عمران عثمانی
ہیٹ ٹرک ہولڈر گھبراہٹ میں،پینک بٹن آن،ملتان کے دوسرے ٹیسٹ کا نتیجہ کب اور کیا،سب واضح۔
۔وہ ایک ہیٹ ٹرک کر کے داخل ہو رہے تھے، چھ وکٹیں تھیں اننگز میں۔ ٹیسٹ کرکٹ میں سپن جادو گری کی مسلسل چھلک نمایاں تھی۔ پاکستان کی 73 سالہ ٹیسٹ تاریخ میں پہلی بار کسی اسپنر نے ہیٹ ٹرک کی تھی۔ چوڑا سینہ ،پرسکون چہرہ اور باوقار مسکراہٹ کی توقع تھی، لیکن یہ کیا۔ وہ پریس کانفرنس کے لیے اس طرح داخل ہوئے جیسا کہ گھبرائے ہوں۔
باڈی لینگویج اور چہرے کا انداز قابل اطمینان نہیں تھا۔ اس کی کیا وجہ تھی۔ جتنے سوالات ہوئے اس کے جوابات ایسے تھے ۔روایتی جیسے پہلے سے سوچے ہوں۔ پہلے کسی بات کا اعتراف کرنا، پہلے کسی بات کا انکار کرنا اور پھر اعتراف کرنا جیسا کہ ہم نے اچھی بولنگ کی۔ ہم نے آؤٹ کئے لیکن ٹیل انڈرز پر جب سوال ہوا تو ہم اچھی بولنگ کر رہے تھے۔ بس کچھ غلطیاں ہو گئیں۔
یہ کہنا کہ غلطی ہو گئی اور ویسٹ انڈیز نے ہم سے میچ اچک لیا، یہ شاید ان کے لیے مشکل تھا ۔
ریکارڈ کی بات کریں تو اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی ٹیسٹ میچ میں کرکٹ کی 147 سالہ تاریخ میں آخری تین نمبرز پر جتنے رنز ویسٹ انڈیز نے بنائے اس سے پہلے ایک بار بنے۔ 54 پر 8 وکٹیں گنوانے کے بعد ویسٹ انڈیز نے آخری تین وکٹوں کے لیے 116 رنز کا جو اضافہ کیا اس میں گوڈا گیش موتی کے 55 کیمار روج کے 25 اور جومل ورکن کے 36 رنز تھے ۔ایسا کرتے ہوئے ویسٹ انڈیز نے اس تاریخی کارنامے کو دہرایا جو اس نے پاکستان کے خلاف پہلے ٹیسٹ میں کیا تھا ۔اس ٹیسٹ کرکٹ تاریخ میں یہ دوسرا موقع تھا کسی ٹیم کے آخری تین بلے باز نے سب سے زیادہ بڑی انفرادی اننگز کھیلیں۔ پہلی بار بھی اس سے قبل پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے پہلے ٹیسٹ میں ہوا تھا۔ نعمان علی اس پر روایتی انداز میں تھے ۔اصل میں بات یہ ہے کہ پاکستان کی بیٹنگ لائن فلاپ ہوئی ۔ایک موقع پر 119 رنز پر اس کے چار کھلاڑی آؤٹ تھے اور آخری چھ وکٹیں 35 رنز کے اضافے کے ساتھ پویلین لوٹ گئیں۔ ایک دن میں 20 وکٹیں گرنا پاکستان کی سرزمین پر ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں سب سے زیادہ وکٹ گرنے کا ریکارڈ ہے۔ ایک دن میں 16وکٹیں سپنرز لے جائیں۔ یہ بھی بڑی بات اور ریکارڈ ہے۔اس سے قبل ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں 1907 میں انگلینڈ اور جنوبی افریقہ کے درمیان جو لیڈز میں میچ ہوا تھا اس میں سپنرز نے 14 وکٹیں لی تھیں۔ تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ریکارڈز بھی بن رہے ہیں ۔پاکستان کے خلاف بھی بن رہے ہیں۔ پاکستان بھی کسی حد تک ریکارڈز بنا رہا ہے لیکن یہ کہنا کہ یہاں ہم یہ پچ اس لیے بناتے ہیں یا بنائیں گے کہ ہم نے یہاں ناقابل شکست رہنا ہے۔ یہ تھوڑا مشکل ہے۔ اب کھیل کے دوسرے روز ویسٹ انڈیز کی ٹیم اپنی دوسری اننگز کا آغاز ویسے ہی کرے گی جیسے اس نے پہلے دن ٹاس جیت کر کیا تھا۔ اس کے لیے ابتدائی ٹائم خاصہ مشکل ہوگا لیکن ان کے ذہن میں ہے۔بڑا آسان سا ایک ہدف ۔200 رنز۔ شاید اس پچ پر کہنا مشکل ہو ،کیونکہ اب ہر ٹیم کی چوتھی اننگز شروع ہو رہی ہے۔ دو ٹیسٹ میچوں کی چار چار اننگز تھیں ۔چھ اننگز میں اب تک پاکستان پہلے ٹیسٹ کی پہلی اننگ میں 200 سے اوپر جا سکا ہے۔ اس کے بعد کوئی ٹیم 200 سے زائد رنز نہیں کر سکی۔ ویسٹ انڈیز کو 9 رنز کی لیڈ حاصل ہے وہ اگر کل 190 رنز بنالیں تو 200 رنز کا ہدف پاکستان کے لیے آٹومیٹک سیٹ ہو جائے گا اور یہ بات یقینی ہے پاکستان کے لیے چوتھی اننگ میں 200 رنز کا ہدف نفسیاتی طور پر پریشان کن ہوگا اور شکست کی طرف لے جائے گا ۔
میرا ماننا ہے کہ یہ ایک اوپن ٹیسٹ میچ ہو گیا ہے۔ ویسٹ انڈیز کرکٹ ٹیم کو یہ یقین ہو گیا کہ اگر وہ پہلی اننگز میں نو رنز کی سبقت لے سکتے ہیں تو یہ ٹیسٹ بھی جیت سکتے۔ انہیں یہ بھی یقین ہو گیا ہے کہ پہلا ٹیسٹ بھی وہ اس لیے ہار گئے تھے کہ پہلے دن رضوان اور سعود شکیل نے 141 رنز کی پارٹنرشپ بنا دی تھی اگر وہ پارٹنرشپ نکال دیں تو دونوں ٹیمیں برابر برابر ہیں ۔ویسٹ انڈیز کرکٹ ٹیم خود ایک ایسی پارٹنرشپ اپنی طرف سے بنانے کی کوشش کرے گی۔ پاکستان کو کسی بڑی پارٹنرشپ سے روکنے کی کوشش کرے گی ۔سوال یہ ہے کہ ملتان انٹرنیشنل کرکٹ سٹیڈیم میں دوسرے ٹیسٹ کا فیصلہ دوسرے دن ہو جائے گا۔ اس کا جواب 90 فیصد ہو جائے گا ۔
10 فیصد اس بات کا امکان ہے کہ ویسٹ انڈیز کے بیٹرز بہت اچھی بیٹنگ کریں اور لمبا اسکور کریں اور پاکستان کو بڑے سے بڑے ہدف کی طرف جائیں اور پاکستانی ناکام ہوں تو ظاہر ہے زیادہ سے زیادہ وقت بیٹنگ کریں گے اور پھر پاکستان کو زیادہ ٹائم نہ ملے بیٹنگ کرنے کا تو میچ تیسرے روز جائے۔۔یہ ایک صورت ہو سکتی ہے۔ ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ویسٹ انڈیز کی اننگ مکمل فلاپ ہو جائے، مکمل فلاپ ہوتے ہوتے بھی اگر اس نے 150 رنز کا بھی ہدف سیٹ کر دیا تو نفسیاتی اعتبار سے پاکستان کو تھوڑا سا مشکلات میں ڈالے گااور200 رنز کا ہدف نفسیاتی طور پر شکست کا سبب بنے گا اور اگر پاکستان یہ میچ ہار گیا تو عاقب جاوید اینڈ پی سی بی کی جو تھیوری چل رہی ہے۔ اس کو بہت بڑا دھچکا لگے گا اور دنیائےکرکٹ میں بڑی بدنامی کا سبب بنے گا اور یہ شکست صدیوں بھلائی ہی نہیں جا سکے گی ،اس لیے شاید نعمان علی بھی پریشان تھے۔
پریس کانفرنس میں ڈھیلے تھے۔ تھوڑے بد حواس تھے ۔قطعی طور۔ وہ جو مرضی کہیں۔ وہ ایسے نہیں تھے کہ ایک دن ہیٹ ٹرک کی ہو۔ ملک کےواحد سپنر بنے ہوں۔ 73 سالہ تاریخ ہشت پر ہو اور وہ اس پریشانی کے عالم میں اس طرح آئیں اور بے اعتمادی سے بات کریں۔ اور بے اعتمادی سے جائیں ۔وہ جو خوف ہے شکست کا ۔خوف نعمان علی کے چہرے پر نمایاں ہے ۔ایسے میں وہ کل کیا بولنگ کریں گے اور کل کس یقین کے ساتھ پاکستان کی جیت کی کوشش کریں گے اور ان کے ساتھیوں پر بھی نعمان علی کی پکچر دیکھ کر یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کرکٹ کے کیمپ میں پینک بٹن دب چکا ہے۔ شکست کا خوف سوار ہو گیا ہے کہ میڈیا، انٹرنیشنل کرکٹ، لوکل کرکٹ اور عوام ہارنے پرکیا کچھ کہیں گے ۔یہ خوف شکست کا سبب بن سکتا ہے۔