عمران عثمانی۔ٹیسٹ کے بعد ون ڈے سے بھی چھٹی،صرف ٹی 20،کئی پلیئرزکافیصلہ ہوگیا،نیا پلان تیار،سنسنی خیز تفصیلات۔کرکٹ کی تازہ ترین خبریں یہ ہیں کہ پاکستان کرکٹ میں کیا چل رہا ہے۔ ہم آپ کو بتاتے ہیں۔ اس سے پہلے یہ بتاتے چلیں کہ بھارت سے شکست کے بعد اور پھر آئی سی سی چیمپینز ٹرافی سے اخراج کے بعد دفاعی چیمپیئن پاکستان کرکٹ ٹیم دبئی سے جب اسلام آباد پہنچی تو خاموشی سے ہوٹل میں جاپہنچی۔ اگلی مصروفیات روٹین کی ہیں 27 فروری کے بنگلہ دیش کے میچ سے قبل پریس کانفرنسز اور پریکٹس شیڈول ہیں لیکن ایک دن کا پروگرام کینسل کیا جائے گا ۔پاکستان کرکٹ ٹیم ذہنی طور پر ٹوٹ چکی ہے۔ پاکستان کی کرنٹ ٹیم کی مینجمنٹ بھی آؤٹ آف مائنڈ ہے اور پاکستان کرکٹ بورڈ بھی اس وقت بیک فٹ پر ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ 29 سال کے بعد آئی سی سی کے کسی ایونٹ کی میزبانی ہو رہی ہے اور پاکستان ایونٹ کے آغاز کے پانچویں دن باہر ہو گیا ہے۔ ویسے تو کوئی میزبان ملک آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی اکیلے نہیں جیت سکا تو پاکستان کا بھی یہی انجام ہے لیکن کوئی توقع نہیں کر رہا تھا۔ اب بہت سی باتیں ہیں۔ مثال کے طور پہ کہ پاکستان میزبان تھا۔ شیڈول کیسا بنایا۔ جیسا کہ وسیم اکرم نے سوال اٹھایا تھا کہ کیا پاکستان کا پہلا میچ بنگلہ دیش سے ہونا چاہیے تھا تاکہ تیسرے میچ تک جب ٹورنامنٹ سیمی فائنل کے قریب ہوتا پھر کوئی بھی فیصلہ ہوتا تو زیادہ اثر نہ پڑتا۔ اب میزبان ملک کی ٹیم باہر ہے۔ ایونٹ کے 15 میں سے چھ میچ آدھے سے بھی کم ہوئے ہوں تو ظاہر ہے ایک منفی تاثر جائے گا ۔بھارت میں اس کا بڑا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ اور کہا جا رہا ہے ٹھیک ہے جی میزبانی کے مزے لے لو ۔تمغے لے لینا۔ تم ہو ہی اس لائق کہ تمہیں یہیں تک ہی رہنا تھا۔ ایک اور آواز بھی اب باقاعدگی کے ساتھ اٹھائی جا رہی ہے کہ پاکستان بھارت کا مقابلہ اب روایتی نہیں رہا۔ اب یہ کوئی جنگی نہیں رہا ۔ابھی ایک ٹھس مقابلہ ہو کے رہ گیا ہے ۔یہ آواز اس لیے بھی اہم ہے کہ اس ٹورنامنٹ کی میزبانی کو لے کے پاکستان کرکٹ بورڈ کا یہ موقف تھا کہ آئی سی سی پاکستان بھارت میچ سے بڑے نوٹ کماتی ہے تو پاکستان کا حق ہے کہ اس کی بات سنی جائے تو ایسے ٹیم کی ناقص کارکردگی سے نیا آئیڈیا انہیں ملا ہے کہ مقابلے کو ہی غیر اہم کیا جائے ،بہرحال یہ ایسا ہو نہیں سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان روایتی دشمنی ہے تو چاہے ایک ٹیم جیسی بھی کیوں نہ ہو، مقابلہ رہے گا۔ آپ کو یاد کراتے چلیں 1980 اور 1990 کے عشرے میں بھارتی ٹیم پاکستان سے مسلسل ہارتی رہی تھی لیکن پھر بھی مقابلے کی اہمیت کبھی کم نہیں ہوئی۔ عمران خان کی قیادت میں 24 ون ڈے میچز میں سے 19 میں اسے شکست ہوئی۔ عمران خان کی قیادت میں ٹیسٹ سیریز میں اسے شکست ہوئی، اس کے ملک میں۔ 15 ٹیسٹ میچ کھیلے پاکستان نے چار جیتے اور 11 ٹیسٹ ڈرا ہوئے۔ یعنی بھارت سنگل ٹیسٹ بھی نہیں جیت سکا ،لیکن مقابلے کی اہمیت اپنی جگہ برقرار ہے تو کسی ایک فریق کا کمزور اور کسی دوسرے کا مضبوط ہونا مقابلے کی اہمیت کو کم نہیں کرتا لیکن دلچسپی کو ضرور کام کرتا ہے۔ اسے دیکھنا ہوگا۔
چیمپئنز ٹرافی میں ناکامی،پی سی بی کا پہلا روایتی ایکشن تیار،کون فارغ ہونے لگا،نیوز بریک
یہاں ہم اب آپ کو بتاتے چلیں پاکستان کرکٹ کے ایوانوں میں کیا کچھ چل رہا ہے۔ یہ بھی چل رہا ہے کہ کچھ ایسا ایکشن کیا جائے کہ قوم کا غصہ ٹھنڈا ہو اور کچھ ضروری چیزیں کی جائیں۔ یہ بات تو طے ہو گئی کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی پہلی رجیم جو آئی تھی، اس کی پالیسی اور اس کا مشن یہی تھا کہ بابرعظم اینڈ کمپنی اور اس کے گروپ کو توڑا جائے ۔اس میں وہ کامیاب ہو گئے۔ اس کے بعد شاہین آفریدی ،پھر بابرعظم پھر رضوان کو کپتان بنایا جانا، شان مسعود کو کپتان لایا جانا۔ یہ سب اس پلاننگ کا حصہ تھا کہ گروپ کو توڑا جائے۔ گروپ کو توڑتے توڑتے ٹیم توڑ دی گئی۔ سوال یہ ہے کیا اگر کوئی گروپ بنا بھی ہوا تھا تو کیا کوئی وہ منفی سرگرمیوں میں ملوث تھا۔ ایسا کچھ نہیں تھا، انہیں اس ملک کا عظیم کرکٹر پسند تھا ،وہ اس کی کاپی کرتے تھے، اس کی صلاحیتوں کا برملا اظہار کرتے تھے اور سابق کپتان عمران خان کے نقش قدم پر تھے۔ تو شاید یہ ایک دشمنی ہو ہم یہ کہہ سکتے ہیں یہ اس کا توڑ ہو۔ بہرحال جنہوں نے یہ سوچا وہ کامیاب ہو گئے لیکن پاکستان کی کرکٹ کمزور ہو گئی اور مذاق بن گئی ۔
اب ایک نیا آئیڈیا ہے ۔نئی تجویز ہے کہ عاقب جاوید جو اس وقت ہیڈ کوچ بھی ہیں اور سلیکٹر بھی انہیں ایک ذمہ داری سے سائیڈ پہ کیا جائے اور یہ بتایا جائے کہ ایکشن لیا گیا ہے انہیں ایک ذمہ داری دی جائے گی اور ایک ذمہ داری سے ہٹایا جائے گا ۔
دوسرا اہم ترین جو منصوبہ ہے وہ یہ ہے کہ اب ٹی 20 کے لیے الگ کرکٹرز فائنل کیے جائیں ۔ون ڈے فارمیٹ کے لیے الگ اور ٹیسٹ کرکٹ کے لیے الگ ،جو ٹیسٹ کرکٹ کھیلیں گے وہی ون ڈے کرکٹ کھیلیں گے ،جو ٹی 20 کرکٹ کھیلیں گے، انہیں باقی دو فارمیٹ سے نکال دیا جائے گا۔ شاہین آفریدی،حارث رؤف اور نسیم شاہ کو ایک روزہ کرکٹ ،ٹیسٹ کرکٹ سے اب الگ کرنے کی تیاریاں ہیں۔ ان کی جگہ نئے پیسرز کا انتخاب ہوگا ،جو صرف ٹیسٹ کرکٹ اور ون ڈے کرکٹ کھیل سکیں گے۔ جبکہ ان کھلاڑیوں کو ٹی 20 تک محدود کیا جائے گا ۔بابرعظم کو بھی ٹی 20 تک محدود کیے جانے کی تجویز ہے لیکن اس کو ابھی قابل عمل نہیں سمجھا گیا۔ اسی طرح کئی دیگر کھلاڑیوں کو بھی اب الگ الگ فارمیٹ میں رکھا جائے گا اور پھر کسی دوسرے فارمیٹ میں نہیں کھلایا جائے گا ۔
دوسرا منصوبہ یہ ہے کہ کچھ کھلاڑیوں کو جبری رخصت پر بھیج دیا جائے کیونکہ چیمپیئنز ٹرافی کے بعد پاکستان نے اگلے ماہ نیوزی لینڈ کا دورہ کرنا ہے۔ ٹی 20 ،ون ڈے سیریز کھیلنی ہیں ،اس میں اکثریت بی کیٹگری کے کھلاڑیوں کو شامل کیا جانا تجویز میں ہے۔وہ ہاریں یا جیتیں، ان میں سے پھر جو بہتر پرفارم کریں ان کو آگے لایا جائے، ساری تجاویز پاکستان کرکٹ بورڈ کے آفس میں پی سی بی چیئرمین کی ٹیبل پر پڑی ہوئی ہیں اور اس پر اپ تیزی سے غور و فکر جاری ہے۔ تاکہ ایسا ایکشن لیا جائے کہ قوم کا غصہ ٹھنڈا ہو ۔چیمپینز ٹرافی کی شکست اور شروع سے ہی اخراج کی بدمزگی اور شرمندگی کو کم کیا جا سکے ۔
راولپنڈی سے پاکستان کے چیمپئنز ٹرافی سے اخراج کا حکم جاری ،دو ٹیمیں سیمی فائنل میں داخل
کرک اگین یہ سمجھتا ہے یہ ایک مذاق ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو بھی فیصلے کیے جاتے ہیں، وقتی ہوتے ہیں۔ دیر پا نہیں ہوتے اور کسی اچھے مقصد کے لیے نہیں ہوتے۔ آڑ لینے کے لیے ہوتے ہیں۔ اپنی خفت مٹانے کے لیے ہوتے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ گزشتہ ماہ ملتان کرکٹ سٹیڈیم میں جب پاکستان کی ٹیم 35 سال بعد ویسٹ انڈیز سے ہوم گراؤنڈ میں ٹیسٹ میچ ہاری تھی، اپنی مرضی کی پچ اپنی مرضی کے کھلاڑی کو کھلانے کے باوجود بھی, تو شان مسعود سے جس نے سوال کیا تھا وہ میں ہی تھا. اس کے بعد میں نے نیشنل میڈیا اور سوشل میڈیا پر بہت کچھ سنا۔ پڑھا کہ جناب یہ صحافی نے سوال ٹھیک نہیں کیا ،تمیز نہیں ہے ،ہم نے اسے خندہ پیشانی سے قبول کیا ،لیکن ایک بہت بڑے حصے نے اسے پسند کیا اور کہا کہ سوال جائز ہے ،بالکل جائز تھا ۔شان مسعود کا انداز غلط تھا ۔اب آپ مجھے بتائیں ان سے سوال کریں تو ان کو برے لگتے ہیں کیا پاکستان اپنی مرضی کی سپن پچز بنائیں اور 35 سال بعد ٹیسٹ میچ ہار جائے تو کیا ایسا سوال نہیں بنتا ۔اب ہم ورلڈ ٹیسٹ چیمپین شپ میں نویں نمبر یعنی آخری نمبر پر ہیں۔ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے سیمی فائنل میں پہنچنا تو دور کی بات، پانچ دن میں باہر ہو گئے ۔ورلڈ کپ ون ڈے میں بھی ہم سیمی فائنل نہ کھیل سکے۔ ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کا سیمی فائنل دور کی بات، گروپ میچ امریکہ سے ہار گئے۔ 2017 سے اب تک مسلسل بھارت سے ہارتے آرہے ہیں ۔بس انفرادی کامیابیاں ملیں۔ بھارت سے مقابلے سے قبل شکست واضح ہوتی ہے۔ اسی طرح ٹیسٹ چیمپئن شپ ہو آئی سی سی ونڈ ے کپ ہو یا کوئی ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ، مسلسل ناکامی ہے۔ اس کے باوجود بھی اگر کوئی سوال کرے تو سوال کرنے والے کو برا بنا دیا جاتا ہے۔ آج نیشنل میڈیا پر بابرعظم کو بیماری قرار دیا جا رہا ہے۔ کپتان کو بے وقوف کہا جا رہا ہے ۔سلیکٹرز کو احمق کہا جا رہا ہے۔ کہ اپنے ملک میں ایک سپنر نہیں رکھ سکے۔ ایک اوپنر کا انتخاب نہیں کر سکے اور جب ان سے سوال ہوا ہوتا تھا تو وہ اس کا دفاع کرتے تھے۔ اب جب کہ یہ بات طے ہو گئی کہ ٹیم کی سلیکشن غلط تھی ان سب کو لٹاراجا رہا ہے، آج کسی کو برا نہیں لگ رہا کہ آج تو سخت الفاظ استعمال کیے جا رہے ہیں تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی کرکٹ بربادی کی راہ پر گامزن ہے۔ اصل مسئلہ بنیادی بیماری کا ہے۔ بنیادی بیماری اوپر ہے، جب تک وہ دور نہیں ہوگی کچھ بھی کر لیں۔ کچھ ٹھیک نہیں ہوگا۔ یہی نتائج نکلیں گے۔ اصل نتائج لینے ہیں تو راہ راست پہ آنا ہوگا ۔راہ راست پہ آنا ان کے لیے شاید مشکل ہے۔ ہمارے بولنے والوں کے لیے بھی مشکل ہے، لکھنے والوں کے لیے بھی مشکل ہے ۔اگر مشکل نہ ہوتا تو صاف الفاظ میں بتاتے کہ کرکٹ کی بربادی، تباہی اور اس فسانے کا اصل ذمہ دار کون ہے۔ اوراس کا کا علاج کیا ہے کوئی نہیں بتاتا۔جب کپتان تک نہیں بولتے تو باقی کیا بولیں گے۔
اور کیا کپتان بننا آسان ہے؟