کراچی۔دبئی۔کرک اگین رپورٹ
سرفراز احمد کے سنسنی خیز انکشافات ،چیمپئنزٹرافی کی 4 سیمی فائنلسٹ ٹیمیں بتادیں
اور جب میں اگلے دن گھر پہنچا تو روزہ کا وقت ختم ہونے میں صرف 30 منٹ باقی تھے۔ میرے ساتھ میرا بچہ اور بیوی بھی تھی اور ہر جگہ لوگ تھے۔ ایئرپورٹ کے اندر ایئرپورٹ کے باہر، مقامی سیاستدان بزنس مین اور بہت کچھ اور جب میں گھر پہنچا، گلی میں ہزاروں لوگ تھے۔ مجھے ہر ایک سے ملنے اور ان کا استقبال کرنے میں ایک عمر لگ گئی اور پھر میں نے چیمپئنز ٹرافی کو اپنی بالکونی میں اٹھا کر لوگوں کو دکھایا، جیسے ہی اٹھایا وہ خوش ہو رہے تھے اور جشن منا رہے تھے۔ یہ حیرت انگیز تھا۔ انتہائی حیرت انگیز۔ بہت زیادہ حالت انگیز ۔یہ آئی سی سی ٹورنامنٹ کی طاقت ہے اور میں یہ دیکھنے کے لیے اور انتظار نہیں کر سکتا کہ کون میرے نقش قدم پر چلے گا ۔
پاکستان کے کپتان سرفراز احمد نے آئی سی سی چیمپینز ٹرافی 2017 کی یادیں تازہ کی ہیں۔ آئی سی سی کے لیے لکھے گئے مضمون میں پاکستان کے اس وقت کے کپتان سرفراز احمد کہتے ہیں کہ پاکستان کے کھلاڑی بھی تیار ہیں ۔شائقین بھی تیار ہیں اور پاکستان 29 سال مکمل ہونے کے بعد ایک ایسے موقع کے لیے تیار ہے جس کے لیے اگر ہم یہ کہیں کہ بہت جوش و خروش ہے اور ہمیں بڑا شدت سے انتظار ہے ۔یہ ایک چھوٹی سی بات ہوگی۔ جذبے اس سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ کراچی افتتاحی میچ کے لیے انتہائی موضوع ہے اور یہ ایک میچ ٹورنامنٹ میں تین ہفتوں کی شاندار کرکٹ کا آغاز کرے گا ۔اس ٹورنامنٹ نے میری زندگی بدل دی۔ 2017 میں یہ ٹرافی جیتنا میرے کیریئر کا بہترین دن تھا ،حالانکہ اب سے 8 سال پہلے کی بات ہے۔ ہر جون میں جب اس کی سالگرہ آتی ہے۔ میں سوشل میڈیا پر اس کی ویڈیوز دیکھتا ہوں اور اس سے مجھے ہنسی آتی ہے۔ پاکستان کے پاس ٹائٹل کے دفاع کا واقعی اچھا موقع ہے اور میرے خیال میں ان کے پاس ایک مضبوط ٹیم ہے۔ 2017 کے کچھ لڑکے اب بھی موجود ہیں اور ہم کچھ بہترین کے بارے میں بات کر رہے ہیں، خاص کر بابر اعظم ۔وہ 2017 میں کھیلنے والے بابر اعظم سے مختلف ہیں ۔اب پختہ کھلاڑی ہیں۔ کھیل میں غالب ہیں۔ ان کی بیٹنگ سے پاکستان کو فائدہ ہوگا اور فخر زمان سے بھی ،شاہین شاہ آفریدی اور حارث شاندار بولر ہیں۔ اچھا کھیل رہے ہیں ۔کپتان محمد رضوان ایک بہترین وکٹ کیپر ہیں۔
انہوں نے 2017 میں میرے لیے بہت اچھا کام کیا ۔پاکستان پر دبائو ہوگا کیونکہ پاکستان اپنی ہوم کنڈیشن پت کھیلے گا۔ دفاعی چیمپیئن ہونے کی وجہ سے توقعات بھی زیادہ ہوں گی ،لیکن وہ یاد رکھیں ان کے پیچھے پوری قوم اور عوام اور شائقین ہوں گے۔ یہ ایک میدان ہے یقینا ہر ٹیم اسے جیتنے کی کوشش کر سکتی ہے۔ میرے خیال میں افغانستان کے پاس بھی اچھی ٹیم ہے۔ آسٹریلیا اور بھارت کے پاس آپشن اچھے ہیں۔ اگر آپ مجھے کہیں کہ میں چار سیمی فائنلسٹ ٹیموں کا انتخاب ابھی سے کر دوں تو میں اس مرحلے پر پاکستان، بھارت، آسٹریلیا اور افغانستان کا انتخاب کروں گا۔ لیکن کسی ٹیم کو خارج بھی نہیں کروں گا ۔پول میچوں میں سے ہر کوئی پاکستان کے بھارت کے خلاف میچ کے بارے میں بات کرتا ہے اور کر رہا ہے ۔یقینا دباؤ ہوگا۔ پاکستان اور بھارت جب بھی کھیلتے ہیں یہ خاص موقع ہوتا ہے ۔اس کے ارد گرد بہت زیادہ دباؤ ہوتا ہے ۔شور ہوتا ہے۔ بطور کھلاڑی آپ کو پرسکون رہنے کی ضرورت ہوتی ہے اور بس آپ کھیلیں اور کانوں کو بند کر لیں۔ ایسے کھیلیں جسے آسٹریلیا سے کھیلتے ہیں یا کسی اور سے ۔2017 میں ہم بھارت سے جب پہلا میچ 124 رنز سے ہارے تو بہت شور تھا۔ بطور کپتان بھارت کے خلاف یہ میراپہلا میچ تھا اور ہم تمام شعبوں میں کمزور تھے۔ اس کے بعد ہماری ایک زبردست ٹیم میٹنگ ہوئی۔ اس میٹنگ میں ہم نے سینیئر لڑکوں کو اور جونیئر لڑکوں کو بٹھایا ۔شعیب ملک، محمد حفیظ نے ایک بات کہی اور ایک ہی بات کی کہ اپنے ارد گرد کے کرداروں کو اکٹھا کریں۔ اس دن ہم نے اپنی سوچ بدل دی ۔تناؤ ہمارے لیے بہت اچھا تھا۔ ہم نے کچھ تبدیلیاں کیں اور اس سے ہمارے اعتماد میں مدد ملی، ہم نے جنوبی افریقہ کو شکست دی اور پھر ہم نہ رکنے والی ٹیم بن گئے۔
ہمارے ہیڈ کوچ مکی آرتھر اور مجھے اتنا یقین تھا کہ ہم اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے۔ ہم ویسٹ انڈیز کے خلاف واقعی ایک مشکل ترین سے گزرے تھے جو 2019 کے ورلڈ کپ کوالیفکیشن کے لیے تھی ۔وہ ٹورنامنٹ میں سب سے نیچے کی ٹیم تھی۔ ہم نے محسوس کیا ہمارے پاس کھونے کے لیے اب کچھ نہیں ،اس لیے اتنا دباؤ لیا جتنا ہم کھلاڑیوں سے دور کر سکتے تھے۔ انگلینڈ سے سیمی فائنل کھیلا اور ہمارے بولرز شاندار تھے، پھر آخر میں بھارت تھا۔ مجھے یقین تھا کہ ہمارا لیول بلند ہے اور فائنل سے پہلے کھلاڑیوں کے لیے میرا پیغام تھا ارام کرو۔ ہم جانتے تھے کہ ہم نے کچھ بہترین ٹیمیں کو شکست دی ہے، اس لیے بہرحال ایسا کچھ نہیں تھا جو ہم نے نہیں دیکھا تھا میں نے لڑکوں سے کہا ۔آرام کریں
نتیجہ بھول جائیں، 100 فیصد دیں۔ باقی تاریخ ہے ۔جب آخری وکٹ گر گئی اور ہم جیت گئے تو اس کے بعد لفظوں میں بیان کرنا نا ممکن ہے، جب میں نے آخری کیچ لیا تو میں گلی میں تھا اور میں بھاگا میں نے شعیب ملک کو دیکھا اور اس کے بازو میں چھلانگ لگا کر ان کے گلے کو پکڑ لیا۔ پھر میری پوری ٹیم اس میں شامل ہو گئی۔ یہ ناقابل یقین بات ہے، جب بھی مجھے معلوم ہوتا ہے 18 جون ہے ۔میں اسے آن لائن دیکھتا ہوں۔