کرک اگین رپورٹ۔کبھی کبھی بہت زندہ دل افراد بھی نہایت دکھی ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کے سابق کپتان جاوید میانداد کا حس مزاح کرکٹ کے میدان اور اس سے باہر ،ان کی خوبصورت باتیں اور ذو معنی جملے اور اسٹائل نہ صرف ان کے دور بلکہ اس کے بعد بھی برسوں سے نقل کیا جاتا ہے۔ ذکر کیا جاتا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا بھارت کے سابق کپتان سنیل گواسکر بھارت کے مشہور ٹی وی شوز میں اکثر جاوید میاں داد کے قصے سنایا کرتے ہیں اور اب بھی جب کبھی انہیں موقع ملے تو پرزور اصرار پر ہو بہو نقل کرتے ہیں ،لیکن ایسے خوبصورت افراد جو بہترین حس مزاح رکھتے ہوں اور شاندار مزاج رکھتے ہوں وہ بھی کبھی کبھی غم میں ڈوب جایا کرتے ہیں۔
ٹیلی کام ایشیا ڈاٹ نیٹ کے مطابق پاکستان کے سابق کپتان جاوید میانداد کو جب بھارت کے سپنر دلیپ دوشی کے انتقال کی خبر ملی تو وہ بھی غم میں ڈوب گئے اور ان کا حس مزاح گم ہوا اور ان کا غم واضح ہوا ۔جاوید میاداد اور دلیپ دوشی ایک دور میں ایک دوسرے کے سامنے کھیلتے رہے تھے۔ دو واقعات ایسے ہیں جو جاوید میانداد اس موقع پر نقل کرتے ہیں لیکن جاوید میانداد نے یہاں دو باتیں اور بھی کی ہیں۔ پہلے وہ دو واقعات کا اعادہ کرتے چلیں کہ جس میں وہ ایک موقع پر بیٹنگ کر رہے تھے انہوں نے بیٹنگ کرتے ہوئے بو وا،بو وا کی آوازیں نکالنا شروع کیں۔
میانداد نے اداسی سے مسکراکر کہا کہ جب وہ لیگ اسٹمپ پر بولنگ کرتے تھا تو میں ‘بو واہ’ کہنا شروع کر دیتا تھا۔ جب انہوں نے آخر کار پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے، میں نے ان سے کہا کہ صرف کتے – اور تم میری ٹانگ پکڑنے کی کوشش کرریے ہو۔
پاک و ہند کی ماضی کے کرکٹ واقعات اور جھگڑے برصغیر کی لوک داستانوں کا حصہ ہیں
تنگ آکر دلیپ دوشی نے پوچھا یہ کیا ہے تو انہوں نے کہا کتے کی اواز نکال رہا ہوں کہ تم کتے کی طرح میری ٹانگ پر پڑ گئے ہو۔ بے شک یہ جملہ اور یہ انداز بہتر نہیں تھا۔ جوشی نے اپنے بھارتی کھلاڑیوں سے شکایت کی تو وہ بھی ہنس پڑے اور اس کے بعد امپائر بھی مسکرائے۔میانداد کہتے ہیں کہ وہ ایک انتہائی نفیس، اعلیٰ تعلیم یافتہ گھرانے سے تھے ۔ہمیشہ بے عیب لباس پہنا، ان کی سفید کٹ بے داغ تھی۔ وہ میدان میں اس قسم کی شرارتوں کے عادی نہیں تھے۔ میں نے ایک بار ان سے پوچھا کہ وہ ہوٹل میں کس کمرہ نمبر میں رہ رہے ہیں۔ انہوں نے غصے سے پوچھا کیوں؟ میں نے ان سے کہا کہ میں گیند کو سیدھا تمہارے کمرے میں مارنا چاہتا ہوں۔
یہ خوبصورت انداز تھا ان سے مذاق کا اور اس میں لڑائی کا انداز بھی تھا۔ اس میں لڑائی بھی ہو جاتی تھی اور کرکٹ میں اکثر کھلاڑی لڑ بھی پڑتے ہیں، جیسا کہ ہیڈنگلے لیڈز میں محمد سراج کل انگلش اوپنر کے ساتھ لڑتے دکھائی دیے۔ اسی طرح کرکٹ میں یہ واقعات ہوتے رہتے ہیں لیکن برصغیر پاک و ہند کی ماضی کے کرکٹ واقعات اور جھگڑے برصغیر کی لوک داستانوں کا حصہ ہیں ۔آج ویسا نہیں کہ سنیل گواسکر جیسے لیجنڈری بار بار اسے نقل کریں۔
جاوید میانداد نے دلیپ دوشی کی وفات پر 2 باتیں کی ہیں اور کہا ہے کہ مجھے جب یہ خبر ملی تو مجھے بہت دکھ ہوا، کیونکہ وہ ایک انتہائی نفیس انسان اور باکردار انسان تھا۔ میری ان سے بعد میں دوستی ہوئی۔ انگلینڈ میں کائونٹی کرکٹ میچوں کے دوران ہم ملے تھے اور جب میں بھارتی دورے پر تھا تو انہوں نے کولکتہ میں مجھے اپنے گھر دعوت دی ۔ان کی اہلیہ بھی نفیس خاتون ہیں۔ انہوں نے مجھے ویلکم کیا اور بڑی اچھی یادیں ہیں۔ ان کے خاندان کے لیے میں تعزیت کا اظہار کرتا ہوں اور میری دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔
دوشی نے بھارت کے لیے 33 ٹیسٹ میچز میں 114 وکٹیں لیں۔ اعداد و شمار بہت زیادہ اچھے نہیں تو برے بھی نہیں ہیں۔ یہ وہ دور تھا جب وکٹیں آسانی سے ملا نہیں کرتی تھیں اور بیٹرز بہت اعتماد کے ساتھ اور بڑے ہی دفاعی انداز میں کھیلا کرتے تھے۔اگر وہ آج کے دور میں ہوتے تو کچھ اور ہوتے۔ جیسا کہ ٹی 20 کی تیزی نے بیٹرز کو ٹیسٹ کرکٹ میں بھی تیزی اپنانے پر مجبور کیا ہے تو 33 ٹیسٹ میچوں میں دلیپ دوشی جیسے سپنر کئی گنا زیادہ شکار کرسکتے تھے۔
جاوید میاں داد گلیمورگن کاؤنٹی اور دوشی نارتھمپٹن شائر کے لیے کھیل رہے تھے۔ وہاں بھی ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے اور دوست ہونے کا موقع ملا اور پھر یہ جو ایک دوسرے کے خلاف کی چیزیں تھیں وہ دوستی میں بدلیں اور کمال بدلیں۔