تحریر۔عمران عثمانی ۔شان مسعود رواں صدی کے سب سے زیادہ ناکام کپتان،ریکارڈ پیش خدمت،کوہلی کی طرح ڈومیسٹک کرکٹ کھیلیں۔کرکٹ کی تازہ ترین خبریں یہ ہیں کہ اور آج 31 جنوری 2025 کی صبح ویرات کوہلی رانجی ٹرافی کے اہم ترین میچ میں صرف چھ رنز بنا کر کلین بولڈ ہو گئے۔ جی ہاں! دہلی کا میچ ریلوے کے ساتھ جاری ہے اور گزشتہ روزجب پہلا دن تھا دیلی ٹیم نے فیڈنگ کی۔ ریلوے کو 241 پر آؤٹ کیا ۔اسٹیڈیم ایسے فل پیک تھا، جیسے کو انٹرنیشنل میچ ہو۔ یعنی آئی پی ایل کا میچ بھی اتنا پرجوش نہیں ہوتا جتنا یہ ڈومیسٹک کرکٹ کا ہو گیا، صرف اس وجہ سے کہ ویرات کو کوہلی کھیل رہے تھے ۔ٓج دوسرے دن کے آغاز میں ویرات کوہلی چھ رنز بنا کر آؤٹ ہو گئے لیکن چاہے وہ کامیاب ہوئے یا روہت شرما کی طرح ناکام ہوئے جو کہ اپنے رنجی ٹرافی میچ میں ناکام گئے ہیں لیکن کرکٹ فینز نے اپنی محبت کا اظہار کیا ۔حوصلہ دیا کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں یہ ایک شاندار منظر، ناقابل یقین کرکٹ گراؤنڈ کی تصویر ہے جس سے پاکستان کرکٹ بورڈ کو اور پاکستانی کھلاڑیوں کو سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔
گزشتہ سال انگلینڈ کے خلاف پاکستان کی پہلی ٹیسٹ شکست کے بعد سلیکشن کمیٹی اور پچز پالیسی میں جو تبدیلی ہوئی اس میں یقینی طور پر پاکستان کےکپتان اور کوچز کا کوئی کردار نہیں تھا۔ یہ فیصلہ اوپر سے لیا گیا تھا اور عاقب جاوید کو لانچ کیا گیا تھا۔ پھر ملتان میں سب نے دیکھا کہ کیسی پچ تیار کی گئی ۔ایک کھیلی گئی پچ پر دوسرا ٹیسٹ کھیلا گیا اور اسے کس طرح خشک کیا گیا اور پاکستان جیتا ۔اسی طرح راولپنڈی میں بھی یہی کچھ ہوا ۔پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو اس کے بعد ٹیسٹ سیریز کے لیے جنوبی افریقہ جانا پڑا جہاں سکواڈ مکمل تبدیل تھا ۔وہ سپنرز جو اپنے ملک میں دھاک بٹھا رہے تھے ۔وہ ڈراپ تھے ۔
اب یہاں رکیں اور پیچھے دیکھیں کیا ہم نے ماضی میں مشتاق احمد،ثقلین مشتاق جیسے سپنرز کو سڈنی،کیپ تائون،اوول اور دوسرے مقامات پر کھیلتے نہیں دیکھا،،جب دیکھا ہے تو پھر یہ اسپنرز اس لائق کیوں نہ سمجھے گئے،جواب آگے آرہا ہے۔
لیکن نتیجہ جنوبی افریقہ میں بھی دو میچز کی شکست کی صورت میں سامنے آیا۔آپ دیکھیں کہ وپاں شاہین آفریدی کی جہ نہیں تھی،محمد عباس کا لوئے،اچھا کیا لیکن کوئی نوجوان ڈراپ کرت،نسیم کو کھلاتے لیکن نہیں کھلایاگیا۔ اگلی سریز ویسٹ انڈیز کے خلاف پاکستان میں تھی اور اتفاق سے دونوں میچز ملتان میں تھے اور پاکستان کی کرکٹ ٹیم ورلڈ ٹیسٹ جیمپئن شپ پوائنٹس ٹیبل پر8 ویں نمبر پر تھی جبکہ ویسٹ انڈیز کی کرکٹ ٹیم نویں نمبر پر تھی۔ یہ وہ ٹیم ہے جس میں سے اکثر کھلاڑیوں کے نام کوئی جانتا ہی نہیں تھا اور ان کے سپنرز کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ انٹرنیشنل کرکٹ دنیا میں کوئی وقار نہیں تھا ۔پاکستان نے اپنی سابقہ پالیسی جاری رکھی اور ویسٹ انڈیز کے خلاف پہلا ٹیسٹ جیت لیا ،لیکن دوسرے ٹیسٹ میں جس طرح اسے شکست ہوئی وہ ناقابل یقین تھی ۔یہ شکست جہاں پاکستانی کرکٹ فینز کو ہضم نہیں ہوئی۔ وہاں کسی بھی ایسے شخص کو جو کرکٹ سے محبت رکھتا ہو ،پاکستان کرکٹ سے پیار کرتا ہو،اسے ہضم نہیں ہوئی، کیونکہ ہم ایک ایسی ٹیم سے ہارے تھے جو پہلے ہی ہم سے گئی گزری تھی، لیکن اس گئی گزری ٹیم سے ہارنے کے بعد ہم گئے گزرے ہو گئے اور 8ویں سے نویں نمبر پر چلے گئے۔ ہم نے ورلڈ ٹیسٹ چیمئین شپ کا اختتام نویں اور آخری نمبر پر کیا۔ یہ ایک بھیانک اور بدترین اختتام تھ ا، جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے ۔کم ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے۔
سب سے پہلے پاکستان کرکٹ بورڈ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پچھلے دو سالوں میں جو کچھ ہوا سلیکٹرز سے لے کر کوچز تک، کپتانی سے کوچز تک ہر ایک تبدیل ہوا اور ٹیم سلیکشن کے معاملات میں تبدیلیاں، پالیسی میں تبدیلیوں نے بھی ایک تسلسل پر پا نہیں ہونے دیا لیکن اس کے باوجود بھی جو انہوں نے کیا ۔کیا وہ ذمہ دار نہیں ہے۔ وہ بھی ذمہ دار ہیں۔
اور اہم سوال اس ٹیم کو چلانے والا کپتان، ان کی کتنی ذمہ داری ہے۔ کیا ان کی پرفارمنس ایسی ہے کہ ٹیم میں جگہ بنتی ہے۔ یاد رہے پاکستان کرکٹ بورڈ نے جب سنٹرل کنٹریکٹ دیا اور شان مسعود کا جو نام لکھا اس کے اگے لکھا سبجیکٹ ٹو ٹیسٹ کپتان۔ سبجیکٹ کبتانی ،یعنی اگر وہ کپتان نہیں ہے تو ان کی شاید ٹیم میں بھی جگہ نہیں ہے،کنٹریکٹ کے بھی اہل نہیں ہیں۔ یہ اس کی ایک تشریح ہے۔ یہ بڑی آسانی کے ساتھ بنتی ہے۔ یہ بات بھی آپ کے ذہن میں رہے کہ شان مسعود کو جس کی جگہ کپتان بنایا گیا تھا اس کی کپتان کی کارکردگی کیسی تھی۔ اسے بھی دیکھنا ہوگا۔
شان مسعود سے پہلے بابرعظم پاکستان کرکٹ ٹیم کی کپتانی کر رہے تھے ،ایک وقت میں وہ تینوں فارمیٹ کے کپتان تھے، 2021 سے 2023 کے سرکل میں انہوں نے 20 ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کے کپتانی کی، 10 میچ جیتے ،چھ ہارے یعنی چار میچ زیادہ ہی جیتے اور چار میچز ڈرا رہے۔ ان کا وننگ اور شکست 1.66 فیصد بنتا ہے لیکن اس کے باوجود بھی انہیں کپتانی سے ہٹنا پڑا ۔ان کی جگہ شان مسعود لائے گئے۔ یہ جو ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ سائیکل 25.2023کی تھی اس کی پہلی سیریز پاکستان نے سری لنکا میں بابر اعظم کی قیادت میں جیت لی تھی۔ اس کے باوجود بابرعظم ہٹائے گئے، تو اب شان مسعود لائے گئے ،شان مسعود نے باقی ماندہ 12 ٹیسٹ میچوں میں سے صرف تین جیتے اور نو ہارے، ان کی بدقسمتی ایک یہ بھی کہ ان کی قیادت میں پاکستان کوئی ٹیسٹ میچ ڈرا تک نہیں کھیل سکا۔ وننگ اور شکستوں کا جو تناسب بنتا ہے وہ 0.33 فیصد ہے۔ اگر ہم رواں صدی کے پاکستانی کپتانوں کا جائزہ لیں تو سرفراز احمد نے 13 میچوں میں کپتانی کی ۔چار جیتے ۔8 ہارے۔ ایک میچ ان کا ڈرا رہا وہ 0.50 فیصد پر ہیں۔ ان کا کپتانی کا جو دور تھا 2017 سے 2019 تک تھا ،ان سے پہلے اظہر علی نے 2016 سے 2020 کے درمیان مختلف اوقات میں نو میچوں میں قیادت کی ۔دو جیتے چار ہارے۔ تین ڈرا کھیلے۔ وہ بھی 0.50 فیصد پر ہیں۔ مصباح الحق پاکستان کے بہترین کپتانوں میں سے ایک۔ 56 ٹیسٹ میچوں میں سے 26 جیتے 19 ہارے 11 ا ڈرا کھیلے۔ 1.36 فیصد تناسب رہا ۔ ان سے قبل انضمام الحق نے 31 میچوں میں کپتانی کی 11 میچز جیتے 11 ہارے۔نو ڈرا.1.00 فیصد تناسب رہا ۔
ہمیں ماضی میں اسی کنڈیشنز میں چیف سلیکٹر عامر سہیل، کپتان انضمام الحق،چیئرمین پی سی بی،کوچز وقار اقر جاوید میاں دادسے سخت سے سخت سوال کرنے کا اتفاق ہوا لیکن کبھی ہمیں پلٹ کر یہ نہیں کہا گیا کہ آپ نے ہماری تضحیک کی ہے۔
اب رواں صدی یعنی 25 سال ،چوتھائی صدی کا یہ ریکارڈ آپ کی نظر کے سامنے آگیا تو وہ کپتان جس نے10 یا 10 سے زائد میچوں میں کپتانی کی ہو، ہم یہ پیمانہ رکھ کر دیکھتے ہیں کون کامیاب ہے۔ ان میں 10 یا 10 سے زائد میچز میں کپتانی کرنے والوں میںسے ایک انضمام الحق ہیں۔ دوسرے مصباح الحق ہیں اور تیسرے سرفراز احمد ہیں۔ چوتھے بابراعظم ہیں اور پانچویں شان مسعود ہیں ۔ان کے علاوہ جنہوں نے بھی کپتانی کی ان کے میچز کی تعداد 9رہی۔ وہ اظہر علی ہوں، وہ یونس خان ہوں، وہ محمد یوسف ہوں، ان کے میچز کی تعداد 9 رہی ۔ کہنے کا مطلب ہے وہ کپتان جنہوں نے اس صدی میں 10 یا 10 میچز سے زائد میں کپتانی کی ،ان میں شان مسعود پاکستان کے ناکام ترین کپتان ہیں۔ وہ کیسے؟ ہم آپ کو ثابت کرتے ہیں۔ 12 میچزمیں سے تین جیتے۔ 9 ہارے ۔کوئی ڈرا نہیں ،تو کامیابی اور ناکامی کا تناسب 0.33 فیصد ہے ۔بابرعظم کا 20 میچوں میں سے 10 جیتنا چھ ہارنا چار ڈرا کرنا 1.66فیصد بنتا ہے اور سرفراز احمد کا 13 میں سے چار جیتنا ،8ہارنا ایک ڈرا کرنا 0.50فیصد بنتا ہے اور اس کے علاوہ مصباح الحق کا 1.36 فیصد بنتا ہے اور انضمام الحق کا ایک فیصد بنتا ہے اور معین خان کا دو فیصد بنتا ہے تو یہ رواں صدی کے حوالے سے جو ہم نے اپ کو ریکارڈ دیئے ہیں اس میں شان مسعود0.33 پر کھڑے ہیں ۔ اب شان مسعود کا ٹیسٹ کیریئر دیکھتے ہیں۔ شان مسعود کا ٹیسٹ کیریئر ذرا توجہ سے دیکھتے ہیں۔
وہ کپتان جس نے10 یا 10 سے زائد میچوں میں کپتانی کی ہو، ہم یہ پیمانہ رکھ کر دیکھتے ہیں کون کامیاب ہے۔
شان مسعود نے رواں صدی میں 2013 میں ٹیسٹ ڈیبیو کیا اور ان کی ٹیسٹ عمر 12 سال ہو گئی ہے۔ 42 ٹیسٹ میچز کھیلے ہیں 80۔ اننگز ہیں ۔ایک مرتبہ ناٹ اؤٹ ۔ 2380 جی ہاں آپ نے ٹھیک پڑھا 2380 رنز ہیں۔ اور ایوریج 30.12 ہائی سکور 156 ہے اور جناب سٹرائک ریٹ 52.43 ہے ۔صرف چھ سنچریاں اور 11ہاف سنچریز ہیں۔ آپ ہمیں بتائیں کیا یہ پرفارمنس ہے ایک ایسے ملک کی کپتانی کرنے کی جس کی جس کی پاکٹ میں بڑے بڑے نامی گرامی کپتان گزرے ہیں ۔ویسٹ انڈیز کے خلاف ان کی پرفارمنس کا اندازہ اس سے لگائیں ،ملتان میں انہوں نے 52 رنز بنائے باقی11.15 اور 2 تک محدود رہے تو چار اننگزمیں ان کا سکور 80 ہےْاس سے پہلے جنوبی افریقہ میں ایک سنچری اور 3 ناکام اننگز ہیں۔ انگلینڈ کے خلاف گزشتہ سال انہوں نے پاکستان کے لیے اپہلے ٹیسٹ میں سنچری کی،پاکستان ہارا۔پھر اگلی دونوں اننگز میں ناکام گئے۔آخری 14 ٹیسٹ اننگز میں صرف 3 بار ہی وہ 30 سے اوپر جاسکے۔
جائیے اور پاکستان کا فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلیں ۔اپریل سے شروع ہونے والا کاؤنٹی کرکٹ دلیل نہیں ہوگی اس بات کی کہ وہاں آپ نے اتنی سنچریاں کر لیں۔ پاکستان کا ڈومیسٹک کرکٹ اس سال کھیلیں ،اپنے آپ کو ثابت کریں اور پھر پاکستانی ٹیم میں آئیں، کیونکہ پاکستان کرکٹ بورڈ سپن پچز بنا رہا ہے اور وہ ڈومیسٹک کرکٹ میں بھی ہونی چاہئیں تاکہ اس کی پریکٹس ہو ،تاکہ اپ اپنے ملک میں ناقابل شکست ہوں ،تاکہ اپ کو دنیا ایک فاتح کپتان کہہ سکے ،تاکہ کوئی آپ کو یہ سچ طعنہ نہ لگے کہ آپ کی کپتانی میں پاکستان آخری نمبر پر آیا ہے،تاکہ آپ کو بھی پہلے سے معلوم ہو کہ اگلا ٹیسٹ بابر کھیل رہا ہے یا نہیں کھیل رہا ہے
پاکستان کے ان کھلاڑیوں کے لیے یہ وقت آگیا ہے کہ یہ ہوں یا بابرعظم ہوں، انہیں ڈومیسٹک کرکٹ میں کھلایا جائے اور پھر ویسے سپن پچز بنائی جائیں جو ٹیسٹ کرکٹ میں تھیں اور انہیں کہا جائے کہ کھیلیں۔ ویرات کوہلی اور روہت شرما کو بھیجا جا سکتا ہے جو کیریئر کے اختتامی مراحل میں اور لیجنڈری لسٹ میں ہیں۔ کیا شان مسعود لیجنڈری پلیئر ہیں ۔ہرگز نہیں ۔بابر اعظم کے ساتھ دو سال سے جو کچھ ان کے ساتھ ہو رہا ہے وہ بھی فیب فور سے باہر نکل رہے ہیں، تو پاکستان کرکٹ بورڈ کا حق اور فرض ہے کہ وہ پڑوسی ملک کو دیکھے ،جہاں ویرات کوہلی اور روہت شرما سمیت تمام کھلاڑی کھیلتے نظر آرہےہیں۔ یہاں ہمارے پلیئرز نوابی کی زندگی گزارتے ہیں، ایسے میں پریس کانفرنس میں ان سے کوئی سوال کر لے، ان کی پرفارمنس کے حوالے سے یا ان کی کپتانی کے حوالے سے تو انہیں اپنی تضحیک محسوس ہوتی ہے۔ یہ ایک انتہائی افسوسناک امر ہے۔
ہمیں ماضی میں اسی کنڈیشنز میں چیف سلیکٹر عامر سہیل، کپتان انضمام الحق،چیئرمین پی سی بی،کوچز وقار اقر جاوید میاں دادسے سخت سے سخت سوال کرنے کا اتفاق ہوا لیکن کبھی ہمیں پلٹ کر یہ نہیں کہا گیا کہ آپ نے ہماری تضحیک کی ہے۔ ایک یہ سیدھا سا سوال تھا کہ کیا آپ اپنا فیصلہ خود کریں گے یا پاکستان کرکٹ بورڈ کا انتظار کریں گے۔ انہیں تضحیک محسوس ہوئی۔ انہیں اختیارات کا کمپرومائز تضحیک محسوس نہیں ہوا،اس سے ملتا سوال محسوس ہوا۔کیا جیسن گلیسپی نے متعدد بار یہ نہیں کہا کہ میرا کردار محدود کر دیا گیا ۔میرے اختیارات کو ختم کر دیا گیا ،میرا اب وہاں کام باقی نہیں بچا ۔ میں اس لیے چھوڑ گیا ۔کیا یہ اختیارات نہیں تھے کہ ان سے اختیارات چھینے گئے تو ایک ایسا سچ جو آپ کو کڑوا لگے تو اسے بہتر انداز میں بھی لیفٹ کر سکتے ہیں، جواب دے سکتے ہیں، لیکن کسی بھی صحافی کو چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو اس طرح کا جواب دینا ایک انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے۔ایسے مٰں اعلیٰ پڑھائی یا تھنڈا مزاج اپنا اثر چھوڑ دیتا ہے۔آپ کی پرفارمنس آپ کے سامنے ہے۔ پڑوسی ملک کے حالات سامنے ہیں۔ جائیے اور پاکستان کا فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلیں ۔اپریل سے شروع ہونے والا کاؤنٹی کرکٹ دلیل نہیں ہوگی اس بات کی کہ وہاں آپ نے اتنی سنچریاں کر لیں۔ پاکستان کا ڈومیسٹک کرکٹ اس سال کھیلیں ،اپنے آپ کو ثابت کریں اور پھر پاکستانی ٹیم میں آئیں، کیونکہ پاکستان کرکٹ بورڈ سپن پچز بنا رہا ہے اور وہ ڈومیسٹک کرکٹ میں بھی ہونی چاہئیں تاکہ اس کی پریکٹس ہو ،تاکہ اپ اپنے ملک میں ناقابل شکست ہوں ،تاکہ اپ کو دنیا ایک فاتح کپتان کہہ سکے ،تاکہ کوئی آپ کو یہ سچ طعنہ نہ لگے کہ آپ کی کپتانی میں پاکستان آخری نمبر پر آیا ہے،تاکہ آپ کو بھی پہلے سے معلوم ہو کہ اگلا ٹیسٹ بابر کھیل رہا ہے یا نہیں کھیل رہا ہے۔