کرک اگین خصوصی رپورٹ وتجزیہ
ایشیا کپ،کوئی پوچھتا تھا کہ ہم کوئی غلام ہیں؟جواب ملا یا نہیں۔پاکستانی عوم نے گزرے سال سے ایک جملہ سنا ہوگا،کیا ہم کوئی غلام ہیں؟یہ ایک مطلق جملہ ہے،جو تمام جہات کا احاطہ کرتا ہے۔یہ کہنے یا پوچھنے والا عام آدمی نہیں تھا۔بریڈ فرڈ یونیوسٹی کا سابق وائس چانسلر،کرکٹ کے عظیم کپتانوں میں سے ایک۔سابق وزیر اعظم عمران خان۔
آج یہ جملہ کرکٹ برادری کو سمجھ آیا ہوگا۔ہماری کرکٹ برادی بھی منقسم ہے۔کہیں خواہش پر تو کہیں خوشنودی پر۔آپ دیکھ لیں کہ احسان مانی چیئر مین پی سی بی تھے تو کس برادری کو مسئلہ تھا۔رمیز راجہ بنے تو کسے پرابلم ہوئی۔نجم سیٹھی آئے تو کون چیخا اور اب ذکا اشرف آئے ہیں تو کسے مرچ لگی ہے۔یہ تقسیم چلی آرہی ہے،کیونکہ کرکٹ تو ایک کھیل اور ایک شعبہ ہے ،یہاں گلے لگانے والے چینی ہوں یا چائے میں ڈالنے والی چینی۔سب پر گھمبیر مسائل ہیں،اس لئے کہ ہم کھلے عام میڈ ان پاکستان نہیں ہیں۔
آج بہت سے سینئرز اور بہت سے مبصر شہ سرخیاں نکال رہے ہیں کہ پی سی بی بمقابلہ جے شاہ۔پی سی بی کا احتجاج،جے شاہ کا یوٹرن وغیرہ۔
ایشیاکپ،پی سی بی موقف مسترد ،جے شاہ کا میچز کولمبو میں ہی کھیلنے کا اعلان
آج کا لطیفہ تو سادہ ساہے کہ بارشوں کی وجہ سےا یشیا کپ میچز کولمبو سے پالی کیلے یا ہمبٹوٹا منتقل ہوتے،بظاہر دکھائی دیا کہ سب سٹیک ہولڈرز راضی ہیں،پھر ہمبنٹوٹا کی کنفرمیشن آئی اور پھر یوٹرن کی بات آئی کہ جے شاہ جو کہ بھارتی بورڈ کے سیکٹری بھی ہیں اور ایشین کرکٹ کونسل کے صدر بھی،انہوں نے میچز کولمبو سے شفٹ کرنے سے انکار کیا ہے اور اس پر پی سی بی کو اعتماد میں نہ لینے اور اس کے احتجاج کی خبریں ہیں۔
یہ ہے وہ تصویر،جس کی نشاندہی کپتان کیا کرتا ہے۔ہم کوئی غلام ہیں؟
منظرنامہ یہ ہے کہ ایشیا کپ ایک ماہ قبل پاکستان میں تھا،ورلڈکپ اسکے بعد بھارت میں۔برابری کی پکچر یہ تھی کہ بھارت پاکستان نہیں آیا تو پاکستان بھارت نہیں جائے گا،یہ قدرتی طور پر ایک بہترین موقع ملا تھا کہ دوسری لڑائی کی بجائے اپنے موقف پر کھڑے رہتے لیکن یہ کہنے کی حد تک تھا۔رمیز راجہ نے یہ کہا تھا،اس پر کھڑے تھے،سیٹ تو گئی ہی گئی۔ساتھ میں ایشیا کپ کمنٹری ٹیم سے بھی باہر ہوگئے کیونکہ بھارت کو یہ پسند نہ تھا۔ہم نے ایشیا کپ قربان کیا۔ ورلڈکپ کے لئے بھارت جانے کی منظوری دی۔اب جب بارش کی وجہ سے ایک مسئلہ ہے تو اس پر بھی ہم مار کھارہے ہیں۔اب احتجاج کی خبروں سے کیا حاصل ہونا ہے،کیا ملنا ہے۔سادہ سا فارمولہ موجود ہے،آپ ورلڈکپ کا میچ احمد آباد میں کھیلنے سے انکار کردیں،سکیورٹی مسائل کے باعث پہلے بھی تشویش تھی،آپ بھارت جائیں ،صرف یہی کروادیں کہ اپنا 14 اکتونر کا نریندرا مودی کرکٹ اسٹیڈیم احمد آباد اسٹیڈیم میں شیڈول میچ کہیں اور منتقل کروادیں۔
کولمبو کی جگہ ایک اور مقام سامنے آگیا،ایشیا کپ سپر4 کیلئےلاجسٹک پیچیدگیاں
کم سے کم کچھ تو کریں،یا پھر ہم جان لیں کہ کپتان ٹھیک کہتا تھا کہ ہم غلام ہیں اور ہم نے غلام ہی رہنا ہے۔اس کی مزیدتصدیق کرکٹ کی معروف ویب سائٹ کرک انفو نے اب سے تھوڑی دیر قبل کی ہے ،اس کا خلاصہ کرک اگین اپنے انداز میں بیان کررہا ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ(پی سی بی ) اپنی ناراضگی ختم کرچکا اور میزبان ہونے کے باوجود اپنی مرضی چھوڑیں،اعتماد تک میں نہ لئے جانے کے بعد بھی کولمبو میں باقی ماندہ میچز کھیلنے پر راضی ہوگیاہے۔ساتھ میں جے شاہ کی جانب سے 2 روز سے کی جانے والی نجم سیٹھی کی تنقید کا بھی جواب دیا ہے اور کہا ہے کہ سری لنکا کرکٹ اس بات پر خوش ہے کہ ٹورنامنٹ کولمبو میں ہی رہے گا، اور انہوں نےہمیشہ ٹورنامنٹ کو وہاں کھیلے جانے کو ترجیح دی ہے، کیونکہ یہ منطقی طور پر سب سے آسان شہر ہے۔شاہ نے یہ بھی کہا کہ اے سی سی کے صدر کی حیثیت سے میں ایک قابل عمل اور باہمی متفقہ حل تلاش کرنے کے لیے پرعزم تھا۔ اس مقصد کے لیے میں نے پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی طرف سے تجویز کردہ ہائبرڈ ماڈل کو قبول کیا۔ یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ پی سی بی کی قیادت میں کئی تبدیلیاں ہوئیں، اور اس کے نتیجے میں کچھ آگے پیچھے مذاکرات ہوئے۔اس سے بھی مسائل ہوئے۔
ایشیا کپ میں نیا تنازعہ،افغان کھلاڑی بھڑک اٹھے ،ہیڈ کوچ پھٹ پڑے
پی سی بی کی ابتدائی تجاویز کے جواب میں کہ ٹورنامنٹ پاکستان اور متحدہ عرب امارات میں کھیلا جائے پر شاہ نے پہلی بار کھلارد عمل دیا ہے اور کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات میں 20 اوور کے کھیل اور 50 اوور کے کھیل کھیلنے میں فرق ہے۔ پی سی بی کو ستمبر کے ماہ میں بیس اور پچاس اوورز کی کرکٹ کا فرق جان لینا چاہئے۔
کرک انفو کے مطابقپی سی بی نے ہچکچاتے ہوئے کولمبو میں جاری ایشیا کپ کے آخری پانچ میچ شیڈول کے مطابق کرانے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ یہ اس کے باوجود ہے کہ پاکستان بورڈ نے ہمبنٹوٹا منتقل نہ ہونے پر سخت اعتراض کیا تھا، منگل کو دوپہر کے قریب اے سی سی نے اسٹیک ہولڈرز کو ایک میل بھیجا جس میں کہا گیا کہ میچ کولمبو میں پہلے سے طے شدہ شیڈول کے مطابق کھیلے جائیں گے۔ اس سے پی سی بی کے حکام ناراض ہوگئے، جنہوں نے نہ صرف ہمبنٹوٹا میں کھیلے جانے والے میچوں کو ترجیح دی بلکہ وہ اس بات پر بھی پریشان تھے کہ اے سی سی نے ٹورنامنٹ کے میزبانوں سے مناسب مشاورت کیے بغیر یہ فیصلہ یکطرفہ طور پر کیا ہے۔ جواب میںپی سی بی نے فوری طور پر اے سی سی کے ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس طلب کرنے کا کہا اور اے سی سی کے صدر جے شاہ کو بھی ایک خط بھیجا جس میں اے سی سی میں فیصلہ سازی کے عمل پر احتجاج کیا ۔منگل کے واقعات سے سخت پریشان ہونے کے باوجود پی سی بی کا کوئی سخت قدم اٹھانے کا امکان نہیں ہے۔ منگل کی سہ پہر، شاہ نے خود اے سی سی کے صدر کے طوپر کولمبو میچز رکھنے کی تصدیق کردی۔
ایشیا کپ،افغانستان کم عقلی،ہمت ہارنے کے سبب موقع گنواگیا،آئوٹ کے باوجود سپرسکس ٹکٹ ممکن تھا
اب صورتحال یہ ہے کہ کولمبو میں 17 ستمبر تک روازنہ 97 فیصد تک بارشوں کی پیش گوئی ہے،جو کسی روز 61 فیصد تک کم ہوتی ہے۔اس سے پاکستان،بھارت میچ سمیت سب کچھ یا زیادہ تر متاثر ہوسکتا ہے لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ کیا کرسکتا ہے۔رپورٹ یہ ہے کہ احتجاج،ناراضگی سب کچھ ختم ہوچکا ہے۔سوال یہ ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے بطور میزبان کیا کمایا۔اگلا سوال یہ ہے کہ ایسے حالات میں ہم ورلڈکپ کھیلنے بھارت جائیں گے،اپنی مرضی کا ایک فیصلہ بھی نہیں کرواسکتے تو پھر جواب تو یہی سمجھ آئے گا کہ ہم غلام ہیں۔