لیں۔کل تک 18 ماہ ناکام رہنے والے غیدر علی تک واپس لے لئے گئے۔اگلے روز تو حد ہی ہوگئی کہ جب صہیب مقصود کی جگہ شعیب ملک نے لے لی۔یہ الگ بات ہے کہ وقت بتائے گا کہ صہیب مقصود واقعی ان فٹ تھے؟دنیا دیکھے گی کہ شعیب ملک اور محمد حفیظ بیک وقت ورلڈ ٹی 20 کپ کھیل رہے ہونگے،ان کو جب مصباح الحق کھلارہے تھے تو یہی رمیزراجہ انہیں آڑے ہاتھوں لیا کرتے تھے۔
دوسری جانب شعیب ملک کی بھی قسمت دیکھیں۔چوتھائی صدی میں وہ انٹر نیشنل کرکٹ کھیلیں گے۔13 اکتوبر 1999 میں محدود اوورز کرکٹ کا ڈیبیو بھی انہیں اتفاق سے متحدہ عرب امارات کے مقام شارجہ میں ملا تھا اور اب چوتھی صدی میں داخل ہوکر 2021 کا ورلڈ ٹی 20 کپ بھی وہ وہیں کھیلیں گے۔یہ کمال نہیں ہے۔عمر کا زیادہ ہونا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔اصل بات کارکردگی کی ہوا کرتی ہے۔شعیب ملک اس میں فلاپ رہے ہیں۔دوسری اہم بات میگا ایونٹ کی ہوا کرتی ہے۔ان میں بھی وہ ہمیشہ ہی ناکام گئے ہیں۔2019 ورلڈٖ کپ کی مثال سامنے ہے۔یہ دونوں فلاپ رہے تھے۔
پاکستان کے لئے 116 ٹی 20 انٹر نیشنل میچز کھیلنے والے شعیب ملک 39 سال 251 دن کی عمر میں کیسے ضروری ہوگئے۔قومی ٹی کپ میں کارکرگی اوسط سی ہے۔اس سےقبل پاکستان سپر لیگ اور دیگر لیگز میں بھی ناکام گئے ہیں۔ایسے کھلاڑی تیز ترین فارمیٹ مین کس کا مقابلہ کرسکیں گے۔کیا یہ نیا جنم لے کر آئے ہیں کہ ان کی توانا ئی بھر پور ہے۔
شعیب ملک بھی ورلڈ ٹی 20 کپ ٹیم میں آگئے،پی سی بی کا مکمل یو ٹرن
رائٹ ہینڈ آل رائونڈر کے31 کی اوسط 2335 اسکور ہیں۔28 وکٹیں ہیں۔پاکستان کے لئے آخری میچ یکم ستمبر 2020 کو مانچسٹر میں کھیلے تھے،گزشتہ 12 ماہ سے ڈراپ تھے۔یہ اکتوبر کا ماہ چل رہا ہے۔26 اکتوبر 2018 سے آج 10 اکتوبر 2021 ہوگئی۔یہ 3 سال کا عرصہ بنتا ہے۔12 ماہ سے ٹیم سے ڈراپ ہیں۔ان 3 سالوں میں انہوں نے ملک کے لئے جو 14 میچز کھیلے تھے،ان میں یکم فروری 2019 کو کیپ ٹائون میں جنوبی افریقا کے خلاف 49 رنزکی اننگ تھی۔پھر اس کے ٹھیک11 ماہ بعد 24 جنوری 2020 کو لاہور میں بنگلہ دیش کے خلاف 58 رنزکی ناقابل شکست اننگ تھی۔اس کے علاوہ 3 سال کے 14 میچزمیں کسی اننگ میں 20 سے زائد اسکور نہیں کرسکے۔اکثر میں 10 رنزبھی نہ بناسکے
شعیب ملک کو ایک اور انداز میں پرکھ لیں۔2020 کے سال میں 5میچزمیں 72 اور 2019 کے سال میں 3 میچزمیں 73 اسکور تھے۔2018 کے سال میں 16میچزکھیل گئے اور369 اسکور کرنے میں کامیاب ہوئے۔شعیب ملک نے ورلڈ ٹی 20 کپ کے اب تک 28 میچز کھیل رکھے ہیں۔32 کی ایوریج سے 546 اسکور بناسکے ہیں۔صرف 3 وکٹیں ہیں،یہ کبھی بھی میچ ونر نہیں بنے۔ہمیشہ بیچ مندھار میں ٹیم کو چھوڑ کر واپس نکلنے والوں میں سے ہیں۔
آئی سی سی ورلڈ ٹی 20 کپ میں پاکستان جس گروپ میں ہے،وہاں ٹاپ ٹیموں میں بھارت،نیوزی لینڈ شامل ہیں۔افغانستان کے خلاف یہ کبھی ٹی 20 ہی نہیں کھیلے۔چنانچہ بھارت کے خلاف ان کی کارکردگی دیکھ لیں۔8 ٹی 20 میچزمیں صرف164 اسکور ہیں۔اوسط درجہ کی ایوریج ہے۔نیوزی لینڈ کے خلاف تو اور بھی تباہ کن حالت ہے۔12 ٹی 20 میچزمیں صرف 177 اسکور کرسکے۔20سے بھی کم کی شرمناک کارکردگی ہے۔
شعیب ملک میگا ایونٹس کے ناکام پلیئر،۔گزشتہ 3 سال سے فلاپ شو۔سٹرائیک ریٹ بھی فضول۔ایسے میں تیز ترین فارمیٹ میں ان کی سلیکشن کس وجہ سے ہوئی ہے۔سابق کرکٹرزانضمام الحق اور شعیب اختر بھی برابر کے شراکت دار ہیں۔ورلڈ ٹی 20 کی آج کی کرکٹ میں یہ پلیئر کیسے کھیل سکتے ہیں جن کو آپ نے 12 ماہ سے باہر نکالا ہوا ہے۔یہ ایک خوف ہے۔یہ شکست کا ڈر ہے۔یہ پرانے بابوں کا سہارا ہے۔اس میں بولنے والے کم لیکن پی سی بی والے زیادہ قصور وار ہونگے اور رمیز راجہ کے لئے دفاع میں کہنے کو کچھ نہیں ہوگا۔سوائے یوٹرن کے فوائد بیان کرنے کے وہ شاید کچھ کر بھی نہ سکیں۔