عمران عثمانی کا تجزیہ۔ایشیا میں ایک ساتھ دو ٹیسٹ،راولپنڈی اور پونے میں ایک ہی حرکت،کیا کسی نے اگلی منزل کا سوچا۔کرکٹ پر تازہ ترین مضمون یہ ہے کہ ایشیا میں 2 ٹیسٹ کا آغاز ہونے کو ہے۔تو 24 اکتوبر 2024 کو دو ٹیسٹ میچ ایشیا میں شروع ہونے جا رہے ہیں ۔ایک راولپنڈی میں ،جہاں مقابلہ پاکستان بمقابلہ انگلینڈ، دوسرا پونے میں، جہاں بھارت بنام نیوزی لینڈ۔ اتفاق سے پاکستان اور بھارت دونوں میزبان ملک ہیں۔
اتفاق ہی ہے کہ بھارت نیوزی لینڈ سے پہلا ٹیسٹ ہار چکا ہے اور کافی سبکی ہوئی۔ جب بنگلور میں اس کی ٹیم 46 پر آؤٹ ہوئی۔ یہ المیہ کیوں ہوا۔ پچ ریڈنگ میں ناکامی پر۔ پاکستان کی ٹیم ملتان میں پہلا ٹیسٹ ہاری، پچ ریڈنگ میں ناکامی تو ہوگئی ہوگی،ساتھ میں پچ میکنگ میں بھی ناکامی ہوئی ۔کم سے کم بھارت میں پچ میکنگ میں ناکامی نہیں ہوئی ۔پچ بنانے میں کوئی پرابلم نہیں تھی۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ پچ کو سمجھنے میں تھوڑی مشکل آئی۔
پاکستان بمقابلہ انگلینڈ،راولپنڈی،تیسرا ٹیسٹ،24 اکتوبر سے،صبح 10 بجے پاکستانی ٹائم
بھارت بمقابلہ نیوزی لینڈ،پونے۔دوسرا ٹیسٹ،24 اکتوبر،صبح ساڑھے 9 بجے پاکستانی ٹائم
اب یہاں دلچسپ صورتحال ہے۔ پاکستان کو انگلینڈ کے خلاف سیریز بچانی ہے۔ جیتنی ہے ۔عرصہ ہوا۔ انگلینڈ سے ٹیسٹ۔سریز نہیں جیت پائے۔ شان مسعود جو کپتان ہیں، ان کی کپتانی بھی خطرے میں ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان نے ملتان میں جس طرح دوسرا ٹیسٹ جیتنے کے لیے ہر وہ غیر اخلاقی حربہ اختیار کیا، جسے انٹرنیشنل سطح پر نہیں سراہا گیا۔ استعمال شدہ پچ پر ٹیسٹ کھیلنا ٹیسٹ کرکٹ کی 147 تاریخ میں کبھی نہیں ہوا تھا۔ اس سے پہلے پاکستان پہلا ٹیسٹ ہارا۔ ٹیسٹ کرکٹ کی 147 سالہ تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ کوئی ٹیم 500 سکور کرے اور اننگز سے ہارے، لیکن پاکستان نے یہ دونوں کام کر دیے۔ پاکستان صبح کیا چاہ رہا ہے ہر حال میں صبح کا ٹیسٹ جیتنا ،اس کے لیے اس نے سپن ٹریک بنایا ہے ۔سپن ٹریک کا مطلب ہے کہ پیسر اڑا دیے ہیں ۔ ٹیم میں ایک پیسررکھا گیا ہے۔ دوسرے کو شامل کیا جانا ضروری تھا یا نہیں۔ ک یعنی انہیں اپنی پچ میکنگ، پچ ریڈنگ اور سلیکشن پر پورا اعتبار ہے ۔ادھر انگلینڈ نے بھی اپنا سپن ٹریک بڑھایا ہے، لیکن کم سے کم دو پیسرزس کے کھیل رہے ہیں۔یہاں تھوڑا سا رکتے ہیں۔
اب چلتے ہیں پونے۔ بھارتی کرکٹ ٹیم بھی اسپن وکٹیں بنانے میں مشہور ہے۔ انہیں گھر کا شیر بھی کہا جاتا ہے ،لیکن اب یہ محاورہ کمزور ہوتا جا رہا ہے
اس نے گزشتہ چار پانچ سالوں میں آسٹریلیا کو آسٹریلیا میں جا کرہرایاہے۔ انگلینڈ کو انگلینڈ میں ہرایا تو وہ ٹیم اب ان چیزوں سے قدرےبہتر ہو چکی ہے، اس کے باوجود بھی بھارتی ٹیم بھی رسک لینے کو تیار نہیں ہے۔ ہونے میں ایک اور خوفناک قسم کا سپن ٹریک بچھا دیا گیا ہے، تاکہ نیوزی لینڈ کے تیز فاسٹ باؤلرز کا ڈنگ کم کیا جا سکے اور اس کے پیٹرز کو اپنے سپنرز کی مدد سے گرفتار کیا جا سکے ،تو دونوں طرف ایک سوچ ہے ۔دونوں طرف بات ایک ہے اور دونوں کی عزت بھی دائوپر لگی ہوئی ہے ۔بھارت کی کچھ یوں لگی ہوئی ہے کہ وہ آخری بار 2012 میں انگلینڈ سے ہوم سپیریزہاراتھا۔ اس کے بعد کبھی نہیں ہارا،تو 12 سال ہونے کو آئے ہیں۔ اس کو وہاں کبھی ہوم سیریز میں ٹیسٹ سیریز میں شکست نہیں ہوئی۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ 2012 سے 2021 تک نو سالوں میں اس کے ملک میں غیر ملکی ٹیمیں صرف دو ٹیسٹ میچ جیت سکی تھیں۔ 2021 سے 2024 تک اگرچہ بھارت نےتین میچ ہارے ہیں۔ اتفاق سے سیریز کے ابتدائی ٹیسٹ ہارے ہیں لیکن اس نے کم بیک کرتے ہوئے نہ صرف اگلے ٹیسٹ جیتے بلکہ سیریز بھی بچا لی، تو بھارتی ٹیم یہاں بھی پہلا میچ ہاری ہے۔ توقع تو یہی ہے کہ وہ اپنی پچز کی مدد سے سیریز میں کم بیک کرے گی۔ وہ ٹیم جو گزشتہ 12 سالوں میں بمشکل اپنے ملک میں پانچ ٹیسٹ ہاری ہو اور سیریز ایک بھی نہ ہاری ہو ،اس کی عزت یوں داؤ پر لگی ہے کہ کہیں نیوزی لینڈ کی ٹیم یہ دوسرا ٹیسٹ نہ جیت جائے ۔ تین میچوں کی سیریز پر فل سٹاپ نہ لگا دے ۔اسے ہر حال میں یہ میچ جیتنا ہے ۔اس کے لیے سپن ٹریک ، وہ کام، ہر وہ نظریہ اور ہر وہ مدد جو جیتنے کے لیے ضروری ہے ،اشد ضروری یے۔
یہاں پاکستان میں بھی یہی چیز استعمال ہو رہی ہے ۔کپتان اور ہیڈ کوچ کو پتہ نہیں کون سے 11 کھلاڑی کھیلیں گے ۔سلیکٹرز نہ صرف ٹیم سلیکٹ کر رہے ہیں بلکہ پچ کے اوپر کھڑے ہو کے پچز بھی بنوا رہے ہیں ۔یعنی ہر حال میں انہوں نے میچ جیتنا ہے۔ جیسے اپنی عزت بچانی ہے ۔جیسے پی سی بی کی عزت بچانی ہے جیسے پاکستان کی عزت بچانی ہے۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے اور بھارت بھی جو کر رہا ہے۔ ہوم گراؤنڈ کے حوالے سے ایڈوانٹیج لے رہا ہے۔ ٹھیک ہے۔ ہر ملک کا اپنا ہوم گراؤنڈ، ایڈوانٹج ہوتا ہے جو وہ حاصل کرتا ہے، لیکن ہم 2024 میں جی رہے ہیں ۔برسوں پہلے جب یہ دونوں ممالک ہوم سیریز کھیلا کرتے تھے، تب بھی مشہور تھے، اسپن ٹریک میں بدنام تھے۔ کیا اس وقت کے زمانے کے فاسٹ باؤلرز عمران خان ،وسیم اکرم، وقار یونس، شعیب اختر، اس سے پہلے فضل محمود کو لے لو اس کے بعد دوسرے فاسٹ بائولرزکو لے لو اور اس صدی کے آوائل کے بائولرز لے لو،گویا پاکستان میں فاسٹ باؤلرز ماضی میں بڑے نامور گزرے ان کے ہوتے ہوئے سپن ٹریک بنے، لیکن ہم نے دیکھا کبھی ون سائیڈڈ ٹریفک نہیں تھی۔ ایسی ایک سائیڈ پر ساری چیزیں نہیں چل رہی تھیں۔ وہ بولرز بھی کھیلا کرتے تھے، سپنرز بھی اور کمبائنڈ ہو کر کبھی ریورس سوئنگ کی مدد سے ٹیسٹ میچ جیتا کر تے تھے ،کبھی اسپنرز جتواتے تھے۔مطلب یہ ہے کہ پیسرز اور سپنرز کا امتزاج کامیابی کی بنیاد ہوتا تھا۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ بیرونی دونوں پر انہیں اعتماد ملتا تھا۔ اب افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ میں بہت کچھ نیا ہو رہا ہے ۔
نیوزی لینڈ میں آج 23 اکتوبر کی صبح لسٹ اے کی ڈبل سنچری انفرادی پلیئر نے بنائی۔ تیز ترین ڈبل سنچری کا ریکارڈ بنایا جو کہ محدود اوورزکی کرکٹ میں 103 بالز پر تھا تو دنیا کدھر جا رہی ہے۔
تیز ٹریک کی طرف۔ آج ایک دوسری مثال لے لیں۔زمبابوے ٹیسٹ ملک ہے۔ زمبابوے نے ایک کوالیفائر ایونٹ میں کی ٹیم کے خلاف 344 رنز بنا ڈالے ۔
زمبابوے کی ٹیم نے آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کے سب ریجنل کوالیفائر میچ میں گیمبیا کے خلاف ریکارڈ 344 رنز بنا ڈالے۔آج آپ سب کی نظروں سے گزرے ہونگے۔
اس کو دیکھیں کہ دنیا کس طرف جا رہی ہے اور ہماری کرکٹ کس طرف ہے۔ سب سے آخر میں ایک اہم نقطہ ہے وہ نقطہ کبھی کسی نے سوچا ہے کہ پاکستان کی اس ٹیسٹ کے بعد اگلی منزل کہاں ہے۔ میں بتاتا چلوں اس ٹیسٹ کے بعد پاکستان نے اگلا ٹیسٹ جنوبی افریقہ میں کے کیپ ٹاؤن وغیرہ میں کھیلنا ہے۔ ایسی پیچز پر جو فاسٹ ٹریک کی ہوں گے۔ جہاں بہت مشکل پیش ائے گی۔
بھارت کے کمزور خواب بکھر گئے،نیوزی لینڈ نے بنگلورو ٹیسٹ جیت لیا،36 برس بعد کامیابی
کیا پاکستان کرکٹ بورڈ نے سوچا ہے،خاص کر اس کی ٹیم مینجمنٹ سرکردہ عاقب جاوید اور ان کے ساتھیوں نے کہ پاکستان کی ٹیم نے آگے کہاں ٹیسٹ میچ کھیلنا ہے۔ ساؤتھ افریقہ میں آج تک نہیں جیت سکے۔ ساؤتھ افریقہ کی تیز اور باؤنسی پچز پر ساجد خان کیا بولنگ کریں گے ۔کیا نعمان علی بال کریں گے۔ وہاں تو یاسر شاہ بھی ناکام ہو جایا کرتے تھے ۔ یہاں حالت یہ ہے کہ ہم نے ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے فاسٹ باؤلرز کو بے عزت کر کے پہلے ٹیسٹ کے بعد باہر نکالا۔ انہیں اعتماد پورا نہیں دیا ،تو یکدم ہم انہیں کس طرح واپس لیں گے اور وہ اپنا اعتماد کیسے بحال کریں گے۔ان کے سروں پر یہ تلوار بھی لٹک رہی ہوگی کہ اگر اس ٹیسٹ میں بھی ناکام ہوئے تو کہیں ریڈ بال کرکٹ کا فارمیٹ ہمیشہ کے لیے ہم پر بند نہ کر دیا جائے ۔پاکستان کرکٹ بورڈ نے کم سے کم اتنا تو سوچا ہوتا کہ پاکستان کی اگلی کرکٹ کہاں ہے۔ ہماری اگلی منزل کہاں ہے۔ صرف رات کا سوچا ہے۔ جیسے کپتان شان مسعود نے انگلینڈ کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میں جب میچ جیتا تھا ،تو پریس کانفرنس کے دوران ایک جملہ بولا تھا یہ ساری چیزیں اوورنائٹ نہیں ہوئیں۔ طویل پلاننگ کا نتیجہ ہے۔ یہ جملہ اپنے اندر سوال لیے ہوئے ہے کہ بظاہر تو جو کچھ بھی ہوا تھا اوورنائٹ ہی ہوا تھا ۔ہر چیز اوورنائٹ ہی چینج ہوئی تھی ،لیکن وہ نہیں مانتے تو نہ مانیں۔ کیا ہم اوورنائٹ کی کرکٹ کھیلتے ہیں ۔کیا اوورنائٹ کا یہ سوچتے ہیں ۔صبح تک کا سوچا کہ ٹیسٹ جیتناہے۔
سب سے آخر میں ایک اہم نقطہ ہے وہ نقطہ کبھی کسی نے سوچا ہے کہ پاکستان کی اس ٹیسٹ کے بعد اگلی منزل کہاں ہے۔
یہی حال انڈیا کا ہے کہ وہ اپنے ملک میں سپن پچز پرکھیل رہا ہے۔ اسکی اگلی منزل آسٹریلیا ہے۔ جہاں اس نے ٹیسٹ میچز کھیلنے ہیں۔ بارڈر گواسکر ٹرافی کی طویل سیریز ہے ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انڈیا کی ٹیم میں بہرحال اتنی اہلیت اور اتنا ٹیلنٹ موجود ہے کہ وہ آسٹریلیا میں سیٹ ہو لیں گے ۔پھر یہاں بھارت میں ان کے فاسٹ باؤلرز سپن پچز پر کھیل رہے ہیں۔ وکٹیں لے رہے ہیں ۔پاکستان کے باؤلر اس میں ناکام تھے، تو بہرحال پاکستان کے لیے بڑا المیہ ہے۔ انگلینڈ کے لیے اس لیے نہیں ہے کہ وہ یہاں اپنے دو دو پیسرزبھی کھلا رہے ہیں۔ پچھلے ٹیسٹ میں مجموعی طور پہ ان کے تین پیسرز کھیل رہے تھے۔ ان کی اگلی منزل نیوزی لینڈ ہے جہاں فاسٹ باؤلرز کا کام ہے ۔ پاکستان کی منزل ساؤتھ افریقہ ہے جو دو ماہ کی دوری پر ہے اور بھارت کی اگلی منزل آسٹریلیا ہے جو کم سے کم 30 40 دنوں کے بعد ٹیسٹ سیریز شروع ہو جائے گی ۔ نیوزی لینڈ میں اگلی منزل انگلینڈ کی ہے ۔وہ بھی اتنے ہی ایام میں شروع ہونے والی ہے، تو ہر ٹیم اپنی اگلی سیریز کو مد نظر رکھ کر اپنے پیسرز اور سپنرز دونوں کا استعمال کر رہی ہے، لیکن پاکستان ون وے ٹریفک پر ہے۔ جیسے یہ شاید اوورنائٹ کا سوچتے ہیں یہ۔ ڈے کا نہیں سوچتے۔
راولپنڈی ٹیسٹ،پاکستان کی حتمی الیون سامنے آگئی،کون سی تبدیلی
پاکستان کا پنڈی میں یو ٹرن،ہیڈ کوچ کا اعتراف ،انگلش ٹیم کی چھکوں کی پریکٹس ،سلیکٹرز اپنے منصوبوں میں