بنگلورو،کرک اگین رپورٹ۔پولیس خدا نہیں،ویرات کوہلی کی آر سی بی بنگلورو بھگدڑ اور ہلاکتوں کی ذمہ دار۔کرکٹ کی تازہ ترین خبریں یہ ہیں کہ سنٹرل ایڈمنسٹریٹو ٹریبونل (سی اے ٹی) ککے دو رکنی بنچ نے مشاہدہ کیا ہے کہ رائل چیلنجرز بنگلورو (آر سی بی) فرنچائز 4 جون کو ایم چناسوامی اسٹیڈیم کے باہر تقریباً تین سے پانچ لاکھ لوگوں کے جمع ہونے کے لیےذمہ دار تھی۔چناسوامی اسٹیڈیم کے باہر بھگدڑ مچنے کے نتیجے میں 11 افراد ہلاک اور 50 سے زائد زخمی ہوگئے، جب کہ پولیس کے پاس ہجوم پر قابو پانے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔
جسٹس بی کے شریواستو اور سنتوش مہرا پر مشتمل سی اے ٹی کی دو رکنی بنچ نے کہا کہ آر سی بی، جو ڈیاجیو کی ملکیت ہے،نے ضروری ریگولیٹری اجازتوں کے حصول یا حاصل کیے بغیر آئی پی ایل کی فتح کی تقریبات کو آگے بڑھا کر پریشانی پیدا کی”۔ یہ ریمارکس منگل کو جاری کردہ 29 صفحات کے حکم کا حصہ تھے، جو وکاش کمار، انسپکٹر جنرل اور ایڈیشنل کمشنر آف پولیس، بنگلورو (مغربی) کی طرف سے دائر کیس کی سماعت کر رہا تھا۔حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ 3 جون کو، آئی پی ایل فائنل کے دن اجازت نہیں لی گئی۔آرڈر میں کہا گیا کہ اس سب کے نتیجے میں بے حد تناسب کا اجتماع ہوا جس میں تقریباً تین لاکھ لوگ چناسوامی اسٹیڈیم کے ارد گرد جمع ہوئے، جن کی سرکاری گنجائش 35,000 ہے۔آرڈر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 3 جون کو احمد آباد میں پنجاب کنگز کے خلاف آئی پی ایل فائنل میں آر سی بی کی جیت کے فوراً بعد پولیس مشینری کو پہلے ہی رات کو منظم کرنا پڑا تھا۔پولیس خدا نہیں ہے اور نہ ہی جادوئی طاقتیں ہیں۔
کرناٹک حکومت کی جانب سے ایک اعزازی پروگرام کے انعقاد سے پولیس پر بوجھ مزید بڑھ گیا۔ آرڈر میں کہا گیا ہے، “لہذا، پہلی نظر میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تقریباً تین سے پانچ لاکھ لوگوں کے جمع ہونے کے لیے آر سی بی ذمہ دار ہے۔آر سی بی نے پولیس سے مناسب اجازت یا رضامندی نہیں لی۔ اچانک،انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پوسٹ کیا اور مذکورہ معلومات کے نتیجے میں عوام کو جمع کیا گیاآرڈر میں پولیس کا دفاع کرتے ہوئے کہا گیا کہ پولیس اہلکار بھی انسان” ہیں اور وہ نہ تو بھگوانہیں اور نہ ہی جادوگر اور ان کے پاس اللہ دین کا چراغ جیسی جادوئی طاقتیں بھی نہیں ہیں جو کسی بھی خواہش کو صرف انگلی رگڑنے سے پوری کر سکتا ہے۔بھگدڑ کی تحقیقات کے لیے کرناٹک حکومت کی طرف سے قائم کی گئی انکوائری پر ٹریبونل کے مشاہدات کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ انکوائری ہائی کورٹ کے سابق جسٹس مائیکل ڈا کنہا کر رہے ہیں۔