عمران عثمانی کی خصوصی رپورٹ
File Photo
انڈر 19 ورلڈ کپ کرکٹ ٹورنامنٹ 14 جنوری سے ویسٹ انڈیز میں شیڈول ہے۔کووڈ کے بڑھتے خطرات کے باعث یہ ایونٹ بھی اب شکوک میں رہے گا۔بنگلہ دیش نے 16 ممالک کے اس شو میں اپنے اعزاز کا دفاع کرنا ہے۔16 ممالک 4 گروپس میں تقسیم ہیں۔ہر گروپ کی ٹاپ 2،2 ٹیمیں اگلے مرحلے میں ہونگی،باقیوں کا سپرلیگ پلیٹ فائنلز کا شو سجے گا۔اس حوالہ سے مزید تفصیلات اگلے آرٹیکل میں پیش کی جائیں گی۔
یہاں ایونٹ کی مختصر تاریخ بیان کرنا مقصود ہے۔یہ انڈر 19 کھلاڑیوں کا 14 واں ورلڈ کپ ہوگا۔پہلی بار 1988 میں اسے یوتھ ورلڈ کپ کے نام سے شروع کیا گیا،پھر اسے توجہ نہ ملی۔10 سال بعد 1998 میں اسے آئی سی سی نے مکمل ٹیک اوور کیا۔توجہ کی۔نتیجہ میں اس کے بعد ہر 2 سال کے وقفہ سے یہ کھیلاجاتا ہے۔
انڈر 19 ایشیا کپ بھارت جیت گیا،فائنل میں سری لنکا کو شکست
انڈر 19 ورلڈ کپ آنے والی کرکٹ،سینیئر کرکٹ اور کرکٹرز دونوں کے لئے نہایت مفید ایونٹ ہے۔مستقبل کے سپر اسٹارز چھوٹے ہونے کے حالات میں اپنی پرفارم کرتے ہیں۔ویرات کوہلی ہوں،کرس گیل ہوں اور یا پھر برائن لارا ،سب کی تاریخ یہیں سے قوت پکڑتی ہے۔
بھارتی کرکٹ ٹیم کو یہاں یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے سب سے زیادہ 4 بار یہ ایونٹ اپنے نام کیا ہے۔آسٹریلیا 3 بار اور پاکستان 2 بار انڈر 19 چیمپئن بنے ہیں۔بنگلہ دیش،انگلینڈ،جنوبی افریقا اور ویسٹ انڈیز نے ایک ایک بار ٹرافی اٹھائی ہے۔
اس طرح ایک بات اور واضح ہوتی ہے۔سری لنکا اورنیوزی لینڈ تاریخ میں ایک بار بھی یہ ورلڈکپ نہیں جیت سکے ہیں،حالانکہ دونوں نے فائنل کھیل رکھا ہے۔یہ بات اپنے اعتبار سے منفرد ہے،کیویز کا یہ سلسلہ تو سینئر ورلڈ کپ میں بھی جاری ہے،سب سے زیادہ بار سیمی فائنل کھیل کربھی اسے چیمپئن بننے کا موقع نہیں ملا ہے۔
ایونٹ کی اصل تاریخ 33 سال پرانی ہے لیکن پہلے ایونٹ کو سائیڈ لائن کریں۔1998 سے چونکہ یہ تواتر سے ہوا ہے،تب سے جائزہ لیں تو بھارتی ٹیم دنیا کی واحد ٹیم ہے،جس نے ہر دور میں یہ ٹورنامنٹ جیتا ہے۔اس کے ٹائٹل گواہ ہیں،اس نے 200 میںپہلی بار اسے اپنے نام کیا۔پھر 2008 میں ایونٹ جیتا،اس کے 4 سال بعد 2012،پھر 6 سال بعد 2018 میں ٹرافی اڑالی۔یہ کارکردگی اور جیت کا تسلسل ہے،کوئی وقتیا دور راہ میں رکاوٹ نہیں بنا۔3 بار کے چیمپئن آسٹریلیا کو دیکھ لیں کہ 1988 کے بعد2002 اور پھر 2010 میں وہ جیتا،آخری عشرے میں 2 فائنل کھیل کر بھی اسے کپ نہیں ملا ہے۔
انگلینڈ کی حالت اس سے بھی پتلی رہی ہے۔1998 کی ٹرافی کے بعد وہ ترستے ہی رہ گئے ہیں۔آخری 7 سالوں میں 3 نئے چیمپئن ابھرے۔2014 میں جنوبی افریقا،2016 میں ویسٹ انڈیز اور 2020 میں بنگلہ دیش جیسے ممالک ڈیبیو چیمپئن بنے۔پاکستان کے لئے اچھی بات یہ تھی کہ اس نے 2004 اور 2006 میں مسلسل 2 بار یوتھ ورلڈ چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔افسوسناک بات یہ ہے کہ 16 واں سال چل رہا ہے،پاکستان پھر سے ورلڈ کپ جیت نہیں سکا ہے۔یہی نہیں پاکستان 2010 اور 2014 کے ایونٹس کے فائنل میں پہنچا،ایک بار آسٹریلیا سے شکست ہوئی۔دوسری بار 2014 میں جنوبی افریقاسے ہار ہوئی ۔یہ کارکردگی اچھی نہیں ہے۔
حال ہی میں پاکستان انڈر 19 ٹیم نے جس طرح ایشیا کپ سیمی فائنل میں سری لنکا سے مارکھائی،وہ افسوسناک بات بنی،اس کی وجہ یہ ہے کہ جس ٹیم نے دبائو سے بھرپور میچ میں بھارت جیسی سائیڈ کو ہرادیا ہو،اس کا اعتماد اور یقین آسامن پر ہونا چاہئے تھا،یہاں حالت یہ نکلی کہ آسمان تو کیا ہونا تھا،یہ زمین پر بھی نہیں رہے۔147 رنزکاہدف پورا نہ کرنے والے 20 فٹ زمین کے نیچے چلےجاتے ہیں،یہ بھی ایسے ہی گئے ،پاکستان جیتا ہوا کپ ہارگیا۔
کرکا گین کا ماننا ہے کہ پاکستانی ٹیم منیجمنٹ کمزور،کوچز فارغ اور سسٹم خراب ہے،مجھے نہیں لگتا کہ 2022 کا یہ ورلڈ کپ بھی یہ ٹیم جیت پائے گی،چنانچہ یہ پوری منیجمنٹ بھی اب گھر جانے کی تیاری کرلے۔ویسے بھی اس میں ایسے لوگ جڑے ہیں جو برسہا برس سے کام تو کررہے ہیں،نتائج نہیں دے پارہے ہیں،یہ افسوس ناک بات ہے۔
ایونٹ کی تاریخ میں انگلینڈ کی موجودہ سینئر ٹیم کے کپتان اوئن مورگن 606 اسکور کے ساتھ مجموعی ٹاپ اسکورز میں پہلے نمبر پر ہیں۔پاکستان کے بابر اعظم 585 اسکور کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں۔مورگن کی 13 اننگز ہیں،انہوں نے 2004 سے 2006 کے ایونٹس کھیلے،ادھر 2010 سے 2012 کے 2 کپ کھیلنے والے بابر اعظم کی 12 اننگز ہیں،ایک اننگ کم ہی کھیلی ہے۔
اس چیپٹر کی مزید دلچسپ معلومات اور موجودہ ایونٹ کے شیڈول سمیت فارمیٹ پر پوسٹس کا سلسلہ جاری رہے گا۔