کرک اگین رپورٹ
آسٹریلیا کے خلاف پہلا ٹیسٹ 4 مارچ سے راولپنڈی میں شروع ہورہا ہے۔پاکستان کی حتمی 12 رکنی ٹیم اور اس میں سے ممکنہ 11 کھلاڑی کرک اگین نے ظاہر کردیئے ہیں۔اعدادوشمار پریشان کن اورنگاہیں جھکادینے والے ہیں۔
پنڈی ٹیسٹ پچ پرجوا،ٹاس کا بھی غلط فیصلہ،پاکستان کو اننگ کی شکست
پاکستان کی آسٹریلیا کے خلاف پہلے ٹیسٹ میں حتمی الیون کیا ہوگی۔اس حوالہ سے قریب طے ہورہا ہے کہ کون کون کھیلے گا۔پاکستان نے گزشتہ سیریز سے آسٹریلیا اور انگلینڈ طرز پر ایک روز قبل 12 پلیئرز کے نام جاری کرنے کا سلسلہ شروع کردیا تھا،اس کامطلب یہ ہے کہ دونوں ممالک آج 3 مارچ کو اپنے پتے شو کردیں گے،ان سے حتمی 11 پلیئرز کا اندازا بھی ہوجائے گا۔
کرک اگین یہاں اپنی تحقیق کے مطابق 12 مکمل کھلاڑی اور 11 ممکنہ نام دے رہا ہے،اس میں معمولی ردوبدل ہوسکتا ہے لیکن 99 فیصد امید ہے کہ یہی 11 کھلاڑی کھیلیں گے۔
اوپنرز کے لئے عابد علی دستیاب نہیں ہیں۔عبد اللہ شفیق کے ساتھ شان مسعود اوپننگ کریں گے۔امام الحق کو نہیں کھلایا جائے گا۔اظہر علی اور بابر اعظم کے بعد فواد عالم اور محمد رضوان ہونگے۔نمبر 7 کے لئے وسیم جونیئر کو کھلایا جاسکتا ہے۔افتخار احمد بھی امیدوار ہیں۔اس نمبر پر پہلے فہیم اشرف ہوتے تھے تو وہ آل رائونڈر بھی تھے،اب پاکستان کو آل رائونڈر درکار ہے۔اس لئے وسیم جونیئر کو بطور آل رائونڈر اور پیسر کھیلیں گے۔8 ویں نمبر پر نعمان علی اور 9 ویں نمبر پرساجد خان ہونگے۔یہ 2 اسپنرز ہونگے۔
کورونا کا پاک آسٹریلیا سیریز پر حملہ جاری،فواد کا ٹیسٹ مثبت،پہلے میچ سے باہر
پاکستانی پیس اٹیک میں نسیم شاہ ہونگے۔ان کے ساتھ شاہین شاہ شاہ آفریدی ہونگے۔یہ حتمی 11 کھلاڑی ہوگئے۔12 ویں پلیئر افتخار احمد ہونگے۔
اب پاکستان کی اس پلیئنگ الیون میں کچھ مسائل ہیں۔عبد اللہ شفیق کے پاس صرف 2 میچزکا تجربہ ہے۔اسی طرح شان مسعود 14 ماہ بعد پاکستان کے لئے ٹیسٹ میں کم بیک کریں گے۔قائد اعظم ٹرافی اور پی ایس ایل کی فارم انہیں جلا بخش سکتی ہے،اس طرح ان کا یہ دوسرا ظہور ہوگا۔اظہر علی اور بابر اعظم گزشتہ 18 ماہ سے ناکام نہیں تو کامیاب بھی نہیں ہیں۔بابر اعظم کی اس فارمیٹ میں کوئی سنچری نہیں ہے۔12 سال سے پاکستان کے لئے کھیلنے والے اظہر علی تجربہ تو رکھتے ہیں لیکن فارم میں تسلسل ان کا خاصہ نہیں ہے۔اب آسٹریلیا کے تگڑے بائولنگ اٹیک کے سامنے یہ نہ چلے تو بوجھ فواد عالم اور محمدرضوان پر آئے گا۔دونوں نے تسلسل کے ساتھ گزشتہ سال مڈل آرڈر کو سنبھالا دیا ہے۔فواد کا اس بائولنگ اٹیک کے سامنے بڑا امتحان ہوگا۔
آئی سی سی ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ،پاکستان آسٹریلیا کو ہراکر نمبر ون بن سکتا،ممکنہ کنڈیشنز
وسیم جونیئر ٹیسٹ کیپ لیں گے،آسٹریلیا جیسی ٹیم کے خلاف ان کی پاکٹ میں صرف 7 فرسٹ کلاس میچ کا معمولی تجربہ ہے۔پی ایس ایل کی بائولنگ نے یہاں کام نہیں دینا۔ساجد خان اور نعمان علی بھی پاکستانی کیمپ میں 14 ماہ قبل تک کبھی نہیں تھے۔ناتجربہ کاری سامنے ہے۔اکیلے شاہین شاہ آفریدی بنیادی بائولر ضرور ہونگے۔گزشتہ سال کے کلینڈر ایئر کے دوسرے ٹاپ وکٹ ٹیکر ہیں،ان کی سپورٹ کے لئے نسیم شاہ کی لاٹری نکلی ہے۔تجربہ ان کے پاس بھی وہ نہیں ہے۔اہم بات یہ ہے کہ ان کے پاس ورائٹی بھی زیادہ اچھی نہیں ہے۔
ستائیس سالہ بابر اعظم کے پاس 37 ٹیسٹ اور2461 اسکور میں 5 سنچریز کا ساتھ ہے۔2016 میں ٹیسٹ ڈیبیو کیا تھا۔22 سالہ عبد اللہ شفیق نے 4 ماہ قبل نومبر 2021 میں بنگلہ دیش کے خلاف ڈیبیو کیا۔2 میچزمیں 150 اسکور ،کوئی سنچری نہیں ہے۔37 سالہ اظہر علی ایسے ہیں جو سب سے زیادہ 91 میچز،18 سنچریز،42 کی اوسط اور6721 اسکور بنائے ہوئے ہیں۔36 سالہ فواد عالم بھی عمر کے حساب سے تو سینئر ہیں۔صرف 15 میچزکھیلے ہیں۔5 سنچریز اچھی پرفارمنس ہے۔47 کیا وسط ہے،1000 رنز بھی نہیں ہوئے۔2009 میں ڈیبیو کرنے والے لیفٹ ہینڈ بیٹر کے پاس 953 اسکور کا خزانہ ہے۔سلیکشن کے ایشو نے انہیں پیچھے چھوڑا ہے۔
محمد رضوان 29 سال کے ہیں۔2016 میں ڈیبیو کیا۔19 ٹیسٹ میچزمیں 972 اسکور ہے۔ایک سنچری اور 7 ہاف سنچریز ہیں۔اوسط 42سے زائد ہے،بطور وکٹ کیپر اچھا ریکارڈ ہے۔ان سے بڑی امیدیں ہیں۔ہرعقسم کے فارمیٹ میں گزشتہ 12 ماہ سے اسکور کررہے ہیں۔
لیفٹ ہینڈ اوپنر شان مسعود 32 سال کی عمر میں 26 واں ٹیسٹ کھیلیں گے۔25 میچزمیں انہوں نے4 سنچریز بنائی ہیں۔30سے کم کی اوسط سے 1378 اسکور ہے۔2013 میں ٹیسٹ ڈیبیو کیا تھا۔28 سالہ اسپنر ساجد خان کے پاس 4 میچزمیں 18 وکٹ کا تجربہ ہے۔گزشتہ سال ہرارے میں ڈیبیو کیا تھا۔ایک اوراسپنر 35 سالہ نعمان علی ہیں۔گزشتہ سال کے شروع میں جنوبی افریقا کے خلاف ہوم میدانوں میں ڈیبیو کیا۔7 میچزمیں 19 وکٹیں لے سکے ہیں۔22 سالہ شاہین شاہ آفریدی نے 21 میچزمیں 86 وکٹیں لی ہیں۔2018 کا ڈیبیو ہے۔دائیں ہاتھ کے 19 سالہ نسیم شاہ میڈیم پیسر ہیں۔2019 میں آسٹریلیا کے دورے میں ٹیسٹ ڈیبیو کیا تھا لیکن اب تک ناکام چلے آرہے ہییں۔9 ٹیسٹ میچزمیں 20 وکٹیں کوئی کارکردگی نہیں ہے۔2016 میں ڈیبیو کرنے والے 31 سالہ افتخار احمد کے 3 ٹیسٹ میچزمیں 48 اسکور اور اکلوتی وکٹ ہے،علم نہیں کہ کیوں ٹیم کے ساتھ ہیں۔وسیم جونیئر کا پہلے ہی بتایا جاچکا ہے کہ کم عمر کھلاڑی کو آل رائونڈر کے طورپر ٹیسٹ کیپ مل سکتی ہے۔
کراچی کی بجائے راولپنڈی سے ٹیسٹ سیریز کا آغاز،آسٹریلیا کی چال یا پاکستان کی حماقت ،بڑا خطرہ
پاکستان کے اس بائولنگ اٹیک کے پاس صرف 138 وکٹ کا تجربہ ہے،اس میں سے افتخار کو نکالا جائے تو 137 وکٹیں ہیں۔یہ پورے بائولنگ اٹیک کی کہانی ہے۔اگر اس نے ڈیوڈ وارنر،نمبر ون پلیئر لبوشین اور سٹیون سمتھ جیسے بیٹرز کا مقابلہ کرنا ہے تو کمال ہی ہوگا۔اسی طرح پیٹ کمنز،مچل سٹارک،ہیزل ووڈ اور لیتھن لائن کو دیکھا جائے تو ہر ایک پاکستان کے 5 بائولرز سے زیادہ وکٹیں رکھتا ہے ۔