عمران عثمانی کی کتاب ورلڈکپ کہانی سلور جوبلی ایڈیشن 2023 سے یہ ایک طویل قسط لی گئی ہے۔مجموعی طورپر یہ16 ویں قسط ہے،اس میں نصف صدی کے 12 ورلڈکپ کے وہ خوبصورت،مزاحیہ،سنسنی خیز،ناقابل یقین اور حیرت انگیز واقعات اور روایات ہیں جو آپ کی معلومات میں اضافہ کا سبب بنیں گے۔سافٹ کاپی کسی بھی وقت مارکیٹ میں ریلیز ہوگی۔
عمران عثمانی
کرکٹ ورلڈکپ،دلچسپ واقعات،اتفاقات،مخفی وعیاں راز،3درجن سے زائد تاریخی لطائف.ورلڈ کپ 1975 سے شروع ہوتے ہی تاریخ میں اس کے حوالہ سے قائم ہونے والے ریکارڈز جیسے محفوظ ہوتے گئے، بالکل اسی طرح کچھ دلچسپ واقعات، اتفاقات بار بار پیش آتے رہے۔ 48 سال لگ بھگ نصف صدی اور 12 ایونٹ کے بعد کچھ باتیں ایسی چل رہی ہیں کہ جیسے وہ کبھی تبدیل نہیں ہو سکتیں، کیونکہ وہ ورلڈ کپ کی روایات بن گئیں یا جیسے ان کا نتیجہ ہمیشہ کے لئے ثبت ہو چکا ہے۔ یہ تو ایک عام سی بات ہے کہ ریکارڈ 5 ورلڈ کپ کی میزبانی کرنے والا کرکٹ کا بنیادی ملک انگلینڈ 12 ویں کوشش میں عالمی چیمپین بننے میں کامیاب ہوا۔ نیوزی لینڈ بھی پہلے دن سے اس کاررواں کا بدقسمت ملک رہا ہے۔ 1992 سے جنوبی افریقا جیسی ٹیم میگا ایونٹ میں شامل ہونے کے باوجود عالمی چیمپین کا ٹائنل اپنے سر سجانے میں ناکام چلی آ رہی ہے۔
کرکٹ ورلڈکپ کہانی،بیٹنگ،بائولنگ،فیلڈنگ،ٹیم ریکارڈز،ٹاپ بیٹرزوبائولرز،پلیئرز آف دی ایونٹس
یہ عام سی بات ہر ایک کو یاد ہو گی ہم اس چیپٹر میں چند دلچسپ اور چھپے و عیاں رازوں سے پردہ اٹھائیں گے اور ورلڈ کپ کے موقع پر کچھ تاریخی باتوں کا ذکر کریں گے، بہت حد تک ممکن ہے کہ ان میں سے کچھ معلومات آپ کے لئے نئی ہوں، ایک بھی نئی بات آپ کے لئے بہرحال بڑی ہو گی۔ یہ بھی سب جانتے ہیں کہ پاکستان بھارت کے خلاف7 ورلڈ کپ میچ کھیلنے کے باوجود اب تک ورلڈ کپ میں ایک بھی کامیابی حاصل نہیں کر سکا۔ مجموعی مقابلوں میں گرین شرٹس کو سبقت حاصل ہے، اس کے باوجود ورلڈ کپ کی شکست کی کہانی ہر گذرتے ایونٹ کے ساتھ مسلمہ ہوتی جا رہی ہے مگر ایک سابق ورلڈ چیمپین ملک ایسا بھی ہے کہ جو پاکستان کو بھی سر نہیں کر سکا۔ 1996 کا ورلڈ چیمپین سری لنکا بھی تا حال پاکستان کے خلاف ناکام ہے۔ آخری ورلڈکپ 2019 میں ان کا میچ بارش کی نذر ہوا۔بھارت جو 2 مرتبہ ورلڈ چیمپین ہے اس کے لئے بھی ایک ملک مشکل چلا آ رہا ہے، وہ جنوبی افریقاکا قلعہ صرف ایک مرتبہ ہی گزشتہ ورلڈکپ میں فتح کر سکا۔
ورلڈکپ کہانی،اب تک کس کے زیادہ میچز،کس کی ناکامیاں،میزبانی میں بھارت کیسی سنچری کرنے والا
اب دیکھیں کہ پاکستان، بھارت اور سری لنکا کے لئے ایک ایک ٹیم ورلڈ کپ کی روایتی بھینٹ بنی ہوئی ہے۔ تاریخ چلی آ رہی ہے تبدیلی کا جیسے امکان ہی نہیں۔ ایسے میں جنوبی افریقا کے لئے سب ٹیمیں قابل تسخیر ہیں تو بھی پاکستان اور سری لنکا جن کے لئے ایک ایک ٹیم ناقابل تسخیر ہے ان کے مقابلہ میں پروٹینز یوں بدقسمت ہیں کہ وہ ورلڈ کپ چیمپین کبھی نہیں بن سکے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سری لنکا کے لئے کوئی ٹیم مسئلہ نہیں مگر پاکستان بڑا مسئلہ ہے۔ یہ کمزوری کے باوجود ایک مرتبہ ورلڈ چیمپین تو بن گیا۔ پاکستان کے لئے بھارت مسئلہ بن گیا مگر پاکستان کو ورلڈ چیمپین بننے سے کوئی نہیں روک سکا۔ بھارت بھی نہیں۔ بھارت کے لئے 2 مرتبہ چیمپین کا تاج تو آیا مگر اس کے لئے جنوبی افریقا مشکل پرچہ ہے اور جنوبی افریقا جس کے لئے کوئی ٹیم معمہ یا مشکل پرچہ نہیں ۔ سب کے خلاف فتح کے باوجود وہ ورلڈ چیمپین بننے سے محروم چلا آ رہا ہے۔ جنوبی افریقا کا ذکر ہے تو یہ اہم بات یاد رکھنی ہو گی کہ یہ ٹیم کبھی ناک آؤٹ میچ نہیں جیت سکی، گویا کوارٹر فائنل ہے یا سیمی فائنل ، فتح اس کی ہسٹری سے دور ہے۔ جس ایونٹ میں کواٹر فائنل کا مرحلہ تھا تو فل سٹاپ، جس ایونٹ میں کواٹر فائنل نہیں تھا تو لازمی سی بات ہے کہ سیمی فائنل تھا تو سیمی فائنل میں لازمی شکست، اس ٹیم کو جب ایک بھی ناک آؤٹ میچ میں فتح نہیں ملی تو اس کے لئے فائنل میں قدم رکھنا آج بھی معمہ بنا ہوا ہے جنوبی افریقا کی بدقسمتی کا آغاز اس کے پہلے ہی ایونٹ سے ہو گیا تھا۔ جب 1992 کے ورلڈ کپ سیمی فائنل میں سڈنی کے مقام پر وہ فتح کے قریب اور فائنل سے ایک قدم دور تھا 13 گیندوں پر اسے 22 رنز بنانا تھے کہ بارش نے گیندوں پر حملہ کر دیا پہلے ہدف 7 گیندوں پر 22 اور پھر ایک بال پر 22 ہوا اس طرح اس کی چھٹی ہوگئی ۔
ون ڈے ورلڈکپ فائنل میں سپر اوور،چیمپئن کا فیصلہ جس قانون سے ہوا،قانون کالعدم
اگر عدالت ہوتی تو شاید چیمپئن کا فیصلہ بھی واپس لیتی لیکن نہیں،اس لئے کہ نتیجہ من چاہا تھا۔آخری ورلڈکپ کا فائنل تھا۔لارڈز تھا۔انگلینڈ نے نیوزی لینڈ کے 241 رنزکے جواب میں اتنے ہی رنزبنائے۔سپر اوور پہلی بار آیا۔دونوں ٹیموں کے یہاں بھی 14 اور 14 اسکور تھے لیکن فیصلہ پہلے سے طے قانون کے مطابق ہوا کہ جس کی زیادہ بائونڈریز۔وہ ورلڈچیمپئن۔انگلینڈ ایسے قانون سے چیمپئن بنا جو بعد میں آئی سی سی نے ختم کردیا تھا۔
جوئے اور فکسنگ کی باز گشت
بھارت نے آسٹریلیا کے خلاف 2019 ورلڈکپ کا جیتا ہوا میچ ہاردیا۔پاکستان کو نقصان ہوا۔ٹیم سیمی فائنل سے باہر ہوگئی،اس پر بہت شور ہوا۔انگلینڈ کے موجودہ ٹیسٹ کپتان بین سٹوکس نے اس پر آواز اٹھائی،اسے جان بوجھ کر ہارنا قرار دیا گیا۔یہ معاملہ بھی ایسے ہی دب گیا،جیسے 2011 ورلڈکپ کا پاکستان،بھارت سیمی فائنل اور بھارت اور سری لنکا کا فائنل۔1999 ورلڈکپ میں پاکستان کی بنگلہ دیش سے شکست اور پھر فائنل میں آسٹریلیا سے ناکامی۔1996 بنگلور کوارٹر فائنل۔
کم عمر ورلڈ چیمپئن کپتان
ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کیرئیر کے ابتدائی ایام میں کپتانی مل جائے پھر بطور کپتان ورلڈ کپ کھیلنے کا موقع نصیب ہو جائے اور اس پر مستزاد یہ کہ کم عمری میں ہی ورلڈ چیمپئن کا تاج سر پر سجا لے۔ بھارتی کپتان کیپل دیو نے جب 1983 کا ورلڈ کپ جیتا تو اس وقت ان کی عمر 24 سال 5 ماہ اور 19 دن تھی۔ یہ ریکارڈ شاید ہی کبھی ٹوٹ سکے۔
کم عمر … عمر رسیدہ
کرکٹ ورلڈ کپ کی تاریخ میں 2 مختلف ممالک کے 2 کھلاڑیوں کو منفرد اعزاز حاصل ہے۔ کینیڈا کے نتش کمار 16 سال 283 دن کی عمر میں ورلڈ کپ کھیلنے والے دنیا کے سب سے کم عمر کرکٹر بنے تو 1996 کے ورلڈ کپ میں ہالینڈ کے نولان کلارک 47 سال 257 دن کی عمر میں میگا ایونٹ کا میچ کھیل کر عمر رسیدہ کرکٹرز کی فہرست میں پہلے نمبر پر آ گئے۔
اے بی ڈی ویلیئر ز … ایک طرف بڑا اعزاز … دوسری طرف بڑی ہزیمت
2019 ورلڈ کپ میں یقینی طور پر سلیکٹ ہونے والے جنوبی افریقی کپتان نے میگا ایونٹ سے 14 ماہ قبل اچانک ریٹائرمنٹ لے کر نہ صرف سب کو ششدر کیا بلکہ اپنے مداحوں کو افسردہ بھی کیا، ان کے حوالہ سے ایک دلچسپ بات بیان کرنی مقصود ہے کہ اے بی ڈی ویلیئرز ورلڈ کپ کے 15 میچوں میں 3 سنچریاں بنانے کا قابل قدر اعزاز رکھتے ہیں مگر حیرت ناک بات یہ بھی ہے کہ انہیں 4 مرتبہ صفر کی ہزیمت سے بھی دو چار ہونا پڑا۔
پانچ مرتبہ کا ورلڈ چیمپئن آسٹریلیا…… ناقابل شکست رہنے کا طویل زمانہ، پاکستان سے آغاز اور پاکستان کےہاتھوں اختتام
ورلڈ چیمپئن آسٹریلیا کرکٹ ٹیم کو متعدد اعزازات حاصل ہیں ان میں سے ایک اس کے مسلسل ناقابل شکست رہنے کا بھی ہے۔ 23 مئی 1999ء کو لیڈز کے مقام پر پاکستان کے ہاتھوں آسٹریلیا کو 10 رنز کی شکست ہوئی تھی۔ اس کے بعد آسٹریلیانے ایسی اونچی اڑان پکڑی کہ مسلسل 35 میچ جیتتے چلے گئے، راہ میں 3 ورلڈ کپ فائنل بھی آئے۔ تینوں جیتے، جو ٹیم سامنے آئی۔ ہارتی گئی، اس کا بدمست ہوتا یہ سفر پھر پاکستان نے ہی روکا۔ 2011ء کے ورلڈ کپ میں کولمبو میں پاکستان کے ہاتھوں ان کو 4 وکٹ کی ایسی شکست ہوئی کہ اس کے بعد وہ اس ایونٹ کا فائنل بھی نہ کھیل سکا۔
بارش نے امیدوں پر پانی پھیرا، بارش نے یقین کو بھی بہا دیا
کرکٹ ورلڈکپ 1992 کے سیمی فائنل میں جنوبی افریقا کو جب انگلینڈ کے خلاف 13 گیندوں پر 22 رنز درکار تھے کہ بارش نے ہدف ایک گیند پر 22 رنز کر کے امیدوں پر پانی پھیر دیا مگر دوسری مرتبہ اس سے بھی زیادہ دلچسپ صورتحال پیدا ہوئی جب 2003 کے ورلڈ کپ میں ڈربن میں سری لنکا کے خلاف جنوبی افریقا کو 5 اوورز میں صرف 40 رنز درکار تھے کہ بارش آ گئی۔ ڈک ورتھ لوئس سسٹم پر جنوبی افریقا کا خیال یہ تھا کہ 229/6 فتح کے لئے بہت ہیں اسی وجہ سے آخری گیندوں پر زیادہ رنز نہیں بنائے گئے مگر بارش کے بعد جب رزلٹ سامنے آیا تو اسے 229 نہیں 230 رنز درکار تھے چنانچہ میچ ٹائی ہوا اور جنوبی افریقہ اگلے مرحلے میں نہ پہنچ سکا اس مرتبہ بارش جنوبی افریقا کا یقین بہاکرلے گئی ۔
دو کپتان … 2۔2 مرتبہ ورلڈ چیمپئن
دنیائے کرکٹ میں ورلڈ کپ تاریخ کے حوالہ سے 2 کپتان ایسے گذرے ہیں کہ جنہیں ایک نہیں بلکہ 2-2 مرتبہ ورلڈ کپ ٹرافی اٹھانے کا اعزاز حاصل ہوا۔ کلائیولائیڈ نے 1975 اور 1979 جبکہ رکی پونٹنگ نے 2003 اور 2007 میں ٹرافی لہرائی۔ ان کے علاوہ دنیا کا کوئی کپتان ورلڈ کپ ٹرافی 2 مرتبہ نہیں جیت سکا ہے۔ویسٹ انڈیز 2 مرتبہ کا چیمپئن۔
ابتدائی 3 ورلڈ کپ کا فائنلسٹ … 8 ورلڈ کپ کی فائنل ٹکٹ سے محروم،اب ورلڈکپ سے ہی آئوٹ
ویسٹ انڈیز کرکٹ ٹیم جس نے 1975 سے 1983 تک مسلسل 3 مرتبہ ورلڈ کپ کا فائنل کھیلا، اسے 2 مرتبہ چیمپئنبننے کا اعزاز حاصل رہا ہے، ورلڈ کپ تاریخ کی حیران کن بات یہ ہے کہ ابتدائی 3 ورلڈ کپ فائنل کھیل کر ہیٹ ٹرک کرنے والی ٹیم اس کے بعد گذشتہ 8 ورلڈ کپ یعنی 36 سال سے فائنل کھیلنے سے محروم ہے۔ آخری مرتبہ سیمی فائنل بھی اسے 1996 میں کھیلنا نصیب ہوا جہاں شکست مقدر بنی۔اس بار تو اور ہی بات ہوگئی،وہ ورلڈکپ سے پہلی بار بار ہوگیا،اس کا ذکر الگ سے کیا جاچکا ہے۔
تین عشرے … 3 فائنل … تینوں میں شکست
انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم دنیا کی واحد ٹیم ہے جو 3 عشروں میں میگا ایونٹ کے 3 فائنل کھیل کر ناکامی سے دو چار ہوئی، 1979 میں فتح سے محرومی، 1987 میں ٹائٹل سے دوری اور 1992 میں پھر ناکامی اس کا مقدر بنی۔ گراہم گوچ واحد انگلش پلیئرہیں جنہوں نے تینوں فائنل کھیلے اور ہار گئے۔
ورلڈ کپ، ایک ٹیم، تین بھائی
ڈیل ہیڈلی، رچرڈ ہیڈلی اور بیری ہیڈلی 3 ایسے بھائی ہیں جنہوں نے نیوزی لینڈ کی نمائندگی کرتے ہوئے انگلینڈمیں پہلا ورلڈ کپ کھیلا۔
باپ / بیٹا اور ورلڈ کپ
ڈونالڈ پرنگل نے 1975 کے ورلڈ کپ میں ایسٹ افریقہ کی نمائندگی کی ہے تو ان کے بیٹے ڈیرک پرنگل نے 1987 اور 1992 کے ورلڈ کپ میں انگلینڈ کی جانب سے شرکت کی۔
ایک روزہ کرکٹ کی پہلی ہٹ وکٹ، ورلڈ کپ کی زینت
1971 سے ون ڈے کرکٹ کا آغاز ہوا اس کا ایک ریکارڈ پہلی مرتبہ ورلڈ کپ میں ہی بنا ۔وہ ریکارڈ یہ تھا کہ بیٹسمین نے خود کو خود سے آؤٹ کر دیا۔ 1975 کے عالمی کپ فائنل میں ویسٹ انڈیز کے رائے فریڈ رکس آسٹریلیا کے ڈینس للی کے سامنے تھے، ایک باؤنسر پر انہوں نے زور دار شاٹ کھیلا، گیند اڑتا ہوا چھکے کی شکل میں باؤنڈری سے باہر جا رہا تھا تو بیٹسمین خود بھی بے قابو ہوتے وکٹوں سے ٹکرا رہے تھے۔ یہ ایک روزہ کرکٹ کی پہلی ہٹ وکٹ تھی جو ورلڈ کپ میں بنی۔
ٹاس… ……ایک فائنل میں دو ٹاس، دونوں ہی میچ کے آغاز کے ٹاس
2011 ورلڈ کپ فائنل کا ٹاس بھارتی کپتان دھونی اور سری لنکن قائد سنگا کارا کے مابین تھا میچ ریفری جیف کرونے ٹاس کا سکہ تو فضا میں اچھالا مگر وہ سنگاکارا کی آواز نہ سن سکے وہ کیا، شاید کوئی بھی سن نہیں پایا۔ نتیجہ میں ریفری کو دوسری مرتبہ ٹاس کا سکہ اچھالنا پڑا، یہ ورلڈ کپ ہسٹری کا منفرد واقعہ ہے کہ میگا ایونٹ کے سپر میچ کا ٹاس 2 مرتبہ کرنا پڑا۔
گرج چمک … گولی کی رفتار … ورلڈ کپ تاریخ کی تیز ترین ڈلیوری
ایک روزہ کرکٹ میں تیز ترین گیند پھینکنے کا اعزاز پاکستان کے شعیب اختر کو حاصل ہے اور راولپنڈی ایکسپریس نے یہ کارنامہ ورلڈ کپ 2003 کے دوران انگلینڈ کے خلاف میچ کے دوران سرانجام دیا، دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے نک نائٹ کو جب گیند پھینکی تو وہ گرج چمک کے ساتھ گرجتی برستی، یہ جا وہ جا ہوئی، اس وقت تک کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ تاریخ درج ہو گئی ہے یہ تو بعد میں گراؤنڈ میں نصب سپیڈ میٹر نے بتایا کہ شعیب اختر 100 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ون ڈے کرکٹ، ورلڈ کپ میں باؤلنگ کرنے والے پہلے باؤلر بن گئے ہیں۔
دفاعی چیمپئن بھارتی ٹیم کے کپتان کپل دیو کی دریا دلی آخر میں ان کے گلے کا طوق بن گئی
کپل دیو 1983 ورلڈ کپ فاتح کپتان، 1987 میں اپنے ملک میں جاری ورلڈ کپ میچوں میں اعزاز کے دفاع کے لئے بطور کمانڈر موجود تھے۔ 9 اکتوبر 1987 کو چنائی میں ورلڈ کپ کا تیسرا اور بھارت کا پہلا میچ آسٹریلیا کے خلاف جاری تھا کہ ایسے میں ڈین جونز نے ایک اونچا شاٹ کھیلا، گیند باؤنڈری لائن کے اس طرح پار گئی کہ واضح نہیں تھا کہ چوکا ہے یا چھکا، قریبی فیلڈر روی شاستری کے اشارے پر امپائر نے چوکا قرار دے دیا، بعد ازاں بیٹسمین ڈین جونز نے امپائر سے شدید احتجاج کیا، اننگز آگے بڑھی اور پانی کے وقفہ میں امپائرز نے کپل دیو تک حریف ٹیم کے کھلاڑی کا احتجاج پہنچایا، جس پر کپل دیو نے دریا دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چھکے کی حامی بھری، چنانچہ امپائر نے کئی اوورز گذرنے کے بعد دئیے گئے چوکے کو چھکے میں بدلنے کا اشارہ دے دیا۔ بھارتی بدقسمتی کی انتہا دیکھیں کہ بھارتی اننگز میچ کے آخر تک مشکلات کا شکار رہی اور ٹیم ایک رن سے یہ میچ ہار گئی، گویا چوکے کو چھکے میں بدلنے کا فیصلہ کپل دیو کے سر پر پڑا اور وہی دئیے گئے دو رنز شکست کی وجہ بن گئے۔
60، 50 اور 20 اوورز کرکٹ ایونٹس کی فاتح بھارتی ٹیم
نہ ٹوٹنے والا ریکارڈ، بھارتی کرکٹ ٹیم کو ورلڈ کپ چیمپئنز ٹرافی اور ورلڈ ٹی 20 ٹائٹل جیتنے کا اعزاز حاصل ہے۔ مگر یہ اعزاز پاکستان کو بھی حاصل ہے اس کے باوجود بھارت کا یہ اعزاز ایک اعتبار سے منفرد ہے جسے کوئی حاصل نہیں کر سکتا۔ بھارت نے جب 1983 کا ورلڈ کپ جیتا تو اس وقت اننگ 60 اوورز کی ہوتی تھی جو بعد میں 50 اوورز کی ہو گئی، بھارت نے 60 اوورز اننگ والا ورلڈ کپ جیتا، 50 اوورز والی اننگ کا ورلڈ کپ جیتا اور باقی 2 ایونٹ بھی جیتے، چنانچہ یہ اعزاز اسے اس لئے نہیں کوئی حاصل کر سکتا کہ 60 اوورز کی اننگ والے ایک روزہ میچ کا کوئی امکان نہیں ہے۔
ورلڈ کپ میچ میں واکی ٹاکی … گراؤنڈ میں میچ کھیلتے کپتان ڈریسنگ روم میں بیٹھے کوچ سے ہدایات لیتے رہے
اتنے بڑے ایونٹ کے اہم ترین میچ میں یہ ڈرامہ جاری تھا، انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے قوانین و معاملات بعض اوقات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جیسا منہ، ویسا تھپڑ، 1999 کے ایونٹ میں بھارت کے خلاف جنوبی افریقا کے کپتان ہنسی کرونیئے اور فاسٹ باؤلر ایلن ڈونلڈ نے اپنے کانوں میں ائیرپیس سیٹ کئے ہوئے تھے اور وہ اپنے کوچ باب وولمر سے میچ کی بدلتی صورتحال کے مطابق ہدایات لے رہے تھے، حریف کپتان سارو گنگولی پہلے تو یہ سمجھے کہ خود سے باتیں کئے جا رہے ہیں مگر جب ان کا شک یقین میںبدلا تو انہوں نے امپائرز سے شکایت کر دی، نتیجہ میں معاملہ صاف کھل گیا، امپائرز نے دونوں سے وہ خفیہ واکی ٹاکی ہٹوا کر میچ جاری رکھا، حیرت انگیز طور پر اتنے بڑے واقعہ پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔(پروٹیز کپتان کرونیئے اور سابق پاکستانی کوچ باب وولمر اب اس دنیا میں نہیں ہیں)۔
بڑا کھلاڑی بڑا ہدف مگر 174 گیندیں کھیلنے کے بعد 36 رنز کی ناقابل شکست اننگز
سابق بھارتی کپتان سنیل گواسکر کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں، انہوں نے پہلے ورلڈ کپ کے پہلے میچ میں جو اننگز کھیلی وہ ورلڈکپ تاریخ کی سب سے منفی، بزدلانہ اور لعن وطعن سے بھرپور تھی۔ اتفاق سے یہ ورلڈ کپ کا بھی پہلا میچ تھا۔ 7 جون 1975ء کو لارڈز کے تاریخی گراؤنڈ میں انگلینڈ کے خلاف 335 رنز کے تعاقب میں بھارتی ٹیم نے پورے 60 اوورز بیٹنگ کی، جس میں سے آدھے کے قریب 29 اوورز یعنی174 بالیں اکیلے سنیل گواسکر نے کھیلیں اور 36 رنز کے ساتھ ناٹ آؤٹ واپس لوٹے۔ ٹیم نے 3 وکٹ پر 132 رنز کئے اور 202 رنز کے بھاری مارجن سے شکست کو گلے لگایا۔ شاید سنیل گواسکر کے خیال میں ان کا ناٹ آؤٹ جانا ہی کامیاب ہونا تھا۔ اس اننگ پر دنیائے کرکٹ کی جانب سے کافی لے دے ہوئی۔بہترین اور بدترین باؤلنگ ایوریج:
بہترین باؤلنگ ایوریج کا اعزاز ورلڈ کپ میں بائولرز کو نہیں بلکہ ایک بیٹسمین کو حاصل ہے جبکہ بدترین باؤلنگ ایوریج ایک ریگولر باؤلر کے حصہ میں آئی۔ پاکستان کے محمد یوسف نے 2007 کے ورلڈ کپ میں زمبابوے کے خلاف پہلی گیند پر وکٹ حاصل کی ان کا باؤلنگ اوسط 0.00 رہا۔ نیوزی لینڈ کے آف سپنر جان برسیویل جنہوں نے 1983 اور 1987 میں 2 ورلڈ کپ کے 7 میچ کھیلے اور 310 رنز دے کر ایک وکٹ لی ،چنانچہ ان کی یہ باؤلنگ اوسط بدترین یعنی 310 کی رہی۔
کورٹنی والش کی سپورٹس مین سپرٹ ویسٹ انڈیز کو بہا گئی
1987 کے ورلڈ کپ میں لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں پاکستان کو آخری 3 گیندوں پر 10 رنز درکار تھے آخری وکٹ باقی تھی۔ پہلی گیند پر چھکا، دوسری پر 2 اور آخری بال پر 2 رنز عبدالقادر نے بنا کر ٹیم کو ایک وکٹ کی سنسنی خیز فتح دلوادی مگر اس دوران کورٹنی والش کو نان سٹرائیکر اینڈ پر موجود سلیم جعفر کو رن آؤٹ کرنے کا موقع اس وقت ملا جب بال ڈلیور ہونے سے قبل سلیم جعفر کریز چھوڑ چکے تھے۔ والش چاہتے تو رن آؤٹ کر کے میچ جیت سکتے تھے مگر انہوں نے سپورٹ مین سپرٹ کا مظاہرہ کیا اور چھوڑ دیا نتیجہ میں ویسٹ انڈیز کو میچ سے ہاتھ دھونے پڑے، بائولر کو اعلیٰ اعزازات ملے۔ حال ہی میں آئی پی ایل میں بھارتی ایشون نے انگلش بلے باز جوس بٹلر کو اسی طرح رن آئوٹ کرکے میچ جیتا، اس پرانہیں سپرٹ آف دی گیم کی خلاف ورزی کا ٹائٹل ملا ، کرکٹ کی اصطلاح میں اسے مانکیڈ رن آئوٹ کہتے ہیں ۔
ورلڈ کپ میں 2 ممالک سے کھیلنے والے پلیئرز
جنوبی افریقا کے کیپلر ویسلز 2 ممالک کی جانب سے کھیلنے والے پہلے پلیئر ہیں، انہوں نے 1992 میں جنوبی افریقا کی نمائندگی کی مگر اس سے قبل 80 کے عشرے میں وہ آسٹریلیا کی جانب سے کھیل چکے تھے۔ انہوں نے 1983 سے 1985 کا عرصہ آسٹریلیا کے لئے کھیلا۔ اسی طرح اینڈرسن کومنز، ایڈجوائس اور اوئن مورگن سمیت یہ 4 کھلاڑی ایسے ہیں کہ جنہیں عالمی کپ میں 2 مختلف ممالک کی منفرد نمائندگی کا اعزاز ملا ہے۔
ورلڈ کپ فاتح ٹیم کے زیادہ مرتبہ ممبر رہنے والے کھلاڑی
آسٹریلیا کو ریکارڈ 5 مرتبہ ورلڈ چیمپین بننے کا اعزاز حاصل ہے ، 1987، 1999، 2003، 2007 اور 2015 میں چیمپئن کا تاج سر پر سجانے والے کھلاڑی وقت اور فاصلوں کے اعتبار سے ادھر سے ادھر ہوئے تاہم 3 کھلاڑی ایسے ہیں جنہیں فاتح ٹیم کا 3 مرتبہ ممبر بننے کا اکلوتا اعزاز حاصل ہے۔ رکی پونٹنگ، ایڈم گلکرسٹ اور میک گراتھ نے 1999 سے 2007 تک چیمپئن بننے کا لطف اٹھایا ۔دنیا کی کسی ٹیم کے کھلاڑیوں کے پاس یہ اعزاز نہیں ہے ۔
ایک ایسا کپتان جس نے ریٹائر منٹ واپس لی اور ورلڈ چیمپئن کپتان بن گیا
:
1987 کے عالمی کپ میں غیر متوقع شکست کے بعد پاکستانی کپتان عمران خان نے کرکٹ سے ریٹائر منٹ لے لی۔ ایک سال بعد اس وقت کے صدر پاکستان ضیاء الحق کی درخواست پر انہوں نے ریٹائرمنٹ واپس لی اور اس کے بعد اگلے ورلڈ کپ یعنی 1992 میں وہ چیمپئن ٹیم کے کپتان کے طور پر تاریخ کا حصہ بن گئے، یہ واحد اعزاز اس اعتبار سے ان کو حاصل ہے۔
کرکٹ سے ریٹائر منٹ … وزیر اعظم سے ملاقات … ریٹائر منٹ واپس … ریکارڈ ورلڈ کپ کھیلنے کا اعزاز
پاکستان کے لیجنڈری بلے باز جاوید میانداد 1994 میں انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائر ہو گئے اس کے 10 دن بعد انہوں نے اس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو مرحومہ سے ملاقات کے بعد فیصلہ تبدیل کیا، بعد ازاں 1996 کا ورلڈ کپ کھیل کر وہ وہ 6 عالمی کپ کھیلنے والے دنیا کے پہلے پلیئر بن گئے۔
جنونی تماشائیوں نے ورلڈ کپ سیمی فائنل روک دیا
1996 کے عالمی کپ سیمی فائنل میں سری لنکا کے خلاف شکست کو دیکھ کر بھارتی تماشائی جنونی ہو گئے، کولکتہ کے ایڈن گارڈنز میں انہوں نے ایسا جلاؤ گھیراؤ کیا کہ امپائرز کو میچ روکنا پڑا، 252 رنز کے تعاقب میں بھارت کا 98 پر ایک کھلاڑی آؤٹ تھا۔ 28 اوورز میں 153 رنز درکار تھے ایسے میں تماشائی خوشی سے اچھل رہے تھے، سچن ٹنڈولکر وکٹ پر موجود تھے۔ ہر طرف خوشیوں کے شادیانے بج رہے تھے کہ ایسے میں اگلے 12 اوورز میں 22 رنز کے اندر مزید 7 وکٹیں گریں تو تماشائیوں کو پہلے سانپ سونگھا اور پھر وہ دھماکا چوکڑی مچائی کہ امپائرز کو کھیل ختم کر کے سری لنکا کو فاتح قرار دینا پڑا۔
ایڈم گلکرسٹ … سکواش بال سے کرکٹ بال کو مارتے رہے
2007 ورلڈ کپ میں آسٹریلیا کے وکٹ کیپر بیٹسمین نے اپنے گلوز میں سکواش بال رکھ کر بیٹنگ کی اور بال سے ملنے والی سپورٹ کی مدد سے انہوں نے تیز ترین اننگ کھیلی اور سنچری سکور کی۔ بعد میں گلکرسٹ نے انکشاف کیا کہ انہوں نے یہ کام اپنے کوچ کی ہدایت پر کیا تھا۔
بنگلہ دیشی تماشائیوں کا شکست کے بعد اپنی ٹیم بس پر حملہ مگر وہ ان کی ٹیم نہیں تھی
2011 کے ورلڈ کپ میں ہوم گراؤنڈ پر ویسٹ انڈیز کے خلاف 58 رنز پر ڈھیر ہونے والی بنگلہ دیشی ٹیم کو اس کی عوام نے معاف نہیں کیا۔ گراؤنڈ سے واپس ہوٹل جاتے ہوئے بپھرے تماشائیوں نے اپنی ٹیم پر حملہ کر دیا جس کے نتیجہ میں ٹھیک ٹھاک توڑ پھوڑ ہوئی اور چند کھلاڑی بھی معمولی زخمی ہوئے، بعد ازاں معلوم ہوا کہ بنگلہ دیشی ٹیم دوسری بس پر سوار ہو کر ہوٹل پہنچ چکی تھی جبکہ ہدف ویسٹ انڈیز کرکٹ ٹیم تھی، یہ منفرد کارنامہ ہے ۔
4 میچوں کی پہلی گیند پر مسلسل چوکا، منفرد کارنامہ
2011 کے عالمی کپ میں بھارت کے وریندر سہواگ نے کمال ہی کر دیا، انہوں نے مسلسل 4 میچوں کی اننگ کا آغاز چوکے کے ساتھ کیا اور اتفاق سے ہر بال اننگ کی پہلی بال تھی، یہ منفرد کارنامہ ہے ۔
سب سے زیادہ ورلڈ کپ فائنل کھیلنے والے کھلاڑی صرف 2:ورلڈ کپ تاریخ میں فائنل کھیلنا بڑا کارنامہ ہوتا ہے۔ کسی کو ایک حد 2 مواقع مل جائیں تو بڑی خوش قسمتی ہوتی ہے۔ معاملہ ایک 2 کا نہیں بلکہ 4 ورلڈ کپ فائنل کھیلنے کا منفرد ریکارڈ کاہے ۔ یہ اعزاز دنیا میں صرف 2 کرکٹرز آسٹریلیا کے رکی پونٹنگ اور گلین میک گراتھ کو حاصل ہے۔ وہ 1996 سے 2007 تک کھیلے ۔
ایک ملک کے باشندوں کا دوسرے ملک میں میچ کے دوران پچ پر لیٹ کر احتجاج
1975 کے پہلے ورلڈ کپ میں اوول کے مقام پر آسٹریلیا کے خلاف سری لنکا کے میچ میں تامل ناڈو نے گراؤنڈ میں گھس کر اپنے ملک سری لنکا کی حکومت کے خلاف احتجاج کیا۔ وہ نہ صرف گراؤنڈ میں گھسے بلکہ وکٹ پر لیٹ کر انوکھا احتجاج کیا۔
سیمی فائنل اور فائنل میں مسلسل مین آف دی میچ کا ایوارڈ ایک کھلاڑی کے نام
ورلڈ کپ سیمی فائنل اور فائنل مقابلے میگا ایونٹ کے سب سے بڑے ہائی وولٹیج میچ ہوتے ہیں اگر کوئی کرکٹر ان دونوں میچوں کا آگے پیچھے مرد میدان ہو تو اس سے بڑا اعزاز کیا ہو گا۔ دنیا کے 3 کرکٹرز یہ کارنامہ سرانجام دے چکے ہیں۔ بھارت کے مہندر امرناتھ 1983، سری لنکا کے اروندا ڈی سلوا 1996 اور آسٹریلیا کے شین وارن 1999 کے عالمی کپ مقابلوں کے سیمی فائنل اور فائنل کے مین آف دی میچ کھلاڑی قرار پائے ہیں۔
ورلڈ کپ، 8 بار مین آف دی میچ کا ٹائٹل ایک کھلاڑی کے نام:
بھارت کے سچن ٹنڈولکر کو عالمی کپ کی تاریخ میں 8 مرتبہ مین آف دی میچ ایوارڈ حاصل کرنے کا منفرد اعزاز حاصل ہے۔
ورلڈ کپ کی 2 افتتاحی تقاریب
ورلڈ کپ کرکٹ ٹورنامنٹ میں کبھی بھی ایک سے زیادہ افتتاحی تقریب نہیں ہوئی مگر 2015 کے ورلڈ کپ میں پہلی مرتبہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں الگ الگ 2 افتتاحی تقاریب منعقد کی گئیں۔
لیڈیز فرسٹ
یہ جملہ آپ نے اکثر سنا ہو گا۔ اگر کرکٹ میں بھی ایسا سوچاجائے تو کچھ غلط نہ ہو گا۔ خواتین کا پہلا ورلڈ کپ 1973 سے شروع ہوا تھا جبکہ مردوں کا پہلا عالمی کپ 1975 شروع ہوا تو کہا جا سکتا ہے کہ لیڈیز ہمیشہ سے پہلے۔
تسلسل کی بے مثال مثال
2011ء کے ورلڈ کپ کی آخری بال سری لنکن باؤلر کولاسیکارا نے کی تھی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ 2015کے ورلڈ کپ کی ابتدائی گیند بھی انہوں نے کی۔
چھکوں کی برسات
ورلڈ کپ 2011 میں نیوزی لینڈ اور ویسٹ انڈیز کے میچ میں دونوں سائیڈز سے ٹوٹل 37 چھکے لگائے گئے یہ کسی بھی ورلڈ کپ میچ کے سب سے زیادہ چھکے ہیں۔ویسٹ انڈیز کے خلاف ایک بلے باز کا تسلسل:
جنوبی افریقا کے اے بی ڈی ویلیئر ز نے ویسٹ انڈیز کے باؤلرز کے خلاف ایک عجیب ہیٹ ٹرک بنائی ہے، عمومی طور پر یہ کارنامہ باؤلرز سرانجام دیتے ہیں ۔ ڈی ویلیئرز نے بیٹنگ میں انوکھی ہیٹ ٹر ک ایسی کی کہ ریکارڈ بن گیا۔ انہوں نے 2007، 2011 اور 2015 کے مسلسل 3 ورلڈ کپ میںویسٹ انڈیز ٹیم کے خلاف میچ میں سنچریاں سکور کیں۔
مختلف ملک، مختلف ورلڈ کپ
2007 کے ورلڈ کپ میں ای ڈی جوائس انگلینڈ کی نمائندگی کر رہے تھے تو آج کے انگلش ون ڈے کپتان آئر لینڈ کی جانب سے کھیل رہے تھے۔ پھر اگلے ورلڈ کپ میں عجب نظارہ دیکھنے کو ملا۔ مورگن انگلینڈ اور جوائس آئر لینڈ کی جانب سے ورلڈ کپ میں شریک تھے ۔